کالمز

قاضی نثار احمد پر حملہ: چند سوالات

یہ اطلاع بڑے دکھ اور گہری تشویش کے ساتھ اپنے احباب کو پہنچائی جاتی ہے کہ تنظیم اہلِ سنّت و الجماعت گلگت بلتستان و کوہستان کے مرکزی امیر، جامعہ نصرۃ الاسلام گلگت کے رئیس، وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے رکنِ مجلسِ عاملہ و مجلسِ شوریٰ اور مرکزی جامع مسجد گلگت کے خطیب، اکابرین علماء کے معتمد خاص، خلیفہ مجاز حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید، جناب حضرت مولانا قاضی نثار احمد صاحب حفظہ اللہ پر ایک سنگین اور بزدلانہ حملہ ہوا۔

یہ واقعہ اتوار 5 اکتوبرکو انسپکٹر جنرل پولیس آفس گلگت کے متصل ، نگر چوک کے سامنے والی سڑک پر پیش آیا۔ اسپتال ذرائع کے مطابق قاضی صاحب کے کندھے/ شانے پر گولی لگی ہے اور ان کا طبی علاج جاری ہے جبکہ ان کے محافظین بھی شدید زخمی ہیں۔ قاضی نثارحمد کا روٹین ہے کہ وہ اپنے گھر واقع سونیکوٹ سے مدرسہ نصرۃ الاسلام کنوداس کی طرف جاتے ہیں، حسب ترتیب آج بھی مدرسہ نصرۃ الاسلام للبنین و مدرسہ عائشہ صدیقہ للبنات جاتے ہوئے دہشتگردی کا شکار ہوئے۔

قاضی نثار صاحب امن کے پکے داعی اور پیغامِ امن کے بے لوث علمبردار ہیں، انہوں نے ملکی سطح پر تشکیل پانے والا امن معاہدہ پیغامِ پاکستان اور امن معاہدہ(2005 اور 2012 اور بعد کے مراحل) کی تدوین، ترویج اور نفاذ میں فعال کردار ادا کیا اور دستخط ثبت کیے۔ پھر ان معاہدات کے عملی نفاذ کے لیے جمعۃ المبارک کے ہر خطبے، ہر اجتماع اور ہر میٹنگ میں ان کی تبلیغ کرتے رہے مقتدر حلقوں کو ان پر عملدرآمد کے لیے صدا دیتے رہے اور ہر حال میں امن و مفاہمت کے قائل رہے۔ ایسے مرکزی قائدین جنہوں نے روزِ اول سے امن کی راہ ہموار کرنے کی جدوجہد کی، ان پر اس قسم کا قاتلانہ حملہ محض ایک ذاتی حملہ نہیں بلکہ معاشرتی سالمیت اور قومی مفاد پر وار ہے اور گلگت بلتستان کو ایک دفعہ پھر منافرت اور بدامنی کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ ملکی سالمیت اور گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے تمام مقتدر ادارے، سماجی و مذہبی ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والے ادارے، پارٹیاں اور اشخاص و افراد خوب جانتے ہیں کہ قاضی نثار احمد نے قیام امن کے لیے ہر ایک سے تعاون کیا اور کبھی امن کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنے۔ یہ بھی واضح تھا کہ اس سب کے باوجود قاضی نثار احمد نے کھبی دینی حمیت پر سودا نہیں کیا، یہ ان کی امتیازی صفت ہے۔ یہ واقعہ سوالات کھڑے کرتا ہے، کہ امن کے علمبرداروں کو کون خطرہ سمجھتا ہے؟ امن کے مخالف عناصر کی سرکشی کیسے روکی جائے؟

گلگت بلتستان کا قیام امن ہم سب کی ضرورت ہے، امن و امان قائم رکھنے والے مختلف اداروں (پولیس، انٹیلی جنس، مقامی انتظامیہ، عدلیہ و پراسیکیوٹرز، اور سماجی/مذہبی رہنماؤں) کے لیے بہت سارے سوالات ذہن میں آرہے ہیں، آئندہ کے دنوں میں ہم سب کو ان سوالات کا جواب تلاش کرنا ہوگا اور اداروں سے جواب مانگنا ہوگا، ان سوالات کا جواب ہر پرامن شہری کو چاہیئے ، اگر ان سوالات کا درست جواب ملیں گے تو قاضی نثار احمد جیسے نامور لوگ محفوظ ہونگے اور عام شہری بھی، اور اگر ان سوالات کے جوابات نہیں دیے گئے تو اس آگ میں سب نے جلنا ہوگا، بہتر یہی ہے کہ ان سوالات پر سنجیدگی سے غور کیا جائے اور اس خطے کو آگ و خون کے کھیل سے بچایا جائے

