قدرتی آفات سے نمٹنے کے پانچ اہم مراحل

قدرتی آفات محض زمین کا لرزنا یا پانی کا بپھرنا نہیں، یہ انسان کی کمزوری اور فطرت کی بے مہار طاقت کا وہ مکالمہ ہیں جو ہماری بساط چھوٹا کر دیتا ہے۔ جب پہاڑ اپنی خاموشی توڑتے ہیں، ندیاں طغیانی میں سب کچھ بہا لے جاتی ہیں اور برفانی دیواریں گر کر وادیوں کو ڈھانپ لیتی ہیں تو بستیاں کھنڈر بن جاتی ہیں اور خواب ملبے تلے دب جاتے ہیں۔ لیکن یہ حقیقت بھی اپنی جگہ مسلم ہے کہ عقل و تدبیر سے ہم ان آفات کے وار کو کم کر سکتے ہیں۔ یہی تدبیر پانچ مربوط مراحل میں سمٹی ہوئی ہے جن میں روک تھام، تخفیف، تیاری، ردعمل اور بحالی شامل ہے ، یہ محض الفاظ نہیں بلکہ زندگی کی ضمانت ہیں۔
پہلا مرحلہ روک تھام کا ہے۔ آفات سے بچاؤ کی بنیاد اس وقت رکھی جاتی ہے جب خطرہ ابھی امکان کی حد میں ہو۔ گلگت بلتستان کے دس اضلاع گلگت، ہنزہ، نگر، غذر، گانچھے، اسکردو، شگر، کھرمنگ، دیامر اور استور اپنی اپنی نوعیت کے خطرات رکھتے ہیں۔ لینڈ سلائیڈنگ، برفانی جھیلوں کے پھٹنے اور زلزلوں کا سامنا سب سے بڑا چیلنج ہے۔ ان خطروں کی بروقت نشاندہی روک تھام کی پہلی شرط ہے۔ مثال کے طور پر پہاڑی ڈھلوانوں پر تعمیرات پر پابندی یا سیلابی میدانوں میں غیر قانونی عمارتوں کا انسداد مستقبل کے نقصانات کو کم کرتا ہے۔ اسی طرح بلڈنگ کوڈز کا سخت نفاذ روک تھام کی ناگزیر تدبیر ہے۔ گلگت بلتستان میں یہ ضابطے محض کتابوں تک محدود نہ رہیں بلکہ عملی صورت اختیار کریں، ورنہ قدرتی آفات ہر بار ہمیں بے بس کر دیں گی۔
دوسرا مرحلہ تخفیف کا ہے۔ جب خطرے کو روکنا ممکن نہ ہو تو نقصان کو کم کرنے کے اقدامات ناگزیر ہو جاتے ہیں۔ گلگت بلتستان میں بند باندھنے کے کئی منصوبے تخفیف کی کامیاب مثال ہیں۔ مختلف اضلاع کے نالوں پر بنائے گئے حفاظتی پشتے سیلابی ریلوں کو بستیوں سے دور رکھنے میں مددگار ثابت ہوئے۔ اسی طرح، نالوں اور دریاوں کے کناروں پر تعمیر کردہ فلڈ پروٹیکشن ڈائیکس بھی قابلِ ذکر ہیں۔ مؤثر ڈرینیج سسٹم، آفات کی انشورنس اسکیمیں اور کمیونٹی لیول پر حفاظتی ڈھانچوں کی تعمیر اس مرحلے کو مضبوط کرسکتی ہیں۔
تیسرا مرحلہ تیاری کا ہے۔ تیاری دانش مندی کا وہ امتحان ہے جس میں کامیابی زندگی بچاتی ہے۔ اس میں محفوظ انخلا کے راستوں کا تعین، ہنگامی ذخیرہ تیار رکھنا اور کمیونٹی کی تربیت بنیادی حیثیت رکھتے ہیں۔ تمام اضلاع میں محفوظ پناہ گاہوں کا قیام اور مقامی رضاکاروں کی تربیت تیاری کے لازمی حصہ ہونا چاہئے ۔ ارلی وارننگ سسٹم اس تیاری کی روح ہے، لیکن گلگت بلتستان میں یہ نظام بدعنوانی اور غفلت کی نذر ہوا۔ اگر یہ سسٹم شفافیت کے ساتھ فعال ہوتا تو دائین، کھٹم اور بابوسر جیسے سانحات میں جانی نقصان کم ہو سکتا تھا۔ دنیا کے کئی خطوں میں یہی نظام ہزاروں زندگیاں بچانے کا ذریعہ ہے، راوشن کے چرواہوں کی ایک کال نے سینکڑوں جانیں بچالیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ارلی وارننگ کی کتنی اہمیت ہے۔
