کالمز

اجتماعی سوچ کا فقدان

گلگت بلتستان میں فرقہ واریت اور دہشت گردی کے واقعہ پر تجزیہ کرنا ایسا ہے جیسے مچھروں کے چھتے پر ہاتھ ڈالنا شاید اسی لیے یہاں کے لکھاری فرقہ واریت یا دہشت گردی کے بارے چپ سادھ لیتے ہیں یا وہ مصلحت کا شکار ہوجاتے ہیں جس کے باعث دہشت گردی اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والے صاف بچ نکلتے ہیں حراموش وین دھماکہ کے بارے میں اب تک کوئی حتمیHidayat Ullah نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے کہ یہ واقعہ دہشت گردی ہے یا دھماکے کی وجہ کچھ اور ہے۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس کو دہشت گردی کے زمرے سے خارج بتایا گیا ہے۔لیکن کچھ لوگ اسے دہشت گردی کا واقعہ بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ گلگت میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بھی اس قسم کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ان واقعات کے تجزیئے سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ کچھ واقعات تو ایسے تھے جو دہشت گردوں کے سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ تھے لیکن کئی واقعات ایسے بھی تھے جن کو خواہ مخواہ فرقہ واریت سے جوڑا گیا ۔ میرا موضوع حراموش وین دھماکہ نہیں ہے۔ بلکہ کچھ کھری باتیں ہیں جو اسی فرقہ واریت سے متعلق ہیں جس کا دیمک ہمیں اند اندر سے چاٹ رہا ہے۔حراموش وین دھماکہ کی نسبت سے گلگت بلتستان میں جاری بحث اور افواہوں اور موبائل میں چلنے والے شیعہ کلنگ اور سنی کلنگ ایس ایم ایس کے بارے عرض اور گستاخی کرنے چلا ہوں ممکن ہے کہ اس کالم میں کچھ ترش الفاظ بھی پڑھنے کو ملیں جس کے لیئے پیشگی معذرت۔ یہ بھی لکھ نہیں سکتا کہ ہم مسلمان نہیں ہیں اور اپنے آپ کو مسلمان کہتے ہوئے بھی عجیب لگتا ہے۔ وہ اس لیے کہ اپنے آپ کو مسلمان کہہ کر کس ڈھٹائی سے ہم مسلمانوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔اس سے بڑی بدبختی اور کیا ہوسکتی ہے کہ خود کو مسلمان کہنے والے فرقوں کی دوڑ میں ا یسی گھناونی حرکات کے مرتکب ہو جاتے ہیں کہ اللہ کی پناہ۔ شیعہ کلنگ اور سنی کلنگ کے حوالے سے ایسے شرمناک اور شر انگیز پیغامات کا تبادلہ اللہ اللہ خیر سلا ۔ سوچنے والی بات ہے کہ یہ پیغامات ان پڑھ حضرات نہیں پڑھے لکھے پھیلا رہے ہیں ۔ اپنے کالموں میں گلگت بلتستان کی سیاست کے حوالے سے پہلے بھی اس بات کی نشاندہی کر چکا ہوں کہ گلگت بلتستان میں بظاہر سیاسی پارٹیاں موجود ہیں لیکن عملاً یہ سیاسی پارٹیاں بھی مذہب کی بنیاد پر پھلتی اور پھول رہی ہیں جس کا ثبوت انتخابات کے دنوں میں نظر آجاتا ہے اگر یہ کہا جائے کہ گلگت بلتستان میں صرف دو ہی پارٹیاں ہیں ایک سنی اور دوسری شیعہ پارٹی تو بے جا نہ ہوگا۔(اسماعیلہ اور نور بخشیہ بھائی دل میں ملال نہ لائیں کہ ان کا نام پارٹیوں کے زمرے میں شامل نہیں۔ دو پارٹیوں کی بات مثال فرقہ واریت کے حوالے سے لکھ دی گئی ہے) ۔ اگر کسی کوان باتوں کا یقین نہیں آتا ہے تو وہ آنے والے الیکشن کا انتظار کریں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنے آپ کو مومن سمجھتے ہیں لیکن ہر بار ایک سوراخ سے ڈسے جاتے ہیں یہ چیزیں ہمیں نظر نہیں آتی ہیں اس لیے کہ ہم لوگوں نے الو کی طرح آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمیں دن کو نظر نہیں آتا رات کو ہی ہم دیکھ سکتے ہیں اور جو رات کو نظر آتا ہے وہ بڑا ہی بھیانک ہوتا ہے رات کے اندھیرے میں جو سامان بنتے ہیں وہ ترقی کے نہیں بلکہ بربادی کے ہوتے ہیں اور راتوں رات انتخابات کی شکل بدل جاتی ہے۔ا یسا کیوں ہے؟اور کون لوگ ہیں جو ایسا کر رہے ہیں ۔ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔یہ صرف رات کو ہی نظرآتے ہیں۔

فرقہ واریت پورے ملک کا مسئلہ ہے لیکن گلگت بلتستان کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ مسئلہ کچھ نرالا اور انوکھا سا لگتا ہے یہاں ہر چیز پر فرقہ واریت کا لیبل لگا ہوا نظر آتا ہے کاروبار ہو یا کھیل کا میدان یا کوئی اور شعبہ سب ہی اس فرقہ واریت کے زہر کو امرت سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں کئی واقعات ایسے رونما ہوئے ہیں جن کی مثال پیش کرتے ہوئے شرم آتی ہے مثلاً کسی بھی کھیل، فٹ بال، والی بال یا ہاکی کھیلتے ہوئے زید اور بکر کی لڑائی ہوجاتی ہیں اور بکر کے ہاتھوں زید زخمی ہوجا تا ہے تو بحث شروع ہو جاتی ہے کہ بکر کا تعلق ایک فرقے سے تھا اس نے جان بوجھ کر زید کو زخمی کر دیا اور یوں اس بحث، تکرار اور شر انگیز ایس ایم ایس کی وجہ سے سنی شیعہ جھگڑا شروع اور پھر کئی زید اور بکر حرام ہو کر شہید کا درجہ حاصل کر جاتے ہیں۔ جسے ہم نادیدہ قوتوں کے سر تھونپنے میں پیچھے نہیں رہتے۔ ان نادیدہ قوتوں کا تذکرہ عوامی ایکشن کمیٹی نے بھی حالیہ حراموش وین دھماکے بعد کیا ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ نادیدہ قوتیں گلگت بلتستان کی امن تباہ کر رہی ہیں ۔ان کے اس بیان سے کسی کو انکار نہیں لیکن دیدہ قوتوں کا بھی تذکرہ ہونا چاہیئے جو ہر وقت ہمارے سامنے ہیں اور گھڑی گھڑی روپ بدلتے ہیں تاکہ پہچانے نہ جائیں۔ چشم بینا رکھنے والوں کو یہ بہروپئے نظر تو آتے ہیں لیکن جب پہچانے کا وقت آتا ہے تو ان کی قریب یا دور کی نظر کمزور ہو جاتی ہیں جو ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ مذہبی جماعتوں یا مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں پر فرقہ واریت کا الزام دیا جائے تو بات کسی حد تک صحیح معلوم ہوتی ہے لیکن جہاں صحافت، سیاست یا حکومت کے بارے میں یہ تصور ابھرے کہ سب نے فرقہ واریت کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے تو یہ خطرے کا الارم ہوتا ہے۔ اس وقت حال یہ ہے کہ گلگت کی حدود میں تقریباً تعلیمی ادارے مسلکی بنیادوں پر قائم ہیں خصوصاً سرکاری تعلیمی ادارے پرائمری اور ہائی لیول تک فرقہ واریت کا منظر پیش کر رہے ہیں۔