خودکشی یا قتل؟ گلگت بلتستان اور چترال میں ریاست اور سماج کی بے حسی

تحریر: فضل سعدی
17 اکتوبر 2025 کی شام، غذر کی اشکومن وادی کے گاؤں دوارداس میں ایک ایسا سانحہ پیش آیا جس نے پورے علاقے کو ہلا کر رکھ دیا۔
سترہ سالہ امتیاز، جو اپنے خوابوں اور مستقبل کے ساتھ گھر سے نکلا تھا، کبھی واپس نہ آیا۔ دو دن تک اہلِ خانہ اس کے منتظر رہے، پھر بے بسی کے عالم میں ایمت تھانے میں رپورٹ درج کرائی۔ مگر پولیس نے کوئی کارروائی نہ کی، گویا ایک غریب کا بیٹا لاپتہ نہیں ہوا بلکہ ہوا میں تحلیل ہوگیا۔
چھ دن بعد امتیاز کو ریاستی اداروں نے نہیں بلکہ گاؤں کے لوگوں نے تلاش کیا۔ اس کی لاش گھر سے محض دو کلومیٹر کے فاصلے پر ملی—ایسی جگہ سے جہاں پہلے بھی تلاش کی جاچکی تھی۔ جسم پر چند خراشوں کے سوا کوئی واضح نشان نہیں تھا۔ مگر ریاست نے انصاف کی پہلی سیڑھی بھی نہیں چڑھی: نہ پوسٹ مارٹم ہوا، نہ فرانزک تحقیقات۔ اور پھر وہی روایتی جملہ — “یہ خودکشی تھی۔”
پولیس نے معاملہ بند کرنے کی کوشش کی، جبکہ امتیاز کے والدین آج بھی سوال کر رہے ہیں: ہمارا بچہ کیسے مرا؟ کیوں مرا؟
یہ صرف ایک گھر کی کہانی نہیں۔ یہی ایمت تھانہ، جو 15 سے 20 دیہات اور تقریباً دس ہزار آبادی پر مشتمل ہے، پچھلے چند مہینوں میں پانچ مزید مشکوک اموات کا گواہ بن چکا ہے۔ بزارخوٹو، ناصر آباد، ایمت، بلہنز اور دوارداس کے لوگ بھی اسی خاموشی میں دفن ہوگئے۔ ہر بار لواحقین اپنے دکھ کے ساتھ اکیلے رہ گئے، سول سوسائٹی خاموش رہی، اور میڈیا وہاں تک پہنچا ہی نہیں۔
یہ خاموشی صرف غذر تک محدود نہیں۔ گلگت میں طالب علم راجہ کاشان کو اغوا کے بعد تشدد کرکے قتل کیا گیا۔ اپر چترال کی 22 سالہ شہلا ہراسانی اور بلیک میلنگ کے باعث زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ چند دن احتجاج ہوا، پھر سب کچھ معمول پر آگیا۔
اعداد و شمار بھی یہی چیخ کر بتاتے ہیں۔ اکتوبر 2024 سے ستمبر 2025 کے دوران صرف غذر، گلگت اور ہنزہ میں صنفی تشدد کے 44 کیس رپورٹ ہوئے۔ نگر میں ایک بھی نہیں—یہ امن نہیں بلکہ خوف کی خاموشی ہے۔ چترال میں 2023 سے 2025 تک 203 کیس عدالتوں میں گئے، مگر ایک تہائی سے بھی کم فیصلے ہوئے۔ ایف آئی اے کو آن لائن ہراسانی کی 145 شکایات موصول ہوئیں، جن میں زیادہ تر نوجوان خواتین کو بلیک میل کرنے کے واقعات تھے۔ ڈسٹرکٹ چائلڈ پروٹیکشن یونٹ نے 33 بچوں کے استحصال اور تشدد کے کیس ریکارڈ کیے۔
یہ سب کیا ظاہر کرتا ہے؟ ایک ایسا نظام جو نہ وسائل رکھتا ہے نہ ارادہ۔ پولیس بے بس، عدالتیں برسوں مقدمات لٹکانے والی، اور بچوں کے تحفظ کے ادارے محض کاغذی۔ نتیجہ یہ کہ غریب خاندان جرگوں اور پنچایتوں کے رحم و کرم پر رہ جاتے ہیں، جہاں انصاف کے بجائے “نام نہاد غیرت” کو ترجیح دی جاتی ہے۔
یہ مسئلہ صرف رواج یا ثقافت کا نہیں، طاقت کا ہے۔ طاقتور زمین، محنت اور جسموں پر اختیار رکھتے ہیں، اور ریاست ان کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتی ہے۔ جب امتیاز جیسے غریب بچے کی موت کو ثبوت کے بغیر “خودکشی” قرار دے کر دبایا جائے، جب خواتین کو صلح پر مجبور کیا جائے، اور جب بچوں کے استحصال کو “رسم” کہہ کر چھپایا جائے تو یہ ریاستی بے حسی نہیں بلکہ شراکت داری ہے۔
اصل وجہ گلگت بلتستان کی سیاسی بے اختیاری ہے—نہ آئینی حقوق، نہ صوبائی خودمختاری، نہ فعال مقامی حکومت۔ ادارے عوامی خدمت کے بجائے مقتدر حلقوں کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ صحت، انصاف اور تحفظِ اطفال کے بجٹ نہ ہونے کے برابر ہیں، مگر سیکیورٹی پر خطیر وسائل خرچ کیے جاتے ہیں، اور پھر بھی عوام غیر محفوظ ہیں۔ امتیاز کے کیس میں پوسٹ مارٹم کی سہولت نہ ہونا محض اتفاق نہیں بلکہ منظم غفلت ہے۔
امتیاز کے والدین کی مانگ بڑی نہیں۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ ایک شفاف تفتیش ہو۔ اگر یہ بنیادی حق بھی نہ دیا جائے تو یہ ہمارے نظامِ انصاف پر بدنما داغ ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست اپنے شہریوں کی محافظ ہے یا طاقتوروں کی سہولت کار؟
جب تک انصاف کو ہر غریب، ہر عورت، اور ہر بچے کا بنیادی حق تسلیم نہیں کیا جاتا، تب تک گلگت بلتستان اور چترال کی وادیاں اپنے بچوں کو اسی طرح بے جوابی، بے عزتی اور بے امیدی کے ساتھ دفن کرتی رہیں گی۔
یہ وقت ہے کہ سول سوسائٹی، میڈیا، اور ہر باشعور شہری خاموشی توڑے۔ امتیاز اور شہلا جیسے نوجوانوں کے سوال ہمارے سوال ہیں۔ اگر آج ہم نہ بولے تو کل ہمارے گھروں کی خاموشی بھی اسی طرح دفن ہوگی۔




