گلگت ڈوب رہا ہے۔۔۔۔!
آزادی کے 65 سال پورے ہو گئے ،آج گلگت شہر میں جشن آزادی کی تقریبات منعقد کی جا رہی ہیں،سرکاری اور نجی اداروں میں چراغاں کیا جا رہا ہے،اور کیوں نہ کریں آزادی کا دن جو ہے۔ یہ وہ دن ہے جب یہاں کے بہادر عوام نے ڈوگرہ راج سے اپنے اس خطے کو اپنے زور بازو سے آزاد کرا یا تھا ،اس آزادی کے لئے ہمارے آباو اجداد نے بڑی قربانیاں دیں ،وہ چاہتے تھے کہ ہم آزاد فضاوں میں زندگی گزار سکیں ، انکا مقصد تھا کہ ہم اپنے اس خطے کو اپنی خواہش کے مطابق خوشحال بنائینگے ، امن سکون اور شانتی کے ساتھ زندگی بسر کریں، لیکن کیا گلگت بلتستان کے لوگوں نے اس آزادی کے اصل مقصد کو حاصل کیا ؟کیا گلگت بلتستان میں خوشحالی آئی؟ کیا یہاں ہم امن و سکون سے زندگی گزار رہیں ہیں ، جشن آزادی کی خوشی اپنی جگہ لیکن آج ہمیں اپنے آپ کو احتساب کے کٹہرے میں کھڑے ہو کر سوچنا ہوگا کہ ہم نے آزادی کے ان 65 سالوں میں اپنی دھرتی کے ساتھ کتنی وفا کی ہے۔اور کیا ان شہداء اور غازیوں کی اس عظیم قربانی کے مقصد کو پا لیا ہے ؟ ڈوگرہ راج کے خاتمے سے لیکر اب تک گلگت شہر میں کیا تبدیلی آئی ،خوشیوں محبتوں سے بھرے اس شہر کی کیا حالت ہو گئی اس حوالے سے ہمیں سنجیدگی سے سوچنا ہوگا۔ یوں تو گلگت شہر کو حالیہ پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت نے بگ سٹی قرار دیکر بہت بڑا کارنامہ سر انجام دے دیا ہے،لیکن بگ سٹی میں کونسی سہولیات ہونی چاہیے اس پر غور کرنے کی فرصت شاید کسی کو نہیں ملی،شہرگلگت میں گزشتہ 2 عشروں سے آبادی کا تناسب بے لگام گھوڑے کی طرح بڑھ رہا ہے،مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے اور سب اچھا ہے کی گردان کے سوا کسی نے بھی اس شہر کی حالت پر توجہ نہیں دی۔۔۔یہی وجہ ہے کہ گلگت شہر آہستہ آہستہ اپنی رعنائیاں کھو رہا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتے ہوئے مسائل شہر کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں۔
گلگت شہر کاتباہ حال سیوریج سسٹم، گندہ اور مضر صحت پانی ، صحت و صفائی کی ابتر صورتحال عوامی اور زمہ دار شہریوں کی غفلت اور لاپرواہی کا منہ بولتا ثبوت ہے،سیوریج سسٹم کی مناسب منصوبہ بندی نہ ہونے کی وجہ سے شہر کے 80 فیصد لوگ گندہ اور مضر صحت پانی پینے پر مجبور ہیں ، جسکی وجہ سے ایک اندازے کے مطابق شہر کے ہر دوسرے شخص کو یرقان ، ہر پانچوں شخص کو ہیپیٹائٹس بی اور ہر ساتویں شخص کو ہیپیٹائٹس سی جیسی خطرناک بیماری لاحق ہے۔ آج سے 10 سال قبل گلگت شہر کے سیوریج سسٹم کا منصوبہ تیار کیا تھا لیکن پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کی نا اہلی کی وجہ سے اس منصوبے پر عمل نہیں ہو سکا ، اس منصوبے پر عمل نہ ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ زمین کے اندر موجود گندے پانی کا لیول بڑھ رہا ہے اور کئی مقامات پر تو پانی زمین کے اوپر بھی آچکا ہے ، جس کی وجہ سے کئی مکانات کو نقصان پہنچنے کے ساتھ ساتھ وبائی امراض میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
