کالمز

مہدی شاہ کے پانچ سال اور گلگت بلتستان 

سیلف گورننس آڈر 2009 کے تحت وجود میں آنے والی گلگت بلتستان حکومت کے اقتدار کا سورج 12 دسمبر کو غروب ہو رہا ہے.

وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کے عوام کی محرومیوں کو کم کرنے کے لیے پانچ برس قبل صوبائی طرز کا سیٹ اپ دیا اور دعوی کیا کہ نیے نظام سے منتخب قیادت کو زیادہ سے زیادہ با اختیار بنایا گیا ھے اب فیصلے اسلام آباد کے بجاے گلگت بلتستان میں ہونگے. عام انتخابات میں کامیابی کے بعد پی پی پی نے مہدی شاہ کو قائید ایوان منتخب کیا اور یوں غیر متوقع طور پر مہدی شاہ کو پہلا وزیر اعلی بنیے کا اعزاز حاصل ہو. مہدی شاہ کے حلف وفاداری کی گونج گلگت بلتستان کے فضاؤں سے ابھی ختم بھی نہ ہوئی تھی کہ قدرتی افاتات کا نزول شروع ھوا جس کا آغاز سانحہ عطاآباد ھوا اور اس کے بعد حادثات اور سانحات کا ایک سلسلہ چل نکلا جو تادم تحریر جاری ہے.

Bukhariگلگت میں موجود فرقہ واریت نے دیگر اضلاع کا رخ کیا. دستی بم دھماکے سے لیکر اجتماعی قتل عام (سانحہ ہربن ،سانحہ لولوسر ،سانحہ اتحاد چوک ،سانحہ چلاس اور سانحہ نگا پربت ) کے واقعات رونما ہوے.

مہدی شاہ کے دور اقتدار میں سرکاری اداروں میں کریپشن کو خوب فروغ ملا غیر قانونی بھرتیوں ،ٹھیکوں کی بندر بانٹ اور مالی بد عنوانی میں غیر معمولی اضافہ ہوا

گڈ گورننس کی حالت زار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ھے گلگت بلتستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ احتجاجی مظاہرے ،جلسہ جلوس ،ریلیاں اور دھرنے گزشتہ پانچ سالوں میں ریکارڈ ہوے ہیں.

پولیس ،ڈاکٹرز ،پیرا میڈک سٹاف ،سکول ٹیچرز ،سیپ اساتزہ ، وکلا ،پروفیسرز ، طلبا سمیت عوام اپنے حقوق کے لیے سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوے.

سرکاری اداروں میں ملازمتیں اور ٹھیکے فروخت ھوے ان میں ملوث افیسران کو وزیر اعلی تحفظ دیتے رہے جو تاحال جاری ہے.

گلگت بلتستان حکومت پانچ سال بعد بھی ضلع ھنزہ نگر کے ہیڈ کواٹر کا تعین نہ کرسکی.

شگر اور کھرمنگ کو اضلاع بنانے کا اعلان بھی سیاسی بیان ثابت ہوا.

صحافیوں کو دیوار سے لگانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا اور صحافیوں میں دھڑا بندی کا کریڈیٹ بھی ان کے سر جاتا ہے. پسند اور نا پسند کی بنیاد پر فیصلے ہوتے رہےہیں

مہدی شاہ سرکار کے دور میں تعمیر و ترقی کا عمل بھی التوا کا شکار رہا عوام تعلیم اور صحت سمیت بنیادی سہولیات سے محروم رہے.

گلگت بلتستان میں ان کے دور حکومت میں بد ترین مالی بحران رہا سرکاری اداروں سے جاری چیکس باونس ہوے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ہے.

رشوت اور سفارش کلچر کو عروج حاصل ہوا.

قاید ایوان اور ان کی کیچن کابینہ کی نااھلی کے باعث قانون ساز اسمبلی اپنی حقیقی ذمہ داریوں کی ادیگی میں ناکام رہی.

بیتے ھوے برسوں میں چیف منسٹر کے سکینڈل پر سکینڈل سامنے آتے رہے.

کابینہ کے وزرا ہی اپنی حکومت کو ،ون میں شو ، قرار دیتے رہے ہیں کیچن کابینہ کو بھی شہرت حاصل ہوئی

مہدی شاہ کے دور اقتدار میں غیر ترقیاتی بجٹ میں بے تحاشا اضافہ کیا گیا اور یہ رقم حکمرانوں کے پرٹوکول اور عیش و عشرت پر خرچ کی جاتی رہی.

مہنگائی غربت ،بے روزگاری ،پسماندگی اور بد امنی کا درو دورہ رہا.

پانچ سالوں کے دوران کسی بھی سرکاری ادارے کی کوئی قابل ذکر کارکردگی سامنے نہ اسکی.

کاچو فیاض ،سید ہادی ،محمد علی یوگوی ،اور جبار جسے کرداروں کو وزیر اعلی کی مکمل حمایت اور تعاون ملا

آج مہدی شاہ حکومت کی الٹی گنتی جاری ہے مذکورہ کارنامے ان کی پانچ سالہ کارکردگی کے چند ایک مثالیں ہیں درحقیقت صورتحال اس سے بڑھ کر خراب رہی جن کی تفصیلات بیان کرنا یہاں مقصود نہیں.

گزشتہ پانچ برسوں کے دوران وزیر اعلی ہاؤس میں دن کی روشنی اور رات کے اندھیروں میں جو کچھ ھوتا رہا ھے وہ ایک الگ طویل داستان ہے. مہدی شاہ کی نااھلی کی وجہ سے گلگت بلتستان کے عوام موجودہ سیٹ اپ کے ثمرات حاصل کرنے سے محروم رہےہیں

اب ہر طرف سے ایک ہی صد ا سنائی دے رہی ہے. گو مہدی شاہ گو

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button