کالمز

آزادی کے بعد کا سفر

تحریر:- محمد یاسین بلتی

آزادی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کی ہوئی ایک بہت بڑی نعمت ہوتی ہے اکثر لوگ آزادی کے اصل معنی سے بھی بے خبر ہوتے ہیں۔آزادی کی قدر وقیمت اور اہمیت کا اندازہ لگانا ہوتو ان لوگوں سے پوچھا جائے جو آج تک اس نعمت سے محروم ہے یقیناً یہ ایک حقیقت ہے جس سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ لیکن آزادی کو حاصل کرنے کے لئے بہت بڑی جدوجہدکرنے کی ضرورت پڑتی ہے آزادی قربانی طلب کرتی ہے اس سفر میں ہمیں بہت تکلیفوں اورپریشانیوں کو برداشت کرنا پڑتی ہیں۔ خون کا نظرانہ بھی پیش کرنا پڑتا ہے اپنوں سے جدا بھی ہونا پڑتا ہے اور ان تمام چیزوں کو کرنے کے بعد آزادی ملتی ہے اور وہ اقوام اپنی مرضی اور ملکی قوانین کے مطابق اپنی زندگی بغیر کسی بھی زبردستی کے بسرکرے آزادی کہلاتی ہے، آزادی کا اصل مطلب یا مقصد ہی یہی ہوتاہے ہر ایک تمام تر بیرونی دباؤ اور خطرات سے بالکل آزاد ہو دوسروں کی ثقافت ہم پر یلغار نہ ہو۔ آپ اپنی ثقافت کے مطابق زندگی گزارے تو آپکو یہ احساس نہ ہو کہ مجبور ہوکر عمل پیرا ہے۔

پاکستان ۱۴ اگست ۱۹۴۷ ؁ء کو دنیا کے نقشے پر ایک آزاد اسلامی مملکت کی سے حیثیت سے معرض وجود میں آیا پاکستان کو بھی بڑی قربانیوں اور انتھک کوششوں کے بعد آزادی نصیب ہوئی۔ بزرگوں نے اس ملک کو بنانے کے لئے بہت بڑی تحریک چلائی تاکہ مسلمان آزاد فضا میں سکھ کی سانس لے سکے۔ بہت قربانی اور جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے بعد یہ ملک مسلمانوں کے لیے ایک جنت کی طرح نصیب ہوا۔ جہاں پر لوگ اپنے اپنے انداز میں زندگی بسر کرسکے۔ قائداعظم کی انتھک محنتوں اور کوششوں سے ملک حاصل ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے ان کی رحلت کے بعد قیادت کے فقدان سے اس ملک کو بڑے Challangesکا سامنا کروایا۔ آج اگر ہم پاکستان میں حقیقی آزادی دیکھنا چاہے تو بہت کم ہی نظر آتی ہے ہر کوئی یہی رونا روتا ہے کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے روزمرہ زندگی کے تمام شعبوں میں کرپشن، اقرا پروری، ناانصافی بددیانتی وغیرہ وغیرہ بہت عام سی چیزیں ہیں۔

ہر قوم الگ ہونے کے لئے نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھ رہی ہے کبھی بلوچستان میں کوئی تحریک آزادی کیلئے متحرک ہوجاتی ہیں۔ تو کبھی سندھ میں تحریک آزادی اسکی اصل وجہ کیا ہوسکتی ہے؟ اصل میں آج تک ہمارے ملک میں کسی لیڈر کا احتساب نہیں ہوا اس لیے ملک میں یہ سب کچھ چل رہا ہے۔ میرااصل موضوع گفتگو خطہ بے آئین گلگت بلتستان ہے یہ خطہ یک نومبر ۱۹۴۸ ؁ء کو آزاد ہوا اس وقت کے بہادر وغیور اور باشعور بزرگوں نے اپنی آپکے تحت ڈوگرہ راج سے اس خوبصورت خطے کو آزاد کرایا لیکن بلاکسی شرائط کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کردیا کیونکہ پاکستان ایک مسلم ملک تھا ہمارے بزرگوں نے یہی سوچ کر فیصلہ کیا ہوگا کیونکہ اس وقت پاکستان سیاسی اور جغرافیائی طور پر مستحکم تھا۔ اور قیادت بھی اچھی اور محب وطن تھے، کیونکہ انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا اس لیے پاکستان کو بیسٹ آپشن (Best Option) سمجھ کر الحاق کردیا۔

