کالمز

[تجزیہ] پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم کی جدائی مستقل یا عارضی؟ ذمہ دار کون اور اسباب کیا!

پیپلز پارٹی نے 18اکتوبر کو کراچی میں مزار قائد کے قریب باغ جناح میں اپنی بھرپور سیاسی قوت کامظاہرہ کیا، اگر چہ اس جلسے کو بے نظیر بھٹو کے 18اکتوبر 2007ء کے نامکمل سفر کی تکمیل کہا جارہاہے لیکن حقیقت میںیہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی تقریب رونمائی تھی جس کی تصدیق پیپلز پارٹی پارلیمنٹرینز کے سربراہ مخدوم امین فہیم کے جلسے میں اس بیان سے ہوتی ہے کہ ’’پارٹی میرے پاس بے نظیر بھٹو کی امانت تھی جو آج میں نے بے نظیر بھٹو کے جانشین کے حوالے کردی ‘‘۔

بلاول بھٹو کا یہ پہلاعوامی جلسہ تھاجس کی کامیابی کے لئے پیپلزپارٹی نے ملک بھر میں اپنی پارٹی کو متحرک اور پیسے کا خوب استعمال کیا،اس کو ملکی تاریخ کا مہنگا ترین جلسہ قرار دیاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔ سیکورٹی خطرات پر اعلانات کے باوجود وہ انتظامات نہیں تھے جن کی توقع کی جارہی تھی۔ مجموعی طورپریہ کامیاب جلسہ تھا جس کے شرکاء کے حوالے سے پیپلزپارٹی کا دعویٰ ہے کہ 10لاکھ افراد تھے تاہم آزاد ذرائع کا کہناہے کہ ڈھائی لاکھ سے زائد افراد شریک تھے اور یہ جلسہ 2011ء میں عمران خان کے جلسے سے بڑا تاہم2012ء میں مولانا فضل الرحمان کے جلسے سے چھوٹاتھا ، اسٹیج سمیت جلسہ گاہ اور گرد ونواح(جہاں لوگ تھے)کا مجموعی رقبہ ایک لاکھ 25ہزار مربع میٹر سے زائد ہے ۔

عبدالجبارناصر ajnasir1@gmail.com
عبدالجبارناصر
ajnasir1@gmail.com

پیپلزپارٹی کی بعض خامیوں کی وجہ سے جلسے کے وہ اثرات مرتب نہ ہوسکے جس کی توقع تھی ۔ پہلی خامی پارٹی قیادت کا یہ دعویٰ کہ پنجاب، بلوچستان، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے 30ہزار سے زائدگاڑیوں کے قافلے کراچی پہنچے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تعداد ایک ہزار بھی نہ تھی۔ گلگت بلتستان کے وزیر اعلیٰ سید مہدی شاہ ،ان کے وزراء ،ارکان کونسل و قانون ساز اسمبلی اور درجنوں رہنماء اپنے لاؤ لشکر کی کوشش کے باوجود جلسے میں چند سو افراد کو بھی لانے اور کراچی میں موجود اپنے لوگوں کو متحرک کرنے میں ناکام رہے، یہی صورتحال آزاد کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کی بھی رہی حالانکہ دونوں حکومتوں نے جلسے کے حوالے سے سرکاری وسائل کا خوب استعمال کیا،اس کی بڑی وجہ ان کا پانچ سالہ حکومت کا رویہ ہے ۔پیپلزپارٹی کے بیرون صوبہ ایک لاکھ سے زائد افراد کی شرکت کے دعوے نے کراچی کے کامیاب جلسے کی اہمیت کم کردی۔

دوسری غلطی یہ کہ جلسے کے حوالے سے شہر میں خوف وہراس پھیلا ناتھا جس کی وجہ سے شہر عملاً ہڑتال کا سا منظر پیش کرنے لگا،کاروباری مراکز تعلیمی ادارے ، پبلک ٹرانسپورٹ بالعموم شہر بھر اور باالخصوص جلسہ گاہ کے 10کلو میٹر کے قرب وجوار میں مکمل بند رہاجس کا منفی اثر پڑا۔ تیسری اور سب سے بڑی غلطی بلاول کی 98منٹ کی طویل اور بے ربط تقریر تھی جس کی وجہ سے بلاول کو اپنی زندگی پہلی عوامی تقریر