آج کا گلگت بلتستان
احسان اللہ بیگ
گلگت بلتستان وہ خطہ ہے جسے آج سے چار سال پہلے شمالی علاقہ جات کے نام سے پاکستان و دنیا میں جانا اور پہچانا جاتا تھا 2009 ء میں جب آصف علی زرداری اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر مقرر ہوئے ان دنوں صدر صاحب نے شمالی علاقہ جات کو نیا نام اور نئی پہچان دے دیا۔ جو کہ گلگت بلتستان کے نام سے منسوب ہے۔
اگراس خطے کی تاریخ کا جائزہ لیا جائے تو اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کی تاریخ بہت فبہم ہے اس کو سنوارنے و بگاڑنے میں کئی قوموں و ثقافتوں کا ہاتھ رہاہے۔ ان قوموں کے ثقافتوں کے آثار آج بھی اس خطے کے گوشے گوشے میں پائے جاتے ہیں لہذا گلگت بلتستان کی سر زمین کو تاریخی اعتبار سے پرانا تصور کیا جاتا ہے چونکہ اس کی سرزمین کئی سال پہلے زیر کاشت ہوتی رہی ہے اس خطے کی تاریخ پرکئی لوگوں نے فلم آرائی کی ہے لہذا آج اس کی تاریخ پر کئی قسم کے دستاویزات و معلومات دستیاب ہیں البتہ یہ بھی حقیقت ہے کہ نہ صرف مسلمانوں نے بلکہ دوسرے قوموں نے بھی اس خطے کی تاریخ و ثقافتوں پر کتاب لکھ ڈالے ہیں مگر اب بھی کئی راز اس خطے کی تاریخ میں دفن ہیں۔ جو کہ انشا اللہ آئندہ آنے والے سالوں میںآ شکارہونگے ۔
برصغیر ہند میں جب انگیریزوں کا پلا مسلمانوں اورہندوں پر بھاری تھا۔ تب مسلمانوں اور ہندوں نے مل کر انگیریزوں کے خلاف جنگ لڑے۔مگر بدقسمتی سے انگریزوں نے برصغیر کے لوگوں کو شکست دی اور پورے برصغیر کو اپنے قبصے میں لیتے ہوئے اس پہ اپنی حکومت کرنے لگے۔اس دن مسلمانوں کی 1000سال دور حکومت کو ختم کر دیاگیا۔ یہ تاریخ کا وہ دن تھا جس دن مسلمانوں پر دوسری قوم یعنی انگریزوں نے حکومت کی اس دن سے مسلمانوں کا زوال شروع ہوا۔
غالب اس منظر کو کچھ یوں بیان کیا ہے
ایمان مجھے روکے ہیں جو کھینچے ہیں مجھے کفر
کعبہ میرے پیچھے ہے کلیسا میرے آگے
البتہ انگریز تجارت کی غرض سے آگئے تھے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو رہے تھے ان کے کاروبار کو دن بہ دن وسعت مل رہی تھی ۔ یہ بھی ایک تاریخی حقیقت ہے کہ مغلیہ دور حکومت مین بھی برصضیر میں قتل و غارت ، ہنگامے و جھگڑے ، جلاؤ گھیراو کا سلسلہ تھا تب انگریزوں نے حکومت سے درخواست کر کے اپنی ایک فوج تیار کی جو کہ ان کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ انگریزوں نے EICکے مختلف شاخ پوری برصغیر میں پھیلا دی یوں وہ معاشی و فوجی قوت کے اعتبار سے مضبوط ہوگئے لہذا انہوں نے برصغیر میں کسئی ریاستوں پر اپنا قبضہ جما لیا ان ریاستوں میں بنگال بھی شامل تھا مگر انگریز اس بات کا کھل کر اعلان نہیں کرتے تھے جب برصغیر کے لوگوں نے انہیں بھاگنے کی کوشش کی مگر خود ان کی چنگل میں پھنس گئے یعنی پورا برصغیر انگریزوں کے ہاتھ میں تھا جب 1914 ء تا 1918 ء میں برطانیہ (انگریزوں) اور جا پان وغیرہ کے مابین جنگ چھڑ گئی اس جنگ عظیم میں انگریزوں کو معاشی اعتبار سے بہت نقصان اٹھانا پڑا اس وجہ سے انگریزوں نے گلگت بلتستان کو کشمیر کے راجا سنگ کے ہاتھوں بھیج ڈالاتھا۔
1947 ء کو انگریزوں نے جب برصغیر کو خیر باد کرنے کا فیصلہ کیا ان دونوں گلگت بلتستان چھوٹے چھوٹے ریاستوں پر مشتمل تا لہذا برطانوی حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ گلگت سمیت تمام چھوٹی ریاستوں کو کشمیر کے راجا کے حوالے کر دینگے تب کشمیر کے راجہ نے بریگیڈیئر سنگ کو گلگت بھیج دیا تاکہ وہ اس کا کمانڈ سنبھالے ۔ یکم اگست 1947 ء کو بریگیڈیئر سنگھ گلگت پہنچ گئے اور اس خطے کی بھاگ ڈور سنبھالی ۔جب گلگت سکاوٹس نے مطالبہ کیا اور گلگت کو کشمیر کی چارچ سے چھین لیے۔ یوں یکم نومبر کو گلگت ڈوگرا حکومت سے آزاد ہوئے کیپٹن کرنل حسن اس خطے و گلگت سکاوٹس کے سپہ سالار بن گئے ۔
