کالمز

موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور ہماری ذمہ داریاں

گلگت بلتستان کے ضلع دیامر کے تھک نالے میں حالیہ سیلاب کی تباہی محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ ایک اجتماعی سانحہ ہے، جو ہماری ناقص منصوبہ بندی، ماحولیاتی بے حسی اور انسانی غفلت کی دردناک عکاسی ہے۔
 بارشوں کے بعد اچانک آنے والے طوفانی ریلے نے چند لمحوں میں ان وادیوں کو تباہی کے مارے ملبے میں تبدیل کر دیا۔ وہ سیاح جو چہروں پر خوشیاں لئے ان حسین قدرتی مناظر سے لطف اندوز ہونے آئے تھے، اچانک موت کی گہرائیوں میں جا گرے۔ جو بچ گئے، وہ زخمی حالت میں اسپتال پہنچے، اور کئی لاپتہ افراد کی تلاش جاری ہے۔
 یہ منظر محض پانی کے بہاؤ کا نہیں، بلکہ انسانوں کی امیدوں، خوابوں اور عزیزوں کے خاتمے کا ایک غمگین لمحہ تھا۔ جب آسمان کی رحمت زمین پر زحمت بن کر برستی ہے، تو انسان کی بے بسی اور قدرت کے سامنے اس کی ناتواں حیثیت بے نقاب ہو جاتی ہے۔
گذشتہ چند دنوں سے پورے گلگت بلتستان اور ملک کے دیگر حصوں میں اسی نوعیت کی آفات پیش آ رہی ہیں۔ کہیں موسمی بارشوں کی شدت نے ندی نالوں کو سیلاب میں بدل دیا، تو کہیں گلیشئرز کے تیزی سے پگھلنے اور گلیشائی جھیلوں کے پھٹنے سے انسانی جان و مال کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ 
ماہرین موسمیاتی تبدیلیوں کو ان قدرتی آفات کا بنیادی سبب قرار دے کر حکومتی و عوامی سطح پر فوری اور موثر اقدامات پر زور دے رہے ہیں، مگر ہم اس چیلنج کو سنجیدگی سے نہیں لے رہے۔ حکومت کی جانب سے حفاظتی تدابیر میں سستی اور عوام کی طرف سے احتیاطی اقدامات کی کمی ہر سال وسیع تباہی اور انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔
 افسوس کی بات ہے کہ ہم ہر سال ان آفات کی تباہ کاریوں کو صرف ایک حادثہ سمجھ کر افسوس کا اظہار کرتے ہیں، لیکن اس سے سبق حاصل کرنے کی کوشش نہیں کرتے۔
یہ وقت ہے کہ ہم اس حقیقت کو تسلیم کریں کہ یہ قدرتی آفات صرف موسمیاتی تبدیلی کا نتیجہ نہیں، بلکہ انسانی سرگرمیوں اور رویوں کا بھی ایک عکاس ہیں۔ جنگلات کی اندھی کٹائی، ندی نالوں پر تجاوزات، ناقص انفراسٹرکچر، اور ماحولیاتی توازن کو بگاڑنے جیسے عوامل نے ان تباہ کاریوں کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
 تھک نالے میں ہونے والی تباہی کے ساتھ جنگلات کی بے تحاشا کٹائی کے واضح آثار نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ ہم اپنی ہی تباہی کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہونا چاہیے کہ قدرتی وسائل کی بے دریغ کٹائی اور ماحولیاتی نظام کی حفاظت میں ناکامی، مستقبل میں اور بھی بڑے بحرانوں کو جنم دے گی۔
اگرچہ ہم اس خطے کی خوبصورتی کو سیاحت کے ذریعے فروغ دینے کے خواہاں ہیں، مگر سیاحوں اور مقامی لوگوں کی حفاظت کے لیے مؤثر اور دیرپا اقدامات کیے بغیر یہ خواہش محض ایک خواب ثابت ہوگی۔ بروقت اور مستند موسمی معلومات کی فراہمی، نشیبی علاقوں میں رہائشیوں کو خبردار کرنے والے مؤثر وارننگ سسٹمز، ہنگامی حالات میں محفوظ رہائش، خوراک، اور متبادل راستوں کی مناسب سہولیات فراہم کرنا ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔ ورنہ موسمی تبدیلیوں کے اثرات بڑھتے جائیں گے اور انسانی و مالی نقصان میں اضافہ ہوتا رہے گا۔
اطمینان کی بات یہ ہے کہ تھک نالہ میں سیلاب کے دوران دیامر کے نوجوانوں نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر متاثرین کی جو مدد کی، وہ انسانیت کی اعلیٰ مثال ہے۔ کسی نے زخمیوں کو کندھوں پر اٹھایا، کسی نے بے سہارا بچوں کو گود میں لے کر محفوظ مقام تک پہنچایا، اور کسی نے  قیمتی سامان بچانے میں تگ و دو کیا۔ ان کے چہروں پر خوف کے بجائے خدمت کا جذبہ نظر آیا، جو اس خطے کے لوگوں کی سب سے بڑی طاقت ہے۔
 مگر یہ جذبہ اگر تربیت اور منظم حکمت عملی کے بغیر رہ گیا تو ایک دن ناکافی ثابت ہوگا۔ اس لیے آفات سے نمٹنے کی باقاعدہ تربیت، ہنگامی ردعمل کے نظام کی بہتری، اور ماحولیاتی شعور کی بیداری آج کے دور کا ناگزیر تقاضا ہے۔
آخر میں، میں سیلاب کی لپیٹ میں آ کر جان کی بازی ہارنے والے سیاحوں کے لیے دعائے مغفرت اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے خلوص نیک تمنائیں پیش کرتا ہوں۔ امید ہے کہ اس دردناک واقعے سے سبق سیکھ کر ہم اپنی مشترکہ ذمہ داریوں کو بہتر طور پر سمجھیں گے اور اپنے قدرتی وسائل اور انسانوں کی حفاظت کے لیے عملی اقدامات کریں گے، تاکہ آئندہ ایسے المناک حادثات کی شدت کو کم کیا جا سکے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button