گندم سبسڈی نہیں، آئینی حقوق چاہیے
تحریر مولامدد قیزل
آذادی گلگت بلتستان کے ہیروز اور عوام کو کہاں معلوم تھا کہ ڈوگروں سے آذادی حاصل کرنے کے بعد انکی آنے والی نسل پر ایک اور قوت قابض ہو جائے گی جنہیں یہ اپنے اسلامی بھائی سمجھ بیٹھے تھے. انہیں کیا معلوم تھا کہ جسے یہ آذادی سمجھ بیٹھے تھے وہ دراصل غلامی اور محرومی کی ایک نہ ختم ہونے والی زنجیر ہےجسے یہ اپنی اولاد کے گلے میں ڈال رہے ہیں۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ آذادی حاصل کرنے کے بعد انکی نسل انحطاط کا شکار ہوگی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ ان پر قابض حکمران انہیں آپس میں لڑا کر منتشر کرینگے ۔ انکو کیا معلوم تھا کہ انکی نسل فرقہ وارانہ فسادات کی بھینٹ چڑھ گی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ انکی ذبانیں اور رسم الخط مخدوش ہونگی۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ انکی شناخت ، پہچان ان سے چیھن جائیگی ۔ انہیں کیا معلوم کہ کہ انکی نسل کو تمام تر بنیادی حقوق سے محروم رکھا جائے گا ۔انہیں کیا معلوم تھا کہ انکے سپوت اس ملک کے دفاع کے لیے شہید اور غازی تو بن جائینگے لیکن اس فوج کا سپاسالار نہیں بن پاینگے ،وہ قومی اسمبلی کے ممبر نہیں بن سکیں گے اور نہ ہی سینیٹ کے ۔۔۔ انہیں کیا معلوم تھا کہ اس علاقے کے قدرتی وسائل اور نعمتوں سے انکی اولاد محروم رہے گی اور اغیار ان پر قابض ہونگے ۔یہ بھی انہیں معلوم نہیں تھا کہ عوام اپنی حقوق کے لئے جب نکلیں گے تو انہیں ان کے اپنے محافظ ، جنہیں سرکاری ملازم اور عوام کا خادم سمجھا جاتا ہے، گولیاں ماریں گے. انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ڈوگروں کے بعد ان پر مسلط ہونے والی قوت ان سے بھی بری ہوگی ۔ انہیں یہ بھِی معلوم نہیں تھا کی وہ جس ایمان اور جذبہ حب اواطنی سے اپنے خطے کا الحاق کرانے جا رہے ہیں وہ سر زمین نصف صدی سے زیادہ تک سر زمین بےآئین کہلائے گا۔ انہیں سستی روٹی سکیم دے کر انکی نسل کو لاغر، سست اور کاہل بنا دیا جائیگا. انہیں روٹی اور آٹے کی لڑائی میں الجھا کر ان کی قدیم قومی حمیت اور غیرت ختم کی جائیگی!
ہمیں نہیں چاہیے سستی روٹی کی سکیم ، ہمیں گندم سبسڈی نہیں چاہیے. ہم احسانمند نہیں رہنا چاہتے. ہمیں کسی کا شکریہ ادا کرنے کی ضرورت نہیں. ہمیں آئینی حقوق چاہیے ، وہ آذادی چاہیے جو فطرت نے ہر انسان کودی ہے ۔ ہمیں اپنیا تاریخی وقارچاہیے ،ہمیں شناخت چاہیے ، انصاف چاہیے خومختاری چاہیے۔
گندم سبسڈی دراصل قوم کو سست، لاغر اور کاہل کرنے کی ایک سکیم ہے ، بھٹو نے ہماری قوم کو سستی روٹی دے کر ذیادتی کی ہے ۔جسکا خمیازہ آج بھِی ہم بھگت رہے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا اگر بٹھو کوئی علم درسگاہ کی بنیاد رکھتا ، کیا ہی اچھا ہوتا کہ صحت عامہ کے درد انگیز مسائل کا کوئی حل دیتا اور بہت سارے کام ہو سکتے تھے مگر گندم سبسڈی ہی کیوں ؟
یہ سستی روٹی کا ہی نتیجہ کہ نصف صدی تک گلگت بلتستان کے عوام کو علم کی روشنی سے دور رکھا گیا، یہ اس قوم کی کمزور سوچ نہیں تو اور کیا ہے؟ ںصف صدی بعد ایک فوجی ڈکٹیٹر نے ایک جامعہ دیا ،، ان جمہوری اقدار کے دعوداروں نے ہمیشہ قوم کو انحطاط کی طرف دھکیل دیا ۔ اس ساءینسی دور میں آج بھی ہم صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں ۔ ملک کے دوسرے حصوں میں نہیں بکنے والی ادویات آج بھِی یہاں بک جاتے ہیں ، ہر دو نمبر شے کا کاروبار عام ہوچکا ہے ،مگر ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے ہیں.
وقت آچکا ہے کہ ہم ذاتی اور انفرادی مصلحتوں کو چھوڈ کر ایک قوم بن جائیں۔ ملی غیرت کا احساس بیدار کرے ۔ اس خطے کے مظلوم قوم کو خواب غفلت سے بیدار کرے ۔ اپنی شناخت کا پرچم بلند کرنے کے لئے انفرادیت سے نکل کر اجتماعی مفاد کو ترجیح دے ۔پاکتستان کے تمام وفاقی سیاسی جماعتوں کا بائیکاٹ کر کے اپنی قومی پہچان کو ترجیح دے ۔ کٹھ پتلی حکمرانوں کو عوامی انصاف کے کٹھرے میں لا کھڑا کرے ۔
یہ اس وقت ممکن ہوگا جب نوجوان نسلی ، مذہبی ، لسانی اور علاقائی تعصب سے بالاتر ہوکر پوری قوم کو صیح سمت کی طرف لے جانے میں اپنا کردار ادا کریں ۔ اغیار کے جھنڈے تلے کھڑے ہو کر نٰرہ لگانے کے بجائے قوم کو ایک جھنڈے تلے جمع کریں ۔ یہ کام مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ،،،
ایک کمنٹ