1947 ء تا 1973 ء تک گلگت بلتستان امن کا گہوارہ تھا ہر طرف حسن و سلوک ، بھائی چارگی کا درس ملتا تھا مگر 1973 ء کے بعد یہاں کے حالت پہلے جیسے نہ رہے لوگوں کی سوچ کو بدل دیا گیا ان کی ثقافتوں و روایتوں کو کچل دینے کی کوشش تک کی گئی جب بھٹو صاحب صدر کی کرسی کو چھوڑ دینے تک ضیاء الدین صاحب اسی کرسی پر فائز تھے 1978 ء 1988 ء یہ گلگت بلتستان کی تاریخ جسکے اہم سال تھے ان 10سالوں میں گلگت بلتستان میں کئی قسم کی انقلابات آنے لگے بہر حال میں ان کا ذکر نہیں کرتا چاہتا تاکہ لوگوں لوگوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے خیر یہ سال بھی گزر گئے 1988 ء تک 2001 ء میں بینظیر و نواز شریف صاحب کی حکومت ہوا کرتی تھی ان سالوں میں بھی یہاں کے حالات قابو نہ ہوئے ہر طرف خوف کا سما رہتا 2001 ٗ ء کو جناب مشرف صاحب اقدار پر آئے مشرف صاحب ، گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے بہت کچھ کیا ۔ سڑک تعمیر کروائی اور KIUجیسا اعلیٰ تعلیمی ادارہ بھی تعمیر کروادیا۔
اگر حالیہ سالوں کی بات کریں تو یہ پتا چل جائے گا کہ یہ سال گلگت بلتستان کی تاریخ کے اہم سال تھے جب 2009 ء کو صدرآصف علی زرداری پاکستان کے صدر مملکت بن گئے مئی2009 ء کو جناب صدر صاحب نے 2009 ء کے آرڈننس (یعنی صدارتی آرڈننس متعارف کروایا۔2009 ء کو گلگت بلتستان کو پیکیج دیا گیا اس پیکیج کے مطابق گلگت بلتستان کو صوبے کا درجہ دیا گیا اور قانون سازاسمبلی بھی بنائی گئی جہاں قانون بنائے جا سکتے ہیں۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے کہ گلگت بلتستان پاکستان کے لیے کیا حیثیت رکھتا ہے بہر حال 2001 ء کے صدارتی آرڈیننس کے تحت گلگت بلتستان کے لوگوں کو حق حکمرانی اور اپنے فیصلے خود کرنے کا حق دیا گیا ، اس صدارتی حکم نامے کے تحت ایک کونسل NALAکو گلگت بلتستان اسمبلی کادرجہ دیا گیا پاکستان کی طرف سے دیا گیا اس پیکیج کے تحت ایک کونسل عمل میں لایا گیا جس کا سربراہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ہیں گورنر گلگت بلتستان بھی اس کونسل کا ممبر ہے جیسے پاکستان کے صدر براہ راست خود نافذ کرتا ہے اس کے علاوہ پاکستان کے وزیر اعظم ، پاکستان وزراء اور پارلیمنٹ کے اراکین شامل ہیں اس کونسل کے باقی 6اراکین کا چناؤ اسمبلی کے زریعے ہوتی ہیں۔
اسمبلی میں کل 133اراکین شامل ہیں ان اراکین میں 6اراکین خواتین ہوتی ہیں اور باقی تین نشستیں ٹیکنو کریٹس کے لیے مختص ہیں ، یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس پیکیج کے تحت اسمبلی کے پاس قانون سازی کے اختیارات بھی دیئے گئے ہیں۔ لہذا یہ گلگت بلتستان کے لوگوں کے لیے ایک خوش آئند بات بھی ہے جو کہ پاکستان گلگت کو خوش آمدید کر رہا ہے اور یہاں کے لوگوں کو اپنے اداروں میں کام کرنے کا مواقعے بھی فراہم کر رہا ہے ۔ گلگت بلتستان جغرافیائی و معاشی لحاظ سے پاکستان اور دنیا میں اپنا ایک مقام رکھتا ہے اس کے ساتھ بین الاقوامی مما لک کی سرحدیں بھی ملے ہوئے ہیں جن میں چین ، افغانستان ، بھارت ، اور روس قابل ذکر ہیں جن سے آئندہ سالوں میں کاروبار تعلقات بہتر ہونے کے امکانات موجود ہیں۔ لہذا گلگت بلتستان کی اہمیت دن بدن بڑھ رہی ہے اس لیے آئیے گلگت بلتستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں اور پاکستان و دیگر ممالک ہمیں جو مواقعے فراہم کر رہے ہیں ان سے بھرپور فائدہ اٹھائیں اور اس کا مستقبل کا فیصلہ کریں لہذا آئیے سب مل کر اس کی ترقی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔ مذہب ، قوم و علاقوں سے آزاد ہو کر اسکی ترقی کا حصہ بنیں ۔ اللہ رب ا لعزت ہم سب کو امن سے رہنے کی ہمت و توفیق عطا فرمائے (آمین)
احس ان ! مضمون پڑھ کے دلی آسودگی ہوءی ۔۔۔ اللۃ سے دعا ہے کہ آپ کے قلم میں اور بھِی زور آجاءے