کالمز

حقوقِ نسواں اور تناظرِ اسلام

الواعظ نزار فرمان علی

خواتین کا عالمی دن پاکستان سمیت دنیا بھر میں بطریقِ احسن منایا گیا جسکا بنیادی مقصد خواتین کے حقوق اور ان کے مسائل سے متعلق آگاہی بڑھانا،ان کی بے مثال خدمات کو سراہنا اور حوصلہ افزائی کرنا جبکہ صدیوں پر محیط عورتون کی طویل جدوجہد کی شاندار تاریخ کا بغور جائزہ لینے اور مستقبل کے لئے جامع اور موثر لائحہ عمل تیار کرنا بھی شامل ہے، اس تھیم سے منسلک تمام اسٹیک ہولڈرز جن میں سرکاری و نجی اور سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے ادارے و شخصیات اور پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کا کردار نہایت موثر نظر آیا، حقوقِ نسواں کا معاملہ شاید عصر حاضرکی دنیا کے لئے پیچیدہ اورگھمبیر ہو مگر اہل ایمان کے لئے یہ گھتی ساڑھے چودہ سو سال پہلے دین مبین میں خواتین کو مردون کے برابر معاشرتی حیثیت عطا کرکے دینی و دنیوی ذمہ داریوں کا دائرہ عمل ہمیشہ کیلئے سلجھا دیا ہے۔الحمد اللہ اگر ہم تاریخِ عالم کے ابواب پلٹیں تو ہمیں صنف نازک کے بدلتے گونا گوں کردار ملیں گے کہیں وہ انسان اول کوُ خلد سے نکالے جانے کا سب بنتی ہے تو کبھی اساسِ تربیت بن کرار ض کو جنت میں بدل دیتی ہے،کہیں وہ اولین خون خرابے کا ذمہ دار قرار پاتی ہے، تو کہیں گروہِ انسانی کی بقا و ارتقاء کا باعث بنتی ہے ،کبھی کنیز و لونڈی تو کہیں ملکہِ و مالکن کے روپ میں جلوہ گر،زمانے کی ستم ظریفی اُسے بازار حسن کے قفس میں رہنے پر مجبور کر دیتی ہے ، تو کبھی اصلاحِ نفس کا جہادِ اکبر بڑے بڑے شیاطین و کفار کو کلمۂ حق پڑھنے پر آمادہ کردیتی ہے۔قدیم مشرقی بلخوص مغربی افکار عورت کی شخصیت شناسی کے حوالے سے تو ہماتی آلودگی کا شکار ہے۔کلاسیکی ادب و شاعری اور ڈرامہ و فلمی مواد زنِ مخالف رویوں کی دل خراش روداد سناتا ہے جو اکثر و بیشتر روزمرہ محاورں میں بھی بے ساختہ استعمال ہوتے ہیں۔جیسے نادان و جذباتی،خود غرض و ملمع کار،کم نصیب و بد قدم،چڑیل و شیطان کا آلہء کار،عورت کا کوئی مذہب نہیں ہوتا،جھگڑے کا باعث زن،زر،زمین،جو آدمی صرف عورت کی مانے وہ نہ رہے کام کا اور نہ سماج کا وغیرہ جسکی ایک اہم وجہ زمانہء قدیم کے مذاہب میں مقامِ نسواں کے حوالے سے پائے جانے والے مبہم تصورات ہیں۔یونانی اساطیر میں ایک روایت بیان ہوتی ہے کہ دیوتاؤں کے بادشاہ نے اہل زمین سے آسمانی نعمت چھیننے کے لئے ایک موثر تدبیر کے طور پر عورت (پنڈورا) بنا کر زمین پر بھیج دیا،اُس وقت زمین پر ایپی میتھیس آباد تھا وہ اس پر اسرار عورت کی ظاہری کشش سے متاثر ہو کر اپنی بیوی بنا لیتا ہے اس عورت کے پاس ایک بکس ہوتا ہے ۔زمین پر بسنے کے بعد ایک دن اُس نے یہ بکس کھول دیا جس میں ہر قسم کی برائیاں بھری ہوئی تھی ۔بکس کے کھلتے ہی زمین پر تمام برائیاں پھیل گئی ۔اسکے بعد پھر یہ زمین کبھی برائیوں سے خالی نہ ہو سکی ۔اسی نوعیت کی حکایت ذرا مختلف انداز میں یہود و نصاریٰ کی دینی روایتوں میں بیان ہوئی ہے جسکا خلاصہ یہ ہے کہ پہلے انسان آدمؑ اور پہلی خاتون حوا ؑ جنت میں پرُ سکون زندگی بسر کر رہے تھے۔وہاں انکے نکلنے کا سبب جو چیز بنی وہ خاتون اول (حواؑ ) حواؑ کو سانپ (شیطان) نے بہکایا اسطرح انسان اس ابتدائی گناہ کا مرتکب ہوا،جس میں ساری نسلِ انسانی شریک ہوگئی۔یوں عورت مکار،بدطینت اور انسانوں کی دشمن ہونے کے سبب بہت بڑی مجرم ٹھہری جسکی سزا آج اُسکی بیٹیاں جھیل رہی ہے۔ہندوؤں کے ہاں بھی عورت کے جھوٹ اور مکاری کی خصلتوں سے ہوشیار رہنے اور مسلح سپاہی ، سینگ والے جانور، بادشاہ اور عورت پر بھروسہ نہ کرنا مذہب کی رُو سے اہم ہے۔