پاکستان نے اپنا ۶۸واں یوم آزادی نہایت احترام وجوش جذبہ کے ساتھ منایا اور اسی طرح خطہ گلگت بلتستان میں بھی نہایت عزت واحترام جوش وجذبہ کے ساتھ بلکہ پاکستان کے دیگر صوبوں سے بھی زیادہ احسن طریقے سے منایا گیا۔ اس بات کی دلیل آپ خود دیکھئے گا۔ ۶۷ سالوں سے بے آئین سرزمین نام نہاد پاکستانی ہی تصور کرتے ہیں۔ اسکے علاوہ اور کسی سے الحاق کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ ان تمام چیزوں کے علاوہ بے مثال قربانیاں پاکستان کے لیے دے چکے ہیں۔ یہ خطہ نہایت ہی پرامن اور محبت وطن ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت ایماندار اور محنت مشقت کرنے والے لوگوں کا خطہ ہے۔ صرف یہی نہیں پرامن اور ترقی پسندی اور تعلیم یافتہ بلکہ پورے پاکستان میں سب سے زیادہ خواندگی گلگت بلتستان میں ہے قدرتی وسائل سے مالامال یہ خطہ رب کائنات کی طرف سے ایک عظیم نعمت ہے، کہاجاتا ہے دنیا کی جس ملک میں ۵فیصد سونا (Gold) پایاجائے اس کا شمار امیر ترین ملکوں میں ہوتاہے جبکہ گلگت بلتستان میں کم ازکم ۳۰ فیصد سے بھی زیادہ سونا (Gold)پایا جاتا ہے۔ اسکے علاوہ قیمتی پتھروں کے بہت بڑے ذخیرے موجود ہیں۔سیاحت یہاں کی خوب صورتی ہے دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں سالانہ اس خطے کا رخ کرتے ہیں۔ صرف اسی شعبہ (Field) پر توجہ دے کر نظام کو چلایا جاسکتا ہے۔

آج یہ خطہ بے آئین ہونے کے باوجود بھی پاکستان سے بے انتہا محبت کرتاہے پاکستان کے خلاف کچھ بھی سننا برداشت نہیں کرتا اور کیا ثبوت چاہیے پاکستانی ہونے کا؟

لہٰذا ان تمام چیزوں کو مد نظر رکھ کر خطہ گلگت بلتستان کو آئینی حقوق دے کر پاکستان کا پانچواں صوبہ بنایا جائے یا پھر ہمیں اپنی شناخت واپس کردی جائے انتہائی حساس خطہ ہونے کی بنا پر میری گزارش ارباب اختیار سے یہی ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ اس خطے کے لوگوں کے احساس محرومی کو دور کرکے ان کو اپنا جائز حقوق دیئے جائے۔

میرا تعلق ایک سرزمین بے آئین خطہ سے ہے اور میں اپنے احساسات (Feelings)کچھ اس انداز میں بیان کرنا چاہتا ہوں اس سال میں اپنے دوستوں کے ساتھ یوم آزادی اپنی یونیورسٹی میں منارہا تھا میں بھی دوسرے پاکستانیوں کی طرح پرجوش تھا پھر نعرے بازی شروع ہوگئی مختلف انداز میں نعرے بازی کرتے ہوئے چاروں صوبوں کا الگ الگ سے نام لے کر پاکستان کی پہنچان وشناخت قرار دیتے ہوئے جارہے تھے۔ مجھے احساس اس وقت ہوا جب کسی نے بھی گلگت بلتستان کو پاکستان کے ساتھ الحاق تک نہیں کیا۔ میرامطلب نام تک لینا مناسب نہیں سمجھا اس وقت جو میری احساسات (Feelings) تھی شاید بیان کرنا مناسب نہیں سمجھتا ہوں یہی احساسات (Feelings)ہر فرزند گلگت بلتستان کو ضرور ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قربانیوں اور محبتوں کا ہمیں یہ صلہ نہ دیا جائے ہمیں بھی اقوام عالم میں وہ مرتبہ ومقام چاہیے جو دوسری قوموں کو حاصل ہے ہمارے اندر یہ احساس باقی نہ رہے کہ ہماری شناخت نہیں ہے ہم ایک باعزت پاکستانی کی طرح اپنی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں ارباب اختیار خدارا ضرور سوچے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو ہمیں بھی مارچ کرنا پڑے اور ملک کو اس کا نقصان اٹھانا پڑے۔

میں کیوں نہ گلگت بلتستان کواپنی ماں کی طرح چاہوں
جس نے صدیوں سے میرا بوجھ اٹھا یا رکھا ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button