برطرف اساتذہ اور ٹیکنکل سٹاف کا مستقبل
گلگت اتحاد چوک میں پیر کے روز 10 بجے سے183 بر طرف اساتذہ احتجاجی کیمپ لگا کر اپنے مطالبات کے حل کیلئے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں، شہر کے وسط اور معروف و مصروف شاہراہ بلاک ہونے کی وجہ سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے، احتجاجی مظاہرے میں متاثرہ مرد اساتذہ کے علاوہ بڑی تعداد میں خواتین بھی شامل ہیں ،میڈیا سے گفتگو کے دوران مظاہرین نے مطالبات کے حل تک دن رات احتجاج کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہے ، شہر کے جانے مانے سیاسی و سماجی شخصیات دن بھر متاثرہ اساتذہ سے اظہار یکجہتی کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں اور ان کے مطالبات کے حل کیلئے صوبائی حکومت اور زمہ دار افراد کے خلاف مسلسل تقریریں ہو رہی ہیں ہر کوئی اپنے جوش خطابت کا بھر پور مظاہرہ کرتے ہوئے نظر آرہا ہے،متاثرہ اساتذہ کسی کے بھی زبان سے اپنے حق میں دو بول سن کر بھر پور داد دینے لگ جاتے ہیں ، خواتین کی موجودگی کی وجہ سے انتظامیہ مظاہرین کے سامنے مکمل بے بس نظر آرہی ہے، کیونکہ خواتین کے ساتھ کسی بھی قسم کی نا انصافی کو یہاں کے عوام کسی صورت برداشت نہیں کرینگے۔
93 اساتذہ اور 90ٹیکنیکل سٹاف کو حال ہی میں محکمہ تعلیم گلگت بلتستان تحقیقاتی کمیٹی کی سفارشات پر غیر قانونی بھرتی ہونے کا الزام لگا کر بر طرف کیا ہے ،یہ مسئلہ گزشتہ ایک سال چل رہا تھا ،کبھی ان اساتذہ کو برطرف کیا جاتا رہاکبھی بحال جس کی وجہ سے انکا مستقبل داو پر لگ گیا، کرپشن ،سفارش اور میرٹ کی پامالی کرنے والی کالی بھیڑیں جنہوں نے اپنی جیبیں گرم کرنے کیلئے سادہ لوح عام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جس کی پاداش میں آج ہماری بہنیں سڑکوں پر احتجاج کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں ،وہ بڑے مزے سے منظر عام سے غائب ہو چکے ہیں، کیا اپنے حق کیلئے سراپا احتجاج یہ خواتین اور حضرات اس جرم کی سزا کاٹیں جس جرم کی ڈور کہیں اور جا کر ملتی ہے؟ تصویر کا دوسرا رخ گلگت بلتستان کی تاریخ پر ایک بد نما داغ کی طرح ہے، میڈیا نے محکمہ تعلیم میں موجود کالی بھیڑوں کے بارے میں کئی بار سنسنی خیز انکشافات بھی کئے تب کسی کے سر پر جوں نہیں رینگی، اور جب ایکشن لینے کا وقت آیا تو اساتذہ کو بر طرف کیا گیا، ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پہلے ان کرپٹ عناصر کو عبرت ناک سزا دی جاتی جو ان غیر قانونی بھرتیوں کے اصل زمہ دار ہیں ، لیکن ایسا نہیں ہوا اس لئے کہ ، ان 183 اساتذہ کو لیکر صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے مابین ایک بہت بڑی خلیج پہلے سے پیدا ہو چکی ہے ، تحقیقاتی کمیٹی نے ان کرپٹ عناصر کی نشاندہی کر کے 4 نکاتی سفارشات وزیراعلی گلگت بلتستان کو بجوائے تھے لیکن وزیراعلی صاحب نے دستخط کرنے سے انکار کر دیا، ان سفارشات میں محکمہ تعلیم میں موجود کرپٹ آفیسران کو جبری ریٹائر کرنے ،معطل کرنے ،پوسٹنگ کرنے اور ایک درجہ کم کرنے کی سفارش کی گئی تھی، اگر کرپٹ آفیسران کے خلاف ایکشن ہوتا یا انہیں قانون کی گرفت میں لایا جاتا تو اس مافیا کو بے نقاب کیا جا سکتا تھا جو اس سارے کھیل میں بلواسطہ یا بلا واسطہ شامل رہا ہے، لیکن وزیر اعلی صاحب کی طرف سے دستخط کرنے سے انکار کی وجہ سے یہ اہم کام رک گیا،صوبائی حکومت اور انتظامیہ کے مابین اختیارات کی کھینچا تانی میں نقصان عوام کا ہو رہا ہے،اگر کوئی کام انتظامی سربراہ اچھا کرتے ہیں تو صوبائی حکومت کو حوصلہ افزائی کرنی چاہیے،خیر جہاں اوے کا اوا بگڑا ہوا ہو وہاں ایسے مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں ۔
183 افراد کی بر طرفی کا فیصلہ غلط ہے یا درست یہ ایک لمبی بحث ہے ، اس احتجاج کی وجہ سے متاثرہ اساتذہ کو کوئی فائدہ ملے گایا نہیں اسکا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا، لیکن اس مسئلے کا ایک حل ضرور ہے، کیونکہ صوبائی انتظامیہ اپنا فیصلہ واپس لینے میں مشکلات کا شکار ہے اس لئے مزاکرات بار بار ناکام ہو رہے ہیں، انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ ایک ایسی کمیٹی تشکیل دے جو ان بر طرف اساتذہ کے کوائف کی چھان بین کرے جن کے کوائف پورے ہوں انہیں بحال کیا جائے،بہت سارے اساتذہ میرٹ پر بھی بھرتی ہوئے ہیں لیکن گندم کے ساتھ گیہوں کے مصداق وہ بھی برطرف ہو گئے ہیں ، دوسرا حل یہ ہے کہ محکمہ تعلیم کے ان کرپٹ آفیسران کو جبری ریٹائر کیا جائے جو اس جرم میں شامل ہیں اور انکی پنشن ضبط کر کے متاثرہ اساتذہ میں تقسیم کی جائے تاکہ نہ رہے گا بانس نہ بجے گی بانسری۔