جب ہم تصور زن کو دین اسلام کے رنگ میں دیکھتے ہیں تو یہ حقیقت عیاں ہوتی ہے کہ بنیادی تخلیق میں مساوات زندگی کے بنیادی حق میں مرد وزن کی برابری، فرائض و عبادات میں کوئی تفریق نہیں، جزا و سزا کے معاملے میں برابری،شرعی حدود اور سزاؤں میں مرد و خواتین میں مساوات ،مالی معاملات و معاہدات میں تصرف کی اہلیت میں مرد وزن کی برابری اور دین رحمت میں عورت کا اعزاز واکرام غیر معمولی رکھا گیاہے۔اسی ٹھکرائی ہوئی،زندہ درگور ہونے والی مظلوم عورت کو حقِ وراثت،حقِ مہر،حقِ نان ونقفہ،حقِ ملکیت،حق تعلیم و ہنر اور خاندان و معاشرے میں کسی بھی طور پر ناقابلِ قبول، ناقابل اعتبار عورت کو حق گواہی بھی عطا کی گئی۔سبحان اللہ

دین اسلام کی سنہری اصول و قوانین سے متاثر ہو کر ایک مغربی دانشور خاتون یوں رقمطراز ہیں \” ہمیں یہ بات رکھنی چاہیے کہ عورتوں کے متعلق اسلام کے قوانین ابھی حالیہ زمانے تک انگلستان میں اپنائے جا رہے تھے یہ سب سے منصفانہ قانوں تھا جو دنیا میں پایا جاتا تھا۔جائیداد، وراثت کے حقوق اور طلاق کے معاملے میں یہ مغرب سے کہیں آگے تھا اور عورتوں کے حقوق کا محافظ تھا۔

