احمد کی د اڑھی بڑی یا محمود کی
سات اضلاع پر مشتمل علاقہ جسے گلگت بلتستان کا نام دیا گیا ہے دنیا میں شاید، بلکہ ہمیں یقین واثق ہے، کہ پہلا خطہ ہوگا جس کی اپنی کوئی شناخت نہیں اور ایک آزاد ملک کا حصہ ہونے کے باوجود آئینی حثیت سے محروم ہے . اس وقت اس علاقے کے باسی ایک جان کنی کی کیفیت سے دوچار ہیں اور نہ جانے یہ جان کنی کی حالت کب تک برقرار رہتی ہے.اس علاقے کی یہ حالت کیسے ہوگئی اور وہ اس مقام تک کیسے پہنچے اور وہ کونسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے یہ علاقے جان کنی کی سی کیفیت میں مبتلا ہوئے ہیں اور اس کے ذمہ دار کون لوگ ہیں،جن پر یقیناًمورخین طبع آزمائی کرتے ہوئے آنے والے وقتوں میں ایک لمبی داستان رقم کرینگے.
گھر کی بات گھر کا بھیدی ہی جان سکتا ہے. زمانہ قدیم کی لکھی ہوئی تاریخ ہمیں دستیاب نہیں. گلگت نوپورہ سے ملنے والا مسودہ اور مواد بھی ہم نے اپنے نااہلی کی بدولت بھارت کے حوالے کر دیا ہے. اس مسودے کی عبارت جو پراکرت یا اور کسی زبان میں ہے ترجمہ کرنے کی کوشش جاری ہے لیکن تا حال کامیابی نہیں ہوئی ہے. یہ بات البتہ مصدقہ ہے کہ مذکورہ مسودہ دہلی لائبریری میں محفوظ ہے۔ سینہ بہ سینہ جو روایات ہمیں ملتی ہیں ان پر آج تک اتفاق نہیں ہو سکا ہے ۔
بہر حال چھوٹی چھوٹی ریاستوں کے راجگان اپنی کوہ تا اندیشی سے اغیار کو ان علاقوں میں بلایا یا لے آئے اور جس دن اس علاقے میں اغیار کے قدم پڑے اسی دن ہی ان علاقوں کی قسمت پھوٹ گئی تھی. کبھی ان علاقوں کا تعلق چین سے ملایا گیا تو کبھی تاجکستان سے. کبھی یہاں کے حکمران ڈوگرے بنے تو کبھی انگریز اور سکھ بھی پیچھے نہیں رہے .غرض جب بھی کسی راجے کو حکومت بچانے کے لئے ان کی ضرورت پڑی تو انھوں نے ان اغیار کو پکارا اور ان کے ہاتھوں میں کھلونا بن گئے جس کی وجہ سے ان علاقوں کی تاریخ اور شناخت مٹ گئی. دوش کسی کا نہیں یہ پھول تو اپنے ہی ہاتھوں مسلا جا چکا ہے اور یہ گھر تو اپنے ہی کے ہاتھوں لٹ چکا ہے. اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے .
تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے اب نہ وہ پہلے والے راجے ہیں اور نہ ہی چھوٹی چھوٹی ریاستیں. اب کے بار ڈرامے کا پلاٹ وہی ہے صرف سین بدل چکا ہے راجوں کی جگہ اسمبلی اور کونسل کے ممبروں نے لی ہے اور ریاست کی جگہ کرسی نے اور بے چاری عوام پہلے بھی بے بس تھی اور اب بھی یہ اتنی ہی کمزور ہے. ان کا کام صرف یہ ہے کہ تماشائی بن کر رہے. اگر کسی نے چوں چرا کی تو قانون حرکت میں آئیگا کیونکہ قانون بناہی صرف غریب عوام کے لئے ۔ جیسے راجوں نے اپنا کردار نبھایا ہے وہی کردار ادا کرنے کے لئے ہر وہ حربے استعمال کئے جارہے ہیں. توبہ بھلی ان حر بوں میں سے.
ایک حربہ مذہب کا ہے. شمالی علاقہ جات کے معصوم عوام کو مذہبی تعصب کا ایک ایسا انجکشن لگایا گیا ہے جو ان کی رگ رگ میں سرایت کر گیا ہے اور اب تو حالت یہ ہے کہ دفتروں میں فائلیں بھی مسلک کے نام پر آگے پیچھے ہوتی ہیں. اخباروں کو بھی مسلک کے نام پرشائع کرکے ان کو اسی بنیاد پر خریدا اور بیچا جا رہا ہے۔سفر کے لئے ٹرانسپورٹ کا انتخاب بھی مسلک کی بنیاد پر کیا جاتا ہے ۔
اپنی شناخت کے کچھ نشان پچھلے راجے مہارجے حکمرانوں نے مٹا دئے اور اب جو دھندلے سے نشان باقی بچے ہیں ہم خود ان کے درپے ہیں. خود غرضی میں ہم اتنے آگے نکل گئے ہیں کہ بس اپنے مطلب سے کام لیتے ہیں خواہ کوئی مرے یا جئے فضول باتوں میں اپنا وقت برباد کر رہے ہیں. پہلے اور دوسرے، ہاتھ اوپر یا نیچے، روزہ پہلے یا بعد میں اور اماموں اور خلیفوں کے چکروں میں کئی قیمتی جانوں کو کھو چکے ہیں اور نہ جانے اور کتنی جانیں اس تعصب کی بھینٹ چڑھ جائینگی.
نہ ابھی تک پہلا دوسرا ہوا اور نہ اب تک امام خلیفہ ہوا اور نہ کوئی خلیفہ امام ہوا ۔ ہمارے پہلے اور دوسرے ماننے یا نہ ماننے سے کسی نبی ، خلیفہ ،امام یا ولی کے مرتبے اس کی شان اور عزت میں کمی نہیں آسکتی اور نہ ہی اس کی ذات میں فرق آسکتا ہے. اللہ کے ہاں ان کا جو مرتبہ اور مقام ہے وہ ہمیشہ برقرار رہیگا. چھوٹے اور ذلیل تو ہم ہی ہونگے جن سے ایسی حرکات سر زد ہونگی.
آج ہم واویلا کر رہے ہیں کہ ہماری کوئی شناخت نہیں ہماری کوئی آئینی حثیت نہیں، ہمارے حقوق پر ڈاکہ ڈالا جارہا ہے یہ سب زیادتیاں اپنی جگہ ہوتی رہینگی جب تک ہم احمد کی داڑھی بڑی یا محمود کی جیسے فضول باتوں میں الجھے رہینگے، جب تک یہاں کے بسنے والے اور نمائیندے اپنے اوپر سے مذہبی تعصب کا لبادہ نہیں اتارینگے اور ایک قوم بن کر نہیں سوچینگے. جس دن گلگت بلتستان کے ذمہ دار اور لوگ احساس کرکے احمد کی داڑھی اور محمود کی داڑھی کا قصہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تمام کرینگے اس دن ان کے لئے قسمت کے دروازے خود بخود کھلتے جائینگے.
sir ji nice artcle, realy sir, i reat it compltly