حکومتی نظام پر نظر دوڑائی جائے تو کرایے پر حاصل کئے ہوئے سرکاری عمارتیں مسلکی بنیادوں پر محلہ جات کے اندر قائم کئے گئے ہیں۔ صحافتی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو مقامی اخباروں میں علاقائی خبریں کم ملکی اور بین الاقوامی سیاست اور مذہبیت زیادہ نظر آتی ہے۔ خاص کر کچھ مخصوص اخبار تو جلتی پر تیل والا کام کا فریضہ خوب نبھا رہے ہیں۔اور سب سے بڑا المیہ یہ ہے
کہ مقامی لکھاریوں اور کالم نویسوں کا داخلہ ممنوع ہے اگر ہے بھی تو پسند اور ناپسند اور دوسرے قدغن کا انہیں سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جب معاشرے میں بے انصافی عام ہوگی ایک دوسرے کا احترام نہیں ہوگا۔ میں ہی اعلیٰ باقی سب نیچ۔ میر اہی حکم چلے گا کسی کا نہیں۔۔ دھونس اور دھاقندلی سے بات منوانے کی ریت ہو۔ میرے ہی فرقے کو پزیرائی حاصل ہو باقی جائے باڑ ھ میں والی بات ہو تو ایسے معاشرے میں قومیت،ذات، اور فرقہ واریت کے موذی امراض خود بخود جنم اور پرورش پاتے ہے۔

کیا ہم ان حرکات کو بھی دوسرے کے سر تھونپ سکتے ہیں؟ نہیں تو اس کا ذمہ دار کون ہے؟ معاشرہ یا ہم؟ اس کا بھی تجزیہ ضروری ہے۔ سوال پھر یہی ہے کہ یہ سب کون کر رہا ہے؟ اس کا جواب بھی گھوم پھر کر پڑھے لکھے لوگوں ہی کی طرف آتا ہے۔ کیا کبھی کسی نے سوچا ہے اصل کھیل کھیلنے والا کن کھلاڑیوں سے یہ کھیل کھیل رہاہے اور اصل بات یہ ہے کہ یہ کھیل اس وقت کھیلا جاتا ہے جب مفادات سامنے آجاتے ہیں اور مفادات کسی فرد کے نہیں ہوتے بلکہ گروہ کے ہوتے ہیں کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ کھیل کھیلنے والے کھلاڑی ہم خود ہی ہوں اور الزام دوسروں پر لگاتے ہوں۔اجتماعی کاموں کی طرف نگاہ کی جائے تو یہ اکھاڑہ بھی بغیر پیچ کے ہے اور جس کا جو جی میں ٓتا ہے وہی کھیل کھیل رہا ہے ۔اس اکھاڑے میں این جی اوزکی بھرمار ہے لیکن سوائے چند کے باقی سب فنڈ بٹورنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کر رہی ہیں اجتماعی کاموں کی بات چلی ہے تو اس وقت جی بی کا اجتماعی اور اہم مسئلہ آئنی حیثیت کا ہے۔ لیکن اس کو بھی ہم نے فرقہ واریت کی بھینٹ چڑھا دیا ہے۔اور اب تک اس مسلے بارے کسی متفقہ ایجنڈے پر اتفاق نہیں ہو سکا ہے۔جہاں کسی نے ظلم اور جبر کے خلاف آواز اٹھائی فرقہ واریت کی بنیاد پر اسے حدف تنقید اور ملامت کا نشانہ بنانے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ ہنزہ میں پولیس دہشت گردی ہوئی اور اس میں جو عدالتی فیصلہ آیا ہے وہ بھی سب کو معلوم ہے اس اجتماعی مسئلے کے بارے  میں چند اخباری بیانوں کے سوا کوئی جدو جہد گلگت بلتستان میں نظر نہیں آئی۔اس لئے کہ اس میں فرقہ واریت کا عنصر نہیں تھا۔ اگر ہوتا تو آسمان سر پر اٹھایا جاتا۔