چوتھا مرحلہ ردعمل کا ہے۔ یہ وہ لمحہ ہے جب آفت ٹوٹتی ہے اور ہر پل قیمتی ہوتا ہے۔ گلگت بلتستان کے لوگ اس مرحلے میں اپنی بہادری کی مثالیں قائم کرتے رہے ہیں۔ دائین اور رواشن کے سیلابوں میں مقامی رضاکاروں نے اپنی جانیں داؤ پر لگا کر محصور لوگوں کو بچایا۔ عطاء آباد جھیل کے قیام کے بعد ہنزہ کی وادی کا منظر نامہ بدل گیا، لیکن متاثرہ خاندانوں کو کشتیوں اور ہیلی کاپٹروں کے ذریعے محفوظ مقامات پر پہنچانا اسی ردعمل کا حصہ ہے۔ مختلف اضلاع میں قدرتی آفات کے بعد سرچ اینڈ ریسکیو آپریشنز نے کئی زندگیاں بچائیں۔ فوری طبی امداد، خیمے اور بنیادی ضروریات کا بندوبست اسی مرحلے میں ہوتا ہے۔
پانچواں مرحلہ بحالی کا ہے۔ یہ سب سے طویل اور صبر آزما مرحلہ ہے، مگر امید کی سب سے روشن کرن بھی یہی ہے۔ بحالی صرف تباہ شدہ مکانات کی تعمیر نہیں، بلکہ زندگی کو نئے سرے سے ترتیب دینے کا نام ہے۔ بوبر کا ماڈل ویلیج اس کی شاندار مثال ہے، جہاں کچھ سالوں قبل سیلاب کی تباہی کے بعد بوبر عوامی کمیٹی نے نہ صرف گھروں کی تعمیر نو کی بلکہ جدید اور موسمیاتی لچکدار ڈیزائن متعارف کرائے۔ بحالی تین سطحوں پر ہوتی ہے ایک ہے فوری بحالی، متاثرہ افراد کو خوراک، عارضی رہائش، طبی سہولیات اور سب سے بڑھ کر نفسیاتی مدد فراہم کرنا، تاکہ خوف اور صدمے کے سائے کم ہو سکیں۔ حالیہ آفات کے بعد غذر میں خواتین، بزرگوں اور بچوں کے لیے سائیکو سوشل سپورٹ پروگرام متعارف کرانا نہایت ضروری ہے، کیونکہ یہ متاثرین کا سب سے پوشیدہ مگر گہرا زخم ہے۔
دوسرا ہے تعمیر نو ، یعنی تباہ شدہ سڑکیں، پل، اسکول اور صحت کے مراکز دوبارہ تعمیر کرنا، روزگار کے مواقع پیدا کرنا اور معیشت کو بحال کرنا۔
تیسرا ہے طویل مدتی بحال، یعنی بلند مقامات پر مکانات کی تعمیر، جدید ڈرینیج سسٹم، اور موسمیاتی لچکدار زراعت کا فروغ تاکہ آئندہ نسلیں انہی آفات کا شکار نہ ہوں۔
یہ پانچوں مراحل زنجیر کی کڑیوں کی مانند ہیں۔ اگر پہلا اور دوسرا مرحلہ مضبوط ہوں تو تیسرے اور چوتھے کا بوجھ کم ہو جاتا ہے، اور بحالی آسان ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر بحالی کے دوران مستقبل کو نظر انداز کیا گیا تو تاریخ ہمیں بار بار انہی کھنڈروں پر لا کھڑا کرے گی۔ گلگت بلتستان کے برف پوش پہاڑ، بپھرتے دریا اور بے نیاز گلیشیئر ہمیں یہ پیغام دیتے ہیں کہ فطرت کے ساتھ ہم آہنگی ہی بقا کی ضمانت ہے۔ آج ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اس پیغام کو سنجیدگی سے لیتے ہیں یا آنے والے طوفانوں کے رحم و کرم پر خود کو چھوڑ دیتے ہیں۔