کالمز

دل دھڑکنے پہ بھی پابندی لگا دی جائے

گلگت بلتستان میں عوامی ایشوز کے حل کیلئے جاری طویل کامیاب دھرنوں اورہڑتالوں نے گلگت بلتستان کے عوام میں اپنے حقوق کے حصول کیلئے انقلابی روح پھونک دی ہے ،پر امن دھرنوں میں شریک عوام کے جذبات اس دریا کے مصداق ہیں جو اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو بہا کر لے جائینگے، عوامی ایکشن کمیٹی نے 15 اپریل سے مطالبات کے حل کیلئے احتجاجی دھرنوں کا اعلان کیا تو انتظامیہ نے فورا تمام اضلاع میں دفعہ 144 نافذ کر دیا ،جسے چیف کورٹ گلگت بلتستان کے معزز ججز نے کالعدم قرار دیتے ہوئے حکم امتناعی جاری کر دیا ، جس کے فورا بعد وزیر اعلی کی ہدایت پر ایک ماہ کیلئے دوبارہ دفعہ 144 نافذ کر دیا گیا ، تاہم عوامی ایکشن کمیٹی کو انتظامیہ نے پر امن احتجاج کیلئے مخصوص جگہیں مختص کر دیں ، دھرنوں کا آغاز ہو گیا اور لوگ جوق در جوق اس میں شریک ہو تے گئے ،15 تاریخ کے احتجاجی دھرنے کے دوران ناقدین کا یہ قیاس تھا کہ یہ دھرنہ ناکام ہو جائیگا اور عوامی ایکشن کمیٹی اپنی حیثیت کھو بیٹھے گی لیکن کمیٹی کے رہنماوں نے دھرنوں کو مسلسل جاری رکھ کرتمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ، گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کے ہیڈ کوارٹرز میں دو روز سے جاری احتجاجی دھرنوں اور شٹر ڈاون ہڑتال نے حکومت اور انتظامیہ کو کسی حد تک گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا اور دھرنوں کے دوسرے روز عوامی ایکشن کمیٹی کے ایگزیکٹیو باڈی کے ممبران کے ساتھ وزیر اعلی اور اسکی کابینہ نے طویل مذاکرات کئے جس کے بعد حکومت کی طرف سے وزیر صحت اور وزیر بلدیات نے گھڑی باغ کے مقام پر عوامی دھرنوں میں حکومت کے فیصلوں کا اعلان کیا جس میں انہوں نے بتایا کہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پر عملدر آمد کرتے ہوئے ہسپتالوں کی فیس 5 روپے کر دی جائیگی، 15 دنوں کے اندر اندر بجلی کی لوڈشیڈنگ پر قابو پالیا جائیگا اور گندم سبسڈی سے متعلق سمری کابینہ کے اجلاس میں تیار کر کے وزیر اعظم کو پیش کر دی جائیگی ، جیسے ہی صوبائی وزراء نے یہ اعلانات کئے دھرنے کے شرکاء نے ماننے سے انکار کر دیا اور شریک مظاہرین نے شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی حکومت کے خلاف نعرے بازی کی ، تاہم مذاکرات کامیات ہو ہی گئے، عوامی طاقت نے اپنا اثر دکھا دیا اور حکمرانوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ 

tahir-ranaگلگت بلتستان کی تاریخ میں ایک نیا باب رقم ہوگیا ہے، گلگت سمیت تمام اضلاع کے ہیڈ کوارٹر ز میں عوامی ایکشن کمیٹی کی چھتری تلے کامیاب اور پر امن عوامی دھرنوں نے آخر کار انتظامیہ اور حکومت دونوں کو مجبور کیا کہ وہ عوامی ایکشن کمیٹی کے مطالبات پر سنجیدگی سے عملدر آمد کو یقینی بنائیں ، دو روز سے جاری کامیاب دھرنوں اور شٹر ڈاون ہڑتال میں بلا تفریق رنگ ،نسل ، ذات اور فرقے کے عوامی اتفاق و اتحاد کی بہترین اور تاریخی مثالیں قائم ہو گئیں ، باجماعت نمازوں کی ادائیگی اور آپس میں محبتوں کے تبادلے نے ایک طویل عرصے کے بعد لوگو ں کے چہروں میں آسودگی پیدا کر دی ، مقررین کے امن و اتحاد سے متعلق ایک ایک لفظ پر شرکاء خراج پیش کرتے رہے جس سے واضح ہو رہا تھا کہ عوام کو انکے بنیادی حقوق کے ساتھ ساتھ امن سے بھی محروم رکھا گیا ہے، دھرنوں میں زیادہ تعداد مزدور طبقے کی دیکھنے کو ملی ، تاہم اس بار متوسط طبقہ بھی پسے ہوئے طبقے کے شانہ بشانہ کھڑا نظر آیا اگر یہ صورتحال برقرار رہی اور اسی طرح امن و محبت اور اتحاد و اتفاق کی فضا قائم رہی تو وہ دن دور نہیں جب گلگت بلتستان میں خوشحالی ہی خوشحالی ہوگی۔ 

پیپلز پارٹی کی حکومت کے گزشتہ 4 سالوں میں حکمرانوں کی بے حسی ، نا انصافیوں ، کرپشن ،اقرا ء پروری اور لوٹ مار کے علاوہ عوام کو کچھ بھی نصیب نہیں ہوا، یہاں تک کہ موجودہ وقت کے نا اہل حکمرانوں نے عوام کے بنیادی انسانی حقوق بھی چھیننے شروع کر دئیے ، جس کی وجہ سے احتجاجی مظاہروں اور دھرنوں کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا ، لیکن صوبائی کابینہ کے وزراء کی بے حسی کا یہ عالم کہ کسی کے کانوں میں جوں تک نہیں رہینگی ، بلکہ مذکورہ مہربان گلگت بلتستان کے وسائل کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے میں مصروف ہوگئے ، اسلام آباد اور دیگر شہروں کا سیر سپاٹہ شاید ہمارے وزراء کا مشغلہ بن چکا تھا کہ علاقے کو مسائل کے دلدل میں ڈال کر یہ حضرات عیاشیاں کرتے رہے ، گستاخی معاف اسمبلی میں سپیکر وزیر بیگ کے علاوہ کچھ ایسے بھی لوگ ہیں جو حقیقی معنوں میں اپنے عوام کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تاہم آٹے کے ساتھ گیہوں بھی پستا ہے کے مصداق انہیں بھی اپنی قوم کیلئے کچھ کر گزرنے کا موقع نہیں دیا گیا ، جسکی وجہ سے عوام محرومیوں کے دلدل میں پھنس کر رہ گئے اور نوبت یہاں تک پہنچی کہ عوام کو آخر کر اپنے حقوق کیلئے متحد ہونا پڑا ، اور ایک عوامی ایکشن کمیٹی معرض وجود میں آئی جو ان دنوں عوام کیلئے امید کی ایک کرن ثابت ہورہی ہے۔ امید ہے یہ امن و امان اور اتفاق و اتحاد کی فضا ء قائم و دائم رہے تاکہ مملکت خداداد بالخصوص اور گلگت بلتستان بالعموم ترقی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن ہوسکے ۔

دل دھڑکنے پہ بھی پابندی لگا دی جائے
لاش احساس کی سولی پہ چڑھا دی جائے
سانسوں میں بغاوت کا سخن بول رہا ہے
تقدیر کے فرزند کا دل ڈول رہا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button