کیا ڈگریاں جلانے سے نظام میں تبدیلی آسکتی ہے ؟
کرپشن ،اقربا ء پروری اور بیروزگاری کے ستائے ہوئے ضلع غذر سے تعلق رکھنے والے گریجویٹس کی طرف سے ضلعی ہیڈ کوارٹر گاہکوچ میں اجتماعی طور پر ڈگریاں جلانے کی اس خبر کی وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ اور ان کے حواریوں کے سامنے اتنی اہمیت شاید نہیں ہو گی جتنی بیوروکریسی یا دیگر ان لوگوں کو جنہوں نے زندگی کے نشیب و فرار گزرتے ہوئے طرح طرح کی مشکلات کا مقابلہ کرنے کے بعد اسی طرح کی ڈگریاں حاصل کی ہوئی ہو ۔کیونکہ تعلیم کی افادیت اور ڈگریوں کی قدر و قیمت کا اندازہ وہی لوگ ہی لگا سکتے ہیں جو خود انہی مراحل سے گزر کر ڈگریاں حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئے ہوں بغیر پڑھے لکھے اور ڈگری حاصل کئے سیاست میں پی ایچ ڈی کے وعدیداروں کے سامنے اس طرح کی ڈگریوں کی حیثیت محض کاغذ کے ٹکڑے کے سوا اور کیا ہو سکتی ہے ۔ویسے بھی ان لوگوں کو رشوت اور سفارش کی بنیاد پر ملازمتیں بانٹنے کے بعد تعلیمی اسناد کی چھان بین کا ہوش آتا ہے ۔
حکومتی ظلم و نا انصافی کے خلاف ڈگریاں جلانے کا یہ پہلا واقعہ نہیں بلکہ اس سے پہلے بھی اسیّ کی دہائی میں ملک بھر کی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے درجنوں گریجویٹس نے وفاقی ملازمتوں پر تقرریوں میں گلگت بلتستان کے ساتھ کی جانے والی نا انصافی کے خلاف پارلیمنٹ ہاوس اسلام آباد کے باہر اجتماعی طور پر اپنی تعلیمی اسناد کو نذر آتش کیا جس کے نتیجے میں خود انہی لوگوں کو بعد اذاں ڈگریوں کے حصول میں دربدر کی ٹھوکریں کھانی پڑی مگر اس اقدام سے حکمرانوں کی صحت پر کوئی اثر پڑا نہ ہی وفاقی ملازمتوں پر تقرریوں میں گلگت بلتستان کے ساتھ امتیازی سلوک کا خاتمہ ہوا بلکہ یہ سلسلہ آج بھی جاری وساری ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ پا کستان پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت ضلع غذر کے نوجوانوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اس اقدام پر سنجیدگی سے غور کرکے اس کا حل تلاش کرنے کا بھی گوارہ کریں ۔کیونکہ اقتدار کے چار سال کے عرصے میں ہمارے حکمرانوں نے شرم و حیاء کی تمام تر حدیں پار کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کردیا ہے اب تو ان کے سامنے ڈگریاں کیا کشتیاں بھی جلادی جائیں پھر بھی یہ لوگ ٹس سے مس نہیں ہونگے بلکہ بڑے فخر سے کہیں گے کہ ہمارا کا م لوگوں کو روزگار دینا ہے روزگار چھیننا نہیں۔
آو بھائی! وہ تو سبھی مانتے ہیں کہ لوگوں کو روزگار دینا کوئی برا کام نہیں ہوتا اور کسی کی رزق پر ہاتھ ڈالنا بھی انصاف کا تقاضا نہیں مگر روزگار دینے کی خاطر پورے نظام کا کباڑہ کرنا کونسی جمہوریت ہے ۔جب روزگار دینا ہی مقصود ہو تو پھر غیر قانونی بھرتیوں کی تحقیقات کیلئے کمیٹیاں تشکیل دینا اور بعد از روزگار تعلیمی اسناد کی چھان بین اور فرضی انٹرویوز رکھنے کا یہ کونسا قانون ہے۔ کیا یہ عوام کو دھوکہ دینے کیلئے ڈرامہ بازی نہیں کہ پہلے سینکڑوں اسامیوں پر تھوک حساب سے تقرریاں عمل میں لائی گئیں پھر فرضی انکوائریاں کرکے ان ملازمین کو برطرف کیا گیااور پھر نئے نئے قوانین کی منظوری اور مفاہمتی عمل کے ذریعے انہیں ملازمتوں پر بحال کیاگیا۔
