آزادی کا مطلب کیا؟
شیرعلی انجم
فلک شگاف کوہساروں بلند بالاپہاڑوں سرسبزشاداب وادیوں قدرتی وسائل سے مالا مال اور بہادر مجاہدین کی سرزمین گلگت بلتستان 72971مربع میل پر پھیلے اور بیس لاکھ کے قریب آبادی پر مشتمل ہے۔اس جنت نظیر خطے کے باسی ہر سال یکم نومبر کو یوم آذادی مناکر جنگ آذادی گلگت بلتستان کے ان شہیدوں اور غازیوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں جنکی بے پناہ قربانیوں کی بدولت 1948میں ریاست گلگت بلتستان معرض وجود میں آیا تھا۔
لیکن آج یہاں کے عوام ایک طرف اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کر تے ہیں تو دوسری طرف پچھلے 66سالوں سے اپنی قسمت پر بھی رو رہے ہیں کیونکہ اس خطے کی عوام نے ابھی آذادی کا سورج طلوع ہوتے دیکھ ہی رہا تھا 1949میں ایک سازش کے تحت پاکستان سے الحاق کے بعداس خطے کو مسلہ کشمیر کے ساتھ جوڑ کر غلامی کی سلاخوں میں دھکیل دیا اور خطے کی عوام ہاتھ ملتے رہ گئے ۔یہ زخم ابھی بھرا نہیں تھا 1963میں ایک بار پھر عوام کی مرضی کے بغیر انتہائی اہمیت کا حامل حصہ چین کے تحویل میں دیا گیا لیکن مقامی آبادی نے پاکستان سے محبت کی وجہ سے اس تبدیلی کو بھی قبول کرلیا۔
یوں گزرتے وقت کے ساتھ ظاہری طور پر2009 میں میں وفاق نے پہلی مرتبہ اس خطے کو آذاد حیثیت دیکر یہاں الیکشن کرائے لیکن اس الیکشن کے بعد گلگت بلتستان کے عوام نے کیا کھویا اور کیا پایا کے حوالے سے چند باتیں آج کا ہمارا موضوع بحث ہے ۔سب سے پہلے اس بات کامعلوم ہونا ضروری ہے کہ گلگت بلتستان کی قانونی حیثیت کیا ہے اور یہ خطہ پاکستان کے ماتحت کب سے اور کیوں ہے ؟ اس خطے کی جنگ آذادی میں ریاست جموں کشمیر سے کوئی امداد لی گئی ؟ اور ہر سال یہاں سرکاری طور پر جشن آذادی منانے کا اصل وجہ اور فلسفہ کیا ہے؟ یہ سارے سوالات یہاں کی تاریخ اور خطے کی آزادی کے حوالے سے اہم ہے۔
پہلی بات گلگت بلتستان آئینی طور پاکستان کا پانچوں صوبہ نہیں آئین پاکستان کے مطابق گلگت بلتستان ایک متنازعہ خطہ ہے جہاں عوام کی وفاداری کے سبب پاکستان کی رٹ قائم ہے کیونکہ یہاں کے عوام اپنے حقوق کو قانونی طر یقے سے لینے پر یقین رکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج گلگت بلتستان میں قوم پرست جماعتوں کو بڑی پذرائی مل رہی ہے اور یہاں کے عوام اب وفاق پرست جماعتوں سے تنگ آچکے ہیں اور قوم پرستی کوحقوق کی حصول کیلئے منفردطریقہ سمجھنے لگی ہے ۔ بدلتے وقت اور حالات کے ساتھ اب یہاں کے عوام میں بیداری کا شعور اُبھر رہے ہیں کیونکہ یہ بات اب واضح ہوگیا کہ وفاق کا نمائندہ جماعت اس خطے کی آئینی حقوق کے حوالے کوئی پالیسی مرتب نہیں کرپائے اور وفاق کی پالیسی ہی یہی ہے کہ گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کی استصواب رائے تک ایسے ہی ایک عبوری نظام دیکر کر وفاق پاکستان کی رٹ قائم رکھیں۔