کالمز

لانگ مارچ اور اسکے اثرات 

گلگت بلتستان میں عوامی مسائل کے حل کیلئے حکومت وقت کے خلاف ایک ہفتے سے جاری احتجاجی دھرنوں کا حکمر انوں نے کوئی خاص اثر نہیں لیا ، شاید یہ انکی خام خیالی تھی کہ لوگ کچھ دن موسم کی سختی گرمی کو جھیلنے کے بعد اپنے اپنے گھروں میں لوٹ جائینگے ، لیکن عوامی ایکشن کمیٹی نے اس بار کمر کس لی ہے اور تہیہ کیا ہے کہ جب تک مطالبات حل نہیں ہوتے وہ اپنے مشن سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے ، بلکہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس تحریک میں مذید جوش و ولولہ اور شدت پیدا ہو رہی ہے، گلگت بلتستان کے تمام اضلاع میں جاری احتجاجی دھرنوں پر جب حکومت نے عدم توجہی کا مظاہرہ کیا اور وفاق سے بھی کسی قسم کا رد عمل دیکھنے میں نہیں آیا تو عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان نے تمام اضلاع سے گلگت کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کر دیا ، چلو چلو گلگت چلو کے نعروں کے ساتھ 22 اپریل کو تمام اضلاع کے عوام گلگت کی طرف لانگ مارچ کرینگے ، عوامی ایکشن کمیٹی کے ترجمان کے مطابق لاکھوں کی تعداد میں عوام گلگت کا رخ کرینگے جس کے بعد اگلے لائحہ عمل کا اعلان کیا جائیگا۔

tahir-rana22 تاریخ کو چلا س، سکردو، گانچھے، غذر ، استور اور ہنزہ نگر سے عوام کی بڑی تعداد گلگت کی طرف مارچ کریگی ، جسکے بعد یقینی طور پرانتظامیہ کیلئے عوام کو سنبھا لنا مشکل ہو جائیگا، دفاتراور سکول جزوی طور پر بند رہیں گے اور کاروبار زندگی بھی معطل ہو جائیگی، لاکھوں کی تعداد میں جب لوگ مسائل کے حل کیلئے گلگت کی سڑکوں پر نکلیں گے تو یہ نہ صرف صوبائی حکومت کیلئے بلکہ وفاقی حکومت کیلئے بھی ایک بہت بڑا مسئلہ بن جائیگا، ہونا تو یہ چاہئیے تھا کہ عوامی رائے کا احترام کرتے ہوئے صوبائی و وفاقی حکومت مسائل کے حل کیلئے سنجیدہ اقدامات کرتی لیکن ایسا نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے نوبت لانگ مارچ تک پہنچی۔

عوامی ایکشن کمیٹی کے چارٹر آف ڈیمانڈ پر عملدر آمد کے بجائے صوبائی قیادت نے اپنے اخباری بیانات میں اپنی بے اختیاری کا رونا رونے کے علاوہ کوئی عملی مظاہرہ نہیں کیا اور تو اور وفاقی پالیسی ساز اداروں کو بھی گلگت بلتستان کی موجودہ بحرانی صورت حال کے بارے میں اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی گئی، پیپلز پارٹی کی صوبائی حکومت گندم سبسڈی کی بحالی میں نہ صرف ناکام رہی بلکہ خود صوبائی وزراء نے یہ بیان دیا کہ ہم اس حوالے سے بے اختیار ہیں ، دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے صوبائی قیادت نے بھی مرکز میں اپنی حکومت کو اس بابت اعتماد میں لینے بجائے صرف تماشا ہی دیکھتے رہے ،(ن) کے ایک انتہائی ذمہ دار شخصیت نے حال ہی میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ تحریک ایک دو دن بعد دم توڑ دیگی اور وہ خود نہیں چاہتے کہ وفاق ان مسائل کو حل کرے جس کا فائدہ موجودہ صوبائی حکومت کو حاصل ہو، گلگت بلتستان کی موجودہ بحرانی صورت حا ل سے متعلق پائیدار حل تلاش کرنے کے بجائے جب ذمہ دار حکام یہ حالت ہوگی تو لازما لانگ مارچ کی نوبت آ جائیگی ، اس ملک کے حکمرانوں کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ رہا ہے کہ احتجاج کے بعد ہی مسائل کو حل کرتے ہیں ، آج گلگت بلتستان کے ان عوامی مسائل کو حل نہ کئے جانے کی وجہ سے عوام میں وفاقی و صوبائی دونوں حکومتوں کے خلاف نفرت پیدا ہوگئی ہے جس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے عوامی رائے کو مذاق سمجھتے رہے، اس طرح کی صورت حال پیدا کرنے میں سب سے بڑا کردار صوبائی حکومت کا رہا ہے ، جنہوں نے عوامی مسائل کے حل کیلئے ہی عوام سے ووٹ حاصل کئے اور اسمبلی تک پہنچے آج انہی نمائندوں کی غلط پالیسیوں اور نا اہلی کی وجہ سے عوام کو سڑکوں پر آنا پڑا ۔

پانی سر سے اوپر ہونے کے بعد ہی شاید حکمرانوں کو ہوش آئے گا کیونکہ اب تک مسائل جوں کے توں ہیں ،کچھ عناصر لانگ مارچ کو ثبوتاذ کرنے کیلئے صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کی افواہیں کر رہے ہیں ، لیکن عوامی ایکشن کمیٹی کے ممبران نے اس بات پر اپنا موقف دیتے ہوئے واضح کیا ہیکہ وہ کسی کو سیاسی شہید کا درجہ نہیں دینا چاہتے موجودہ حکومت مطالبات حل کرے اگر گورنر راج یا کسی قسم کا غیر جمہوری اقدام اٹھایا گیا تو اس اقدام کے خلاف بھی بھر پور احتجاج کیا جائیگا۔

مسلم لیگ (ن) کی وفاقی حکومت کو ایسی صورتحال میں اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے ، اگر وفاق نے سستی کا مظاہرہ کیا تو لانگ مارچ کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال وفاق کیلئے ذہر ثابت ہوگی ، وفاق کے ساتھ عوام کے اعتماد کو ایک دفعہ کھودینے کے بعداسے دوبارہ حاصل کرنے میں صدیاں لگ سکتی ہیں ، وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کو اس نازک موڑ پر اہم فیصلے کرنے ہونگے اگر عوام کا یہ لانگ مارچ گلگت میں داخل ہو گیا تو اس کے بعد عوام کو کنٹرول کرنا ناممکن ہو جائیگا ، دوسری طرف کسی بھی غیر جمہوری اقدام کے نتائج قوم و ملک و ملت کے لئے انتہائی ناخوشگوار ثابت ہو سکتے ہیں اور دشمن ایسے موقعے کی تاک میں بیٹھیں ہیں کہ کب حکومت کوئی غلطی کرے جسکاوہ فائدہ اٹھا سکیں ۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button