اس شہر کو دوسرا بڑا نقصان یہاں موجود نفرت اور امن و امان کی خراب صورت حال ہے،جس قوم نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر اور یک جان ہو کرگھنسارا سنگھ اور اسکی فوج کو شکست فاش دی آج وہی قوم آپس میں دست و گریباں ہے۔اس شہر میں کئی معصوموں کا خون بہا ہے،جنگ آزادی میں اتنا جانی نقصان نہیں ہو جتنا آج تک آپس کی لڑایوں میں بہایا گیا ہے۔قصور کسی اور کا نہیں قصور ہمارا اپنا ہے کیوں کہ ہم آج تک آزادی کے اصل مقصد کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔کیا اسی مقصد کیلئے اس خطے کو آزاد کرایا گیا تھا کہ آج بھائی بھائی کا دشمن بن گیا ہے۔طاقت اور اقتدار حاصل کرنے کی اس دوڑ میں کئی خاندان برباد ہو گئے، سینکڑوں عورتیں بیوہ جبکہ ہزاروں بچے یتیم ہو گئے۔گلگت شہر کی اس حالت کو دیکھ کر ہمارے آباو اجداد کی روحیں بھی تڑپ رہی ہونگی اور وہ افسوس کر رہی ہونگی کہ ہم نے اس خطے کو آزاد کیوں کر کرایا۔
کرپشن ،اقربا پروری،لوٹ کھسوٹ اور امن و امان کی بگڑتی سنبھلتی صورتحال نے اس شہر کو تباہی کے دھانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
ہر سال جشن آزادی گلگت بلتستان کے موقع پر تجدید عہد کیا جاتا ہے اور جیسے ہی یہ دن گزر جاتا ہے اس عہدکی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔صرف آزادی کی تقریبات منعقد کرانے کا کوئی فائدہ نہیں، جب تک ہم اس آزادی کے اصل مفہوم کو نہ سمجھیں ۔ جشن آزادی کے بعد کئی عشرے بیت گئے ،آج جب ہم مڑ کر اپنے ماضی کی طرف دیکھتے ہیں تو ہمیں سوائے رسوائی کے کچھ نہیں ملتا۔وہ شہر جہاں محبتیں بانٹی جاتی تھیں ،جہاں اتحاد و اتفاق کا دور دورہ تھا،جہاں ایک دوسرے کے لئے لوگ جان دینے سے بھی گزیز نہیں کرتے تھے، وہ شہر گلگت آہستہ آہستہ ڈوب رہا ہے او ر اگر ہم نے وقت پر اس کا سد باب نہیں کیا اور اگر ہم نے اپنی حالت نہیں بدلی تو خدا بھی ہماری حالت نہیں بدلے گا،اور ہم تباہ و برباد ہو جائینگے۔آج کے دن ہمیں سچے دل سے ایک عہد کرنا ہوگا کہ ہم اپنے آباو اجداد کے آزادی حاصل کرنے کے اصل مقصد کو سمجھ جائیں اور اس مقصد کے حصول کیلئے اپنی کوششیں تیز کریں ،اس شہر کو نام کی حد تک نہیں بلکہ عملی طور پر ماڈل شہر بنانے کی ضرورت ہے۔آزادی کی اس عظیم نعمت کی ہم نا شکری کرتے آرہے ہیں ،جب تک ہم اس مٹی سے وفا دار نہیں ہونگے ،یہ مٹی بھی ہمارے ساتھ وفادار نہیں رہے گی۔
مٹا دی ہم نے جو اصلاف سے میراث پائی تھی
ثریا سے زمین پر آسمان نے ہم کو دے مارا