\’\’ کلام پاک کی روشنی میں بنیادی تخلیق اور زندگی کے بنیادی حق میں مردو زن کی برابری کے حوالے سے واضح ہدایات ملتی ہیں۔اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے۔\’\’ اور بے شک ہم نے اولادِآدم کو بزرگی بخشی ہے\’\’ (الا سراء آیت ۷۰) اولادِآدم یعنی مرد و عورت دونوں کو عظمت و بلندی عطا فرمائی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے \” اور یقیناًہم نے انسان کو اعلیٰ تقویم میں پیدا کیا ہے \” (التین آیت نمبر۴) یعنی مرد اور عورت دونوں کو اعلیٰ ترین سانچے میں ڈھالا گیا ہے جس کی کوئی اور مخلوق برابری نہیں کر سکتی۔ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں \” اے انسانو اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا بنایا ۔۔۔۔(النساء آیت ۱) ۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ دونوں کا خالق و پروردگار ایک ہے ، دونوں کا سر چشمہِ تخلیق ایک ہے لہٰذا دونوں امرِ الہٰی سے بلا تقدیم و تاخیر ایک ساتھ پیدا کر کے مقصدِ تخلیق یعنی اطاعت و بندگی کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرنے کے لئے دنیا میں بھیجا گیا ہے۔ سورۂ بقرہ آیت نمبر ۴۸۸ میں ارشاد ہوتا ہے،\” ان (عورتوں) کے بھی اتنے ہی حقوق ہیں جیسے کہ انکے( مَردوں) کے حقوق ہیں\” اس لحاظ سے بنیادی حقوق کے معاملے میں یکساں اہمیت رکھتے ہیں۔ سورۂ توبہ آیت ۷۱ میں حق تعالیٰ فرماتے ہیں \” اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ ایک دوسرے کو اچھے کا م کرنے کو کہتے ہیں اور بری باتوں سے منع کرتے ہیں یہی لوگ ہیں جن پر خدا رحم کرے گا\” یہ آیاتِ قرآنی جہاں مومن مرد اور مومن عورتوں کو حدود اللہ کے دائرے میں رہتے ہوئے نیکی اور خیر خواہی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون قائم رکھتے ہوئے سماجی و معاشرتی فلاح و بہبود ، دعوت دین حقِ ، اصلاحِ احوال ، عوامی نمائندگی و نگرانی کے حق کو واضح کیا ہے ۔ اس حقیقت کو وسیع تر معنوں میں سمجھنے کے لئے تاریخ اسلام کے نبوی دور سے رہنمائی حاصل کرنا مفید ہوگا۔ جس کی ایک روشن و تازہ مثال مسجد الحرام ، مسجد نبوی و دیگر مقامی مسجدوں میں فرائض و عبادات کی ادائیگی کے لئے مردوں کے شانہ بشانہ عورتوں کو بھی اجازت دی گئی مگر ان کے لئے دروازہ مخصوص تھا، اس کے علاوہ دینی و دنیاوی معاملات کے متعلق تعلیم و تربیت حاصل کرنے ، ذاتی، خاندانی و دیگر سطح کے تنازعات حل کرنے ، بیت المال میں نذرانے جمع کرنے، نبی پاکؐ سے بیعت حاصل کرنے ، نبی کریمؐ کی زیر سرپرستی علم و حکمت پر مبنی ایمان افروز روحانی محافل کا انعقاد جس میں تمام مسلمان مرد اور خواتین ادب و احترام کے ساتھ شرکت کرتے تھے۔ کئی غزوات میں خواتینِ اسلام نے آنحضرتؐ کی اجازت سے حصہ لیا، انہوں نے نہ صرف جنگیں لڑی، مال و اسباب کی حفاظت، اشیائے و خوردونوش بہم پہنچانا ، انہیں پانی پلانا، جنگ کے زخمیوں کی مرہم پٹی کرنا وغیرہ نہایت احسن طریقے سے انجام دیا۔اس کے علاوہ اہل ایمان خواتین نے دعوت و تبلیغ کے میدان میں بھی شاندار خدمات پیش کیں۔اس دور کی مشہور مُبلّغات میں فاطمہ بنتِ خطاب، اُمّ حکیم اور اُمّ سلیم جبکہ مدینے کی ایک مقامی مسجد کی پیش امام اُمّ ورقہ بنت عبداللہ کا ذکر ملتا ہے۔ 