بلاشبہ لوگوں کو روزگار فراہم کرنا اور عوام کا معیار زندگی بلند کرنا حکومت کی اولین ذمے داری ہوتی ہے اور دنیا کے تمام ممالک میں حکومتیں یہ ذمے داری سرانجام دیتی ہیں مگر اس اندازمیں نہیں جو ہمارے اس نوزائیدہ حکومت کے ذمے داران اپنائے رکھے ہیں۔ بے شک غربت اوربیروزگاری کا یہ مسلۂ دنیا کے تمام ممالک میں موجود ہے مگر اس قدر اندھیر نگری شاید ہی کسی ملک میں ہو جو پاکستان اور گلگت بلتستان میں موجود ہے۔ ملازمتیں تو ان ممالک میں بھی دی جاتی ہیں مگرقانون و انصاف کے تقاضے بھی تو پورے کئے جاتے ہیں، کسی غریب اور محکوم کا حق نہیں مارا جاتاہے، سفارش اور رشوت کو فوقیت نہیں دی جاتی ہے، میرٹ پر سمجھوتہ کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، قانون سے ہٹ کر کوئی کام کرنے کی کوئی گنجائش ہی کہاں۔ وہاں پر تو سب کے ساتھ یکساں سلوک روا ں رکھا جاتا ہے اور قوائدوضوابط کی دھجیاں اڑانے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لاکر ایسا سبق سکھایا جاتا ہے جو دوسروں کے لئے خودبخود مثال بن جاتی ہے۔ مگر یہاں پر ہرکام کے لئے حکمران مرضی کے مالک بنے بیٹھے ہیں جس کے سبب علاقہ ترقی کرنے کی بجائے تنازلی کی طرف جارہا ہے اور مسائل گھمبیر صورت اختیار کرجاتے ہیں جس کی وجہ سے عوامی سطح پر احساس محرومی اور نوجوانوں میں فرسٹریشن بھی بڑتا جاتا ہے جو ہمیں احتجاج، دھرنے،ہڑتالوں، جلسہ جلوس اور ڈگریاں جلانے کی صورت میں نظر آتا ہے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہر طرف اندھیر نگری چوپٹ راج ہو، قانون و انصاف کا کوئی وجود ہی نہ ہو، تعلیمی ادارے اور طبی مراکز بھوت بنگلوں میں تبدیل ہوئے ہوں، عوام بجلی، پانی اور دیگر بنیادی سہولیات کے لئے ترس رہے ہوں، ہسپتالوں میں مریضوں سے فیس کے نام پر پیسے بٹور ے جا رہے ہوں ،ترقیاتی عمل جمود کا شکار ہو، ملازمتوں کی بولی لگائی جا چکی ہو ، میرٹ کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہو اور اوپر سے لیکر نیچے تک سارا نظام در ہم برہم ہوا تو ایسے میں ڈگریاں جلانے کا یہ ایک احمقانہ اقدام ہی ہوسکتا ہے۔
بہتر یہ ہوتا کہ غذر کے یہ نوجوان ڈگریاں جلاکر حکومت پر اپنا غصہ نکالنے کی بجائے عوامی ایکشن کمیٹی کی طرح گلگت بلتستان بھر کے نوجوانوں،سیاسی،سماجی و مذہبی جماعتوں،تاجروں تنظیموں اور سول سوسائٹی کو اعتماد میں لیکر10مارچ کے پہیہ جام اور شٹرڈاؤن ہڑتال کی طرح کا کوئی اقدام اٹھا لیتے تو ہوسکتا تھا کہ حکمرانوں کو بھی کچھ ہوش ٹھکانے آجاتے ۔
safdar bahi wo kam b hoga us ka leya planing kr raha hain lekin zarorat es amr ki hai medai b youth ka sath dy.