کالمز

     پانی ۔۔۔۔۔بلائے ناگہانی

 سنتے آئے ہیں کہ انسانی جسم 75٪ پانی پر مبنی ہے جبکہ دنیا کا 70٪ حصہ بھی پانی ہے لیکن کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ پانی جیسی چیز زندگی کے درپے ہو جائے گی۔ اہل وطن آج کل شمالی علاقہ جات میں آنے والے سیلابوں سے تو واقف ہی ہوں گے۔ گلوبل وارمنگ، گلیشیئرز کو پگھلانے اور طغیانی کا باعث بن رہی ہے۔ یوں تو ملکی اور غیر ملکی سیاح گھومنے کے لیے گلگت بلتستان کا رخ کرتے ہیں لیکن جب کبھی وہ علاقے قدرتی آفات کی لپیٹ میں آتے ہیں تو ان کی جانب سے آنکھ کان بند کرکے بیٹھ جاتے ہیں۔ کبھی ہم یہ کیوں نہیں کرتے کہ ان علاقوں میں ان آفات کے موقع پر جائیں اور مقامی افراد کی مدد کروائیں۔
 گزشتہ روز  گلگت بلتستان کے علاقے دنیور میں مقامی رضاکار سیلاب سے متاثرہ واٹر چینل کی بحالی کا کام کر رہے تھے کہ ان پر مٹی کا تودہ آگرا۔  لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں ملبے تلے دب کر  آٹھ رضاکار جاں بحق ہو گئے جبکہ کچھ زخمی بھی ہوئے۔ وہ رضاکار اپنے گھر سے نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی آسانی تلاش کرنے نکلے تھے کہ اس سانحے کی بھینٹ چڑھ گئے۔ نہ جانے ان میں سے کون اپنے گھر کا واحد کفیل ہوگا یا کون اپنے گھر والوں کے اچھے مستقبل کے لیے روشن امید ہوگا۔ لیکن اب سب خاک میں مل گیا۔
 یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ گلگت بلتستان والے آخر کب تک اپنی مدد آپ کے تحت اپنے لیے زندگی کی ضروریات کا بندوبست کرتے رہیں گے۔ کیا حکومتِ وقت صرف ایسے سانحات ہونے کے بعد افسوس کا اظہار کرنے اور کمیٹیوں کی تشکیل کے لیے ہی رہ گئی ہے؟
قیامِ پاکستان سے لیکر اب تک ہنزہ سمیت گلگت بلتستان کے باسیوں نے ہمیشہ ہی جدوجہد کے اصول کو اپنایا ہے۔ اس ملک میں رہتے ہوئے بھی وہ دیگر صوبوں کی طرح کی مراعات کے حقدار نہیں ٹھہرتے۔ اس پر بھی وہ کوئی شکوہ کرنے کے بجائے زندگی سے اپنے حصہ کی خوشیاں اور سہولیات کشید کرہی لیتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شکوہ نہیں کرتا شکایت نہیں کرتا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اسے کوئی گلہ بھی نہیں۔ خدارا مشکل علاقوں میں رہنے والوں کی مشکلات میں اضافہ نہ کریں۔ یہ وقت اس امر کا متقاضی ہے کہ گلگت بلتستان کو اس کا جائز حق دیا جائے۔ وہاں کے رہائشیوں کو حکومت کی جانب سے سہولیات فراہم کی جائیں تاکہ آئندہ ایسی ناگہانی آفات سے بچا جا سکے ورنہ وہ دن دور نہیں جب اپنی مدد آپ کے تحت چلنے والے ان لوگوں کو اپنی حکومت سے جواب مانگنا پڑ جائے اور تب آپ کے پاس نہ تو ان کے سوالوں کے جواب ہوں اور نہ ہی ان کی شکایات کے ازالے کے لیے مہلت۔ اب بھی وقت ہے سنبھل جائیں کیونکہ سیاست کے اس کھیل میں ہمیشہ معصوم جانیں ہی داؤ پر لگتی ہیں ۔ پھر چاہے شے اور مات کسی کا بھی مقدر بنے ہارنے والے دونوں ہی اپنے ہوتے ہیں۔
ازقلم،
علینہ عرفان سخی۔

آپ کی رائے

comments

علینہ عرفان سخی

علینہ عرفان ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز ہیں اور تدریس و صحافت کے شعبے سے وابستہ رہی ہیں۔ وہ جناح یونیورسٹی میں لیکچرار اور ڈان نیوز میں کاپی ایڈیٹر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں۔ ان کے مضامین ملک کے نامور اخبارات اور رسائل میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ اب تک ان کی تین کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں، جبکہ چوتھی کتاب عنقریب شائع ہونے والی ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button