کالمز

من مانیاں

آج میرا من چاہتا ہے کہ تھوڑی سی من مانی کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے اخباروں میں میں شائع ہونے والی ایک خبر پر اپنی من کی  گہرائیوں سے من کی آنکھ کھول کر تبصرہ کروں۔ تاکہ اس من کو کچھ شانتی ملے ۔

خبر کچھ یوں ہے کہ گلگت بلتستان کے  دکان دار و تاجر اپنی من مانیاں کرتے ہیں۔  تو جناب عرض ہے کہ من تو مانیاں کرنے کے لئے ہی ہوتا ہے  ۔اگر یہ من ایسی مانیاں نہ کرتا تو آپ کے من سے یہ آواز کیسی نکلتی ۔چلو اسی بہانے آپ نے اپنے من کی آواز تو من سے نکالی  جس نے خبر کا روپ دھار لیا  ۔لیکن سوال  یہ ہے کہ آپ اپنی من کی آواز کس تک پہنچانا چاہتے ہیں ۔ایوان اقتدار تک یا اس دکاندار تک جس نے من مانی کرتے ہوئے آپ سے مہنگے دام وصول کئے ہیں  ۔اگر آپ کے من میں یہ امید ہے کہ اس خبر سے آپ ایوان اقتدار کے کارندوں کو با خبر کرکے اس من مانی کو اپنی من مانی بنائنگے تو آپ سے زیادہ سادہ آدمی کوئی ہو ہی نہیں سکتا  ۔اور اگر آپ کے من میں یہ ہے کہ اس خبر سے اس دکاندار کو ڈرانا چاہتے ہیں جس کی من مانی سے آپ کا من دکھی اور اداس  ہوا ہے  تو یہ بھی عبث ہے  ۔یہاں اس بازار(معاشرے) میں  ایک دکاندار کی بات نہیں  یہاں تو سارے کے سارے اس حمام میں ننگے  نظر آتے ہیں  کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے

ایک غسل خانے میں تبدیل ہوگئی ہے دنیا
سارے ننگے ہیں  کس سے شرماوٗں میں

من تو اخر من ہے کبھی کبھار اس من میں مانیاں جاگ جاتی ہیں ۔اور یہ مانیاں کس وقت  جاگ جاتی ہیں ان کے اوقات ذرا مختلف ہیں۔ حاکم وقت کی من مانیاں اس وقت جاگتی ہیں جب اس کا من اپنی رعایا کے فکر سے بلکل عاری ہوتا ہے  ۔ایسے میں اس کے حوریوں کے من اپنی من مانیوں کے لئے تیار ہوتے ہیں۔ پھر یہ حواری اپنے آقا کے من کو تھپکیاں دے کر سب اچھا کی رپورٹ پیش کر کے اسے مزے کی نیند لینے کے لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ تاکہ ان حواریوں کو اپنی من مانیوں کے لئے مزید موقع ملے ۔اور پھر کاروباری حضرات ان کی من مانیوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے من کی کھڑکی کھول  کر اپنی من مانی پر اتر آتے ہیں۔ ان من مانیوں کے بیچ میں بیچاری عوام کو  اپنی من مانی کا موقع نہیں ملتا ہے۔ وہ اپنی من مانیوں سے باز رہتی ہے  اور وہ اس کمی کومجلسوں میں اخباروں میں اور شادی بیاہ کےموقعوں پر مختلف قسم کے تبصروں کی شکل میں پیش کر کے اپنی من کی بھڑاس نکالتی ہے ۔

ہمارا مشورہ عوام کے لئے یہ ہے کہ وہ اپنی من مانیوں کے لئے اگلے الیکشن کا انتظار کریں۔ جب الیکشن ہوں تو پھر سے برادری قوم مذہب یا   زر کی لالچ میں اپنی من مانی کرتے ہوئے بے ضمیر ان پڑھ  اور گنوار افراد کو اپنا نمائندہ بنانے میں اپنی من مانیوں کو عملی جامہ پہنا لیں تاکہ پھر سے وہ آپ کے من کے ساتھ اٹھکلیاں کر سکیں ۔ویسے ابھی تک من  مانیوں کو دور کرنے کا کوئی علاج دریافت نہیں ہوا ہے سوائے احساس کے اور یہ احساس کب اپنے من میں جگہ بنا لیگا  اس بارے کچھ وثوق سے کہنا  بہت مشکل ہے ۔نقارخانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے.

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button