دوسری بات گلگت بلتستان کا پاکستان کے ساتھ الحاق پر بات کریں توکہتے ہیں کہ جنگ آذادی کے بعد یہاں کے عوام نے اپنی خواہش کے تحت خود پاکستان میں شامل ہونے کا فیصلہ کیا اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قائد اعظم نے سردارعالم نامی شخص کو باقاعدہ یہاں اپنا نمائندہ بنا کر بیجھاتھا لیکن اس کہانی میں بھی ایک کہانی یہ بتائی جاتی ہے کہ سرادرعالمنے ہی یہاں نظام بنانے کے بجائے فرقہ واریت کی بنیاد رکھی اور ضیاالحق کے دور میں باقاعدہ عملی جامہ پہنا کر یہاں لشکر کشی کی گئی ۔تیسری بات کچھ عناصر کا یہ دعوی ہے کہ گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ ہے لیکن یہاں کے لوگ اس بات کو ماننے کیلئے تیار ہی نہیں یہاں کے عوام کا کہنا ہے اگر گلگت بلتستان ریاست جموں کشمیر کا حصہ تھے تو جب جنگ آزادی لڑی جارہی تھی ریاست جموں کشمیر والے کہاں تھے؟
تحریک آز دی کی جنگ کے دوران ریاست جموں کشمیر کے اطراف سے مجاہدین کیلئے کسی بھی طرح کے لاجسٹک سپورٹ کا کہیں ذکر نہیں بھی ملتا اس کا مطلب یہ ہوا کہ یہ جنگ صرف مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ لڑ کر ریاست وجود میں لاکرخطے کو پاکستان کے ساتھ الحاق کیا نہ کہ ریاست جموں کشمیر کے ساتھ۔ لہذا گلگت بلتستان کو ریاست جموں کشمیر کا حصہ سمجھنے والے اس خطے کی تعلیم ترقی اور ریاست کا دشمن ہے۔ایسے ہی دشمنوں نے 1949میں گلگت بلتستان کو عوام کی مرضی کے بغیر اس دھرتی کو کشمیر کی استصواب راے کیلئے قید کیا اس معاہدے کو یہاں کے باشندوں نے نہ پہلے قبول کیا اور نہ اب کرنے کیلئے تیار ہے ۔ گلگت بلتستان کے عوام کو اندھیرے میں رکھ کر یہاں سرکاری سطح پر جس طرح جشن آذادی منایا جاتاہے جس سے ایسا لگتا ہے کہ واقعی میں گلگت بلتستان ایک خود مختار ریاست ہے یا کسی ملک کا آئینی صوبہ ہے لیکن جب حقائق پر نظر دوڑائیں تو اُن مجاہدین اور غازیوں پر رونا آتا ہے جنکی قربانیوں سے یہ دن منانا نصیب ہوا تھا لیکن بعد از آذادی کے مراحل اگر اُس وقت کے غازیوں کو اور مجاہدین کومعلوم ہوتا تو شائد گلگت بلتستان آذاد کراتے ۔کیونکہ آذادی کے بعد ارض گلگت بلتستان پر جس طرح سازشی عناصر نے شب خون مارا جسکی مثال نہیں ملتی اس دھرتی میں کبھی سرکاری قیادت میں تو کبھی نام نہاد ملاوں کے سرپرستی میں دہشت گردی اور فرقہ واریت پھیلایاتاکہ یہاں کے عوام اپنی اصل ڈیمانڈ کو بھول کر آپس میں الجھتے رہیں۔جنگ آذادی گلگت بلتستان کے حوالے سے آج تک کسی نے دیامر سے تعلق رکھنے والے مجاہدین کا ذکر نہیں کیا حالانکہ محقیقین کے مطابق اس جنگ میں دیامر کے عوام کا بڑا کردار رہا لیکن آج جنگ آذادی گلگت بلتستان میں نمایاں کارکردگی سرانجام دینے والے مجاہدین اور غازیوں کی سر زمین کو فرقہ واریت کیلئے استعمال کی جارہی ہے غیر مقامی عناصر نے یہاں کے سادہ لوح عوام کو یرغمال بنا کر ناپاک عزائم کیلئے استعمال کی جارہی ہے خطے میں وقوع پذیر ہونے والے تمام اندوہناک واقعات کی کڑیا ں سرکاری اعداد شمار کے مطابق بدقسمتی ان علاقوں سے ملتی ہے۔ مگر عام عوام تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے بھی منہ نہیں کھول سکتی ہے کیونکہ ان علاقوں میں جب سرکاری علیٰ افسران کی جان محفوظ نہیں تو کیسے عام آدمی ایسے عناصر کے خلاف بول سکتے ہیں۔لہذا دیامر کے اہل فکر اور علماء کرام کو اس حوالے سے کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ورنہ ہماری جشن آذادی کے سارے رنگ اور مزید بے رنگ ہوسکتا ہے۔اسی طرح اگر گلگت کے دوسرے اضلاع کی بات کریں تو بھی بے معنی آذادی کے گیت بہت گائے جاتے ہیں لیکن حقیقت سے اگہی نہیں دی جاتی کیونکہ حکمرانوں کو معلوم ہے کہ اگر قوم کو غافل نہیں رکھا تو حکومت بھی نہیں کرسکے گی غافل قوم کے ہونے سے ہی آج یہاں ڈمی حکومت قائم ہے ،کرپشن عام ہے، دین کے نام پر کاروبار کرنا سب سے آسان اور شارٹ کٹ راستہ ہے جہاں مُلا مسجد سے نفرتیں پھیلا کر قائد بن کر عوام کو انگلیوں پر نچا سکتا ہے۔بلتستان کی بات کریں تو بھی کہانی کچھ مختلف نہیں یہاں بھی عوامی غفلت کی وجہ سے لوٹ کھسوٹ اقرباپروری دین اور عوام کے نام پر سیاست ہورہی ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ کرسی کیلئے کچھ بھی کرنے کو تیار ہے معیار مرتبہ شرم حیاء اور معاشرتی اصول یہاں کی سیاست میں کہیں بھی نظر نہیں آتا اور ان تمام کام کیلئے عوام کو ہی قربان کیا جاتا ہے۔لیکن جب یکم نومبر آتا ہے تو ہر طرح دھوم دھام سے آذادی کے ترانے بجائے جاتے ہیں یعنی ایک پالیسی کے تحت اس خطے کی عوام کا مزاج ہی ایسا بنایا جو وقتی جوش پر لبیک کہے اورسال بھر لاشعوری کی دنیا میں گم رہے۔ لیکن جیسے میں نے پہلے ذکر کیا کہ کچھ لوگ ہے جو عوام میں رہ کر عوام میں بیداری کا شعور رکھتے ہیں اور یہی لوگ آج گلگت بلتستان میں قوم پرستی کے جھنڈے کے تلے ایک ہوتے ہوئے نظرآ رہے ہیں۔ لہذا سچ تو یہ ہے کہ آذادیچند لمحوں کیلئے تھا اور چلے گئے ہم تو آج بھی حقوق کی جنگ لڑ رہے ہیں ہمارے ہاں تو آج بھی آئین اور دستور نہیں ہمیں تو آج بھی وفاق کے خرچوں پر پلنا پڑتا ہییہاں تو آج بھی خطے میں پائے جانے قدرتی وسائل کو عوام اور خطے کی بہتر معاشی ترقی کیلئے بروئے کارلانے کی کوشش نہیں کی جارہی ، یہاں کی اصل حاکم تو آج بھی ایک غیر منتخب وزیر ہے اسخطے کے تمام ادارے ایک شاہی نظام کی طرز پر کام کرتے ہیں جہاں ذات کیلئے شاہی خرچے عوام کیلئے باسی ٹکڑے بھی کھانے کو دستیاب نہیں۔
تو پھر یہ جشن آذادی کا مطلب کیا ہوا؟ غلامی سے نکل کر غلامی میں داخل کا نام تو آزادی نہیں ہوتا؟
البتہ یہ دن اُن ہیروز کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن ہے اُن غازیوں کو سلام پیش کرنے کا دن ہے جنہوں اس خطے کو ڈوگرہ راج سے آزاد کر اکر ریاست گلگت بلتستان کی بنیاد رکھی۔اللہ ہم سب کو اس دن کو یاد کرکے اپنے مسقبل کیلئے حکمت عملی طے کرنے کی توفیق دے.