پولیس و مقامی law and order حکام کے لیے سوالات

 1.⁠ ⁠نگر چوک، انسپکٹر جنرل پولیس کے مرکزی آفس کے متصل اس نوعیت کا حملہ کیسے ممکن ہوا؟ وہاں موجود حفاظتی بندوبست اور چیکنگ کا تفصیلی ریکارڈ کیا ہے؟

 2.⁠ ⁠حملے کے وقت روڈ پر مامور پولیس اہلکار کہاں موجود تھے اور ان کے پاس کیا ہدایات تھیں؟

 3.⁠ ⁠وقوعہ کے فوری بعد پولیس کی ریسپانس ٹائم کتنی رہی؟ ڈیوٹی راؤنڈز اور ایمرجنسی رسپانس میں کن نقائص کی نشان دہی ہوئی؟

 4.⁠ ⁠موقعِ واردات کے گردونواح کی CCTV/ویڈیو فوٹیج کہاں تک حاصل کی گئی اور کتنی شواہد ضبط کیے گئے؟

 5.⁠ ⁠حملہ آوروں کے رخ و راستوں، فرار کے راستوں اور گاڑیوں کی شناخت کے بارے میں کیا ابتدائی شواہد ملے؟

 6.⁠ ⁠کیا مقامی پولیس نے واقعے سے پہلے کسی قسم کی دھمکی یا مشتبہ حرکات کی اطلاع وصول کی تھی؟ اگر ہاں تو اس پر کیا عملی قدم اٹھائے گئے؟

انٹیلی جنس اداروں سے سوالات

 8.⁠ ⁠حملے سے قبل کسی قابل اعتبار انٹیلی جنس رپورٹ یا اطلاعات موصول ہوئی تھیں؟ اگر موصول ہوئیں تو ان پر عمل درآمد کیوں نہ ہوا؟

 9.⁠ ⁠کیا حملہ آوروں کے کسی گروہ/نیٹ ورک سے جڑنے کے شواہد پائے گئے؟ ان کے ممکنہ سیاسی یا فرقہ وارانہ نظریات کی تصدیق کیسے کی گئی؟

10.⁠ ⁠کیا واقعہ کے پیچھے بیرونی یا بین صوبائی رابطوں کے امکانات کو کھنگالا جا رہا ہے؟ اگر ہاں تو کس حد تک پیش رفت ہوئی؟

11.⁠ ⁠انٹیلی جنس اور صوبائی پولیس کے درمیان معلومات کا تبادلہ کس طرح عمل میں آیا اور کہاں رکاوٹیں آئیں؟

مقامی انتظامیہ، انتظامی محکموں اور منتخب نمائندوں سے سوالات

12.⁠ ⁠علاقے میں مذہبی راہنماؤں کے معمول کے روٹس کی حفاظتی جانچ کب آخری بار کی گئی تھی؟ اس کے نتائج کیا رہے؟

13.⁠ ⁠مقامی انتظامیہ نے امن معاہدوں کے امن پیغام کو فروغ دینے والے قائدین کی حفاظت کے لیے خصوصی اقدامات کب اور کیسے شروع کیے؟

14.⁠ ⁠واقعہ کے بعد عوامی مقامات پر سیکیورٹی بڑھانے، چیک پوسٹ قائم کرنے اور فہرست وار راؤنڈز شروع کرنے کا کیا منصوبہ ہے؟

15.⁠ ⁠زخمیوں کے علاج، ان کے اہلخانہ کے لیے مالی/طبی رہنمائی اور معاوضے کے بارے میں کیا پالیسی اختیار کی گئی ہے؟

پراسیکیوشن، عدالتوں سے سوالات

16.⁠ ⁠واقعہ کے ملزمان کو جلد از جلد گرفتار کرنے اور موثر مقدمہ چلانے کے لیے کس قسم کی فورسز/سائبر/فوجی معاونت درکار ہے اور وہ کب فراہم کی جائے گی؟

17.⁠ ⁠تفتیش کی شفافیت برقرار رکھنے کے لیے کیا تیاری کی گئی مشترکہ ٹیم تشکیل دی گئی ہے اور اس کی رپورٹ عوامی کب کی جائے گی؟

18.⁠ ⁠گواہان اور متاثرین کی حفاظت کے لیے کیا خصوصی قانونِ تحفظ گواہ نافذ کیا جائے گا؟

مذہبی، سماجی اور کمیونٹی رہنماؤں سے سوالات

19.⁠ ⁠امن معاہدات اور پیغامِ پاکستان

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button