جبکہ اس کے مقابلے کوئی چرسی چرس سمگلنگ کیس میں گرفتار ہو جاتا ہے تو اسے مذہب کی بنیاد پر رہائی دلانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جاتا ہے۔ افسوس ہنزہ پولیس دہشت گردی کے اجتماعی مسلے کو گلگت بلتستان میں پس پشت ڈالا گیا۔ بھلا ہو کشمیریوں کا جنہوں نے مظفر آباد، میر پور میں ہنزہ پولیس دہشت گردی اور ناانصافی پر جلسے اور احتجاجی جلوس منعقد کئے اور جی بی کے اجتماعی مسلے کو اجاگر کرنے میں کردار نبھایا ۔ ان کے اس اچھے اقدام پر خراج تحسین پیش نہ کرنا نا انصافی ہوگی۔۔ اگر یہ فرقہ واریت اہم ہوتی تو اس لیبل کو سب سے پہلے یہودی، ہندو یا عیسائی اپنے گلے کا ہار بناتے۔لیکن ایسا نہیں ہے انہوں نے یہ ہار دو نمبری(فرقہ واریت پھیلانے والے) مسلمانوں کے لئے رکھ چھوڑا ہے تاکہ ان کے مذموم عزائم ان دو نمبری مسلمانوں کے ہاتھوں پورے ہوں۔اور نظر یہی آرہا کہ ان کے عزائم بڑے احسن طریقے سے پورے ہو رہے ہیں۔۔تصویر کے رخ پرکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ فرقہ واریت کا یہ بھوت گلگت بلتستان میں سر چڑھ کے بول رہا ہے ۔ اور فرقہ واریت کے ٹھکیدار چاروں طرف دنداتے پھر رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں اور نہ ہی اس بارے کوئی عملی کام نظرآتا ہے۔ اس اجتماعی سوچ کے فقدان کا کون ذمہ دار ہے؟ہم یا کوئی اور؟ اس کا آسان جواب یہ ہے کہ اس کے ذمہ دار بھی ہم ہی ہیں۔کیا ہمیں اپنے رویوں میں تبدیلی لانے کی ضرورت نہیں؟ کیا اجتماعی سوچ کو پروان چڑھانے کی ضرورت نہیں؟ اور ہمارا ڈر اور خوف کب ختم ہوگا کیا مسلمان ہونے کیلئے کسی فرقے کا لیبل لگا نا ضروری ہے؟ کیا ہم سب کا یہ فرض نہیں بنتا کہ۔فرقہ واریت کے زہر اور بھوت کے خلاف بر سر پیکار ہونے کے لئے کمر بستہ ہو جائیں۔ سوچ رہا ہوں کہ میں قرآن کا حوالہ دوں یا نہ دوں؟ قرآن کا حوالہ تو مسلمانوں کیلئے ہے فرقہ واریت کے پیرو کاروں کیلیئے تو کوئی اور نصاب ہوگا۔لیکن اللہ کا شکر ہے کہ یہ د ل ایمان کے نور سے مالا مال ہے اور اللہ کا کلام لا ریب اور حرف آخر ہے ۔جو ہماری نجات کا ذریعہ ہے۔تذکرہ ضروری ہے۔ شائدکسی کے دل میں یہ بات بیٹھ جائے اور فرقہ واریت کا جنون دلوں سے اتر جائے۔ قرآن کے مطابق تو ہر مذاہب اور عقائد کا احترام واجب ہے ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کا نہیں بلکہ لکم دینکم ولی دین اور لا اکراہ فی الدین کا در س ہے۔ آخرہم کب تک اللہ تعالیٰ اس کے رسول، قرآن مجید اور اسلام کی تعلیمات کی کھلی نفی کرتے رہیں گے صرف مسلمانی کے لیبل سے ہی گذارہ نہیں چلے گا جب تک ہم ایک دوسرے کے مسالک کا احترام اور ا یک وسرے کو جینے کا موقع فراہم نہیں کرینگے۔ ہمیں اپنی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے مثبت سوچ کو پروان چڑھانا ہوگا اور یہ یاد رکھیں کہ ہم اپنے ٓپ کو اس وقت تک بحرانوں سے باہر نہیں نکال سکتے جب تک اجتماعی سوچ کا فقدان دور نہ ہوجائے.۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button