
دنیور میں سیلاب سے متاثرہ واٹر چینل کی بحالی کے دوران ملبے تلے دب کر سات رضاکاروں کی اموات اور کئی رضاکاروں کے زخمی ہونے کا واقعہ انتہائی دلخراش اور دردناک ہے۔ ہم جاں بحق ہونے والے رضاکاروں کے لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کے لیے دعاگو ہیں۔
یہ واقعہ ایسے حالات میں پیش آیا ہے جب دنیور اور سلطان آباد کے عوام گزشتہ تین ہفتوں سے پانی کی بوند بوند کے لیے ترس رہے ہیں۔ تین ہفتے قبل دنیور نالے میں سیلاب کے باعث دنیور اور سلطان آباد کے واٹر چینلز کے سربند مکمل طور پر تباہ ہوگئے تھے۔
گزشتہ تین ہفتوں سے دونوں گاؤں کا پانی مکمل بند ہونے کی وجہ سے درخت، فصلیں اور کھیت سوکھ گئے ہیں۔ گزشتہ روز وہاں سے گزرتے ہوئے محسوس ہوا کہ دونوں سرسبز گاؤں کی خوبصورتی ماند پڑ رہی ہے۔ گھروں میں خواتین، بچے، بزرگ، افرادِ باہم معذوری اور بیمار لوگ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے شدید ذہنی کوفت کا شکار ہیں۔ کئی خواتین اور مردوں نے ہم سے یہ شکایت کی کہ وہ گھروں میں کھانا پکانے، کپڑے دھونے اور اپنے کھیت اور کیاریوں کو پانی نہ ملنے کی وجہ سے ذہنی دباؤ کا شکار ہیں۔ حتیٰ کہ بعض محلوں میں پینے کا پانی بھی دستیاب نہیں ہے۔ ان حالات میں مقامی لوگوں کے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ حکومتی امداد کا انتظار کرنے کی بجائے اپنی مدد آپ کے تحت واٹر چینلز کی بحالی کا کام شروع کریں۔
گلگت بلتستان کے لوگوں کی یہ صدیوں پرانی روایت اور خوبی ہے کہ وہ قدرتی آفات اور دیگر مشکلات میں ایک دوسرے کی رضاکارانہ مدد کرتے اور اجتماعی مسائل سے نمٹنے کے لیے مل جل کر اپنی مدد آپ کے تحت سخت ترین کام کرتے ہیں۔
مشکل حالات سے نمٹنے کے لیے دنیور کے رضاکاروں کی یہ کوشش اسی روایت کی زندہ مثال ہے، جس کے لیے مقامی رضاکار خراجِ تحسین اور خراجِ عقیدت کے مستحق ہیں، لیکن اس ضمن میں حکومت کے ان محکموں کی بھی ذمہ داری بنتی ہے جو انہی مقاصد کے لیے قائم کیے گئے ہیں۔ مقامی لوگوں نے حکومت کو جگانے کے لیے احتجاجی مظاہروں کا سہارا نہیں لیا بلکہ خود یہ ذمہ داریاں اٹھائیں، کیونکہ وہ پانی کی بندش کی وجہ سے سخت مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔ پانی کی بحالی کے اس عظیم مشن پر کاربند نوجوان رضاکاروں کے ساتھ کام کے دوران گزشتہ رات یہ المناک حادثہ پیش آیا۔ اب حکومت کی ذمہ داری ہے کہ متاثرہ خاندانوں کے اس غم میں ان کے شانہ بشانہ کھڑی ہو جائے اور ان کی داد رسی میں کوئی کسر باقی نہ رکھے۔
رضاکارانہ خدمات کے دوران جان کی قربانی دینے والے یہ تمام رضاکار اعلیٰ ترین سول ایوارڈز کے مستحق ہیں۔