ازواجِ مُطہّرات جو امت کی ماؤں کی حیثیت رکھتی ہیں ان میں سب سے پہلے خدیجۃالکبریٰؓ کا ذکر آتا جن کی زندگی میں آپؐ نے دوسری شادی نہیں کی، آپؓ عرب کےُ معزز خاندان کی اعلیٰ خصلت، جرات مند اور سیلف میڈ خاتون تھیں ۔آپؓ کا کاروبار بڑی تیزی سے اندرون و بیرون عرب ترقی کر چکا تھا، آپؓ کا تجارتی سامان نبی کریمؐ بھی کئی مرتبہ لے جا چکے تھے۔عرب کے مشہوررؤسا کے رشتے آنے کے باوجود آنحضرت ؐ کی صداقت و امانت کی اعلیٰ صفات سے متاثر ہو کر ایک معتبر خاتون کے ذریعے شادی کا پیغام بھیجا۔ آپؐ نے شادی کا فیصلہ کیا ،حضرت خدیجہ آپؐسے ۱۵ سال بڑی تھیں، پہلی وحی کے موقع پر آپؐ کی طبیعت بھاری محسوس ہوئی اس وقت آپ ؐ کا بھر پور ساتھ اور حوصلہ و ہمت دیتے ہوئے سب سے پہلے آسمانی عنایتِ ربانی پر مبارکباد دی ۔ آپؓ نے اپنی پوری زندگی تن من دھن اسلام پر قربان کر دیا۔ حضرت عائشہؓ اُمہّاتُ المومنین میں کم عمر ہونے کے باوجود اشاعت دین میں آپؓ کا بڑا حصہ رہا ہے ۔آپؓ اعلیٰ اخلاق ، دیانت و متانت اور غیر معمولی قائدانہ صلاحیتوں کی حامل تھیں جس کی بہترین مثال ان کی مرویات کی تعداد ۲۲۱۰ تک شمار کی گئیں ہیں ۔ آپؓ سے تقریباً ایک سو صحابہ اور تابعین نے روایات کیا ہے۔ آپؓ اعلیٰ درجے کی فقیہ تھیں ، جب حدیث بیان کرتی تو اس کی علتِ و حکمت بھی بیان کرتی۔ اسی طرح آپؐ کی زوجہ مکرّمہ حضرت اُمّ سلمہؓ کی مرویات کی تعداد ۳۷۸ بیان کی گئی ہیں ،وہ فقیہ بھی تھیں ان کی خدمات کا احاطہ بھی مشکل ہے، ذرا تصور کیجئے کتنی خوش بخت ہونگی وہ مائیں جن کے پاک ارحام سے انبیاء کا جسمانی تولد ہوا، اور وہ زنانِ نیک صفت ہستیاں جنہیں آپ ؐ کی ازواجِ مُطہّرات اور مومنوں کی ماؤں کا شرف ملا، وہ عالی مرتبت شخصیات جنہیں آپ کی بہن اور بیٹی ہونے کا مقام حاصل ہوا ۔ سبحان اللہ یہ اعزاز و اکرام عورت کے حصّے میں آیا۔

تاریخ قدیم سے دور جدید تک دنیا میں جتنے بھی مذہبی،سیاسی ،سماجی،زرعی و صنعتی انقلابات آئے ہیں ان میں مُردوں کے ساتھ خواتین بھی نمایاں رہی ہیں ۔درحقیقت ان تحریکوں میں وجودِ زن کا حصہ نہ ہوتا تو شاید ایسا انقلاب بپا نہ ہو پاتا۔ایسے انگنت تاریخی کرداروں میں رابعہ بصری، رضیہ سلطانہ،ہیلن کلر، مدر ٹیریسا، مادرِ ملت فاطمہ جناح،بیگم رعنا لیاقت علی خان ، بے نظیر بھٹو، سیدہ وارثی،ملیحہ لودی ،پروین شاکر،ملکہ ترنم نورجہاں،بانو قدسیہ، بلقیس ایدھی، فاطمہ ثریا بجیا،ارفع کریم و ملالہ ،ثمینہ بیگ اور کئی تابندہ مثالیں معاشرے اور ملک و ملت کے لئے سرمایہ افتخار ہیں۔آزادی نسواں کا نہ مغربی ماڈل بہترہے جس میں اُسے نمود و نمائش کی شئے بنا کر بے جا آزادی دی گئی ہے اور نہ ہی قدیم مشرقی عورت کش تصورموزوں ہے جس میں عورت ایک کٹھ پتلی نظر آتی ہے۔اسکا صحیح حل اسلامی نظریہ حیات میں موجود ہے جس میں عورت کو زندگی کے حقوق مرد کے مساوی جبکہ حیاتیاتی انفرادیت کی بنیاد پر اُسے فرائض و اعمال کا مکمل نظام فراہم کیا گیا ہے۔اگر وہ شرم و حیا کو اپنا زیور ،ایمان و تقویٰ کو جزوِ روح و عقل، برد باری و تواضع کو اپنی روش اور خاندان ملک و ملت کی آن کو اپنی پہچان سمجھتے ہوئے دین و دنیا کا کوئی بھی کام کاج انجام دے تو یقیناًسماج کے ماتھے کا تاج بن کر دنیا پر راج کریگی۔انشاء اللہ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button