کالمز

کم از کم اجرت کے نفاذ پر انتظامیہ اور نجی تعلیمی ادارے آمنے سامنے

حکومت نے تمام سرکاری و نجی اداروں کے ملازمین کے لیے کم از کم ماہانہ اجرت 37 ہزار روپے مقرر کر دی ہے اور اس پر عملدرآمد کے لیے ڈائریکٹوریٹ آف انڈسٹریز، لیبر اینڈ کامرس بلتستان ڈویژن نے ہدایت جاری کی ہے کہ تنخواہیں بینک اکاؤنٹس کے ذریعے ادا کی جائیں تاکہ شفافیت اور جوابدہی کو یقینی بنایا جا سکے۔ اس کے ساتھ ہی اداروں کو دس دن کے اندر عملدرآمد رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت دی گئی ہے، بصورت دیگر سخت قانونی کارروائی کی وارننگ دی گئی ہے۔

اسسٹنٹ کمشنر و سب ڈویژنل مجسٹریٹ سکردو احسان الحق نے بھی ایک اشتہار کے ذریعے واضح کر دیا ہے کہ تمام نجی اداروں کے مالکان اور سربراہان کم از کم اجرت کی ادائیگی ہر صورت یقینی بنائیں، ورنہ قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی ہوگی۔ یہ اعلان 8 ستمبر 2025 کو باضابطہ طور پر جاری کیا گیا۔

ادھر نجی تعلیمی اداروں نے اس فیصلے پر شدید تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ پرائیویٹ ایجوکیشنل نیٹ ورک (PEN) بلتستان کے مطابق خطے کے زیادہ تر پرائیویٹ سکول محدود وسائل کے تحت تعلیمی خدمات فراہم کر رہے ہیں اور ان کی آمدنی کا واحد ذریعہ طلبہ کی فیسیں ہیں۔ اچانک اجرت میں اضافہ اداروں پر بھاری مالی بوجھ ڈالے گا جس کا براہ راست اثر والدین پر پڑے گا۔ اداروں کا مؤقف ہے کہ اگر حکومت یہ فیصلہ نافذ کرنا چاہتی ہے تو انہیں سبسڈی اور مالی معاونت فراہم کرے، ورنہ نجی ادارے بند ہونے پر مجبور ہو جائیں گے جس سے طلبہ کا مستقبل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نجی ادارے بلتستان جیسے پسماندہ خطے میں حکومت کے ساتھ مل کر تعلیمی خلا کو پورا کر رہے ہیں، اس لیے ان کے کردار کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔

والدین کی ایک بڑی تعداد نے انتظامیہ کے فیصلے کو خوش آئند اور لائقِ تحسین قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق اس اقدام سے اساتذہ اور دیگر ملازمین کو معاشی ریلیف ملے گا اور معیار تعلیم پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ والدین کا کہنا ہے کہ اساتذہ بچوں کے مستقبل کی تعمیر میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں، لہٰذا ان کی محنت کا مناسب صلہ ملنا ناگزیر ہے۔

اساتذہ اور دیگر ملازمین نے بھی اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے اور انتظامیہ سے فوری عملدرآمد کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ طویل عرصے سے محدود تنخواہوں پر گزارا کر رہے تھے، حکومت کا یہ فیصلہ ان کے لیے بڑی سہولت کا باعث ہے اور ان کی معاشی مشکلات میں کمی لائے گا۔ تاہم پرائیویٹ تعلیمی اداروں میں کام کرنے والے اساتذہ سمیت دیگر ملازمین کا اصل امتحان اب شروع ہو گیا ہے، کیونکہ ایک طرف وہ حکومت کے فیصلے کے مطابق اپنے حقوق کے منتظر ہیں اور دوسری جانب ادارے مالی مشکلات کا حوالہ دے کر فیصلے پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔

یہ سارا معاملہ اس حقیقت کو اجاگر کرتا ہے کہ ایک طرف حکومت کا مقصد محنت کش طبقے کو ریلیف دینا ہے، جبکہ دوسری طرف نجی ادارے اپنی بقا اور والدین کی مالی استطاعت کا حوالہ دے کر اس فیصلے پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس مسئلے کا مستقل حل صرف اسی وقت ممکن ہے جب حکومت، نجی ادارے، والدین اور اساتذہ باہمی مشاورت سے ایک قابلِ عمل لائحہ عمل تیار کریں، تاکہ اساتذہ اور ملازمین کو ان کا حق ملے اور والدین پر ناقابلِ برداشت مالی بوجھ نہ پڑے۔ یہ وقت ہے کہ تمام فریقین سنجیدگی سے بیٹھیں اور بلتستان کے بچوں کا تعلیمی مستقبل محض انتظامی فیصلوں یا مالی دباؤ کی نذر نہ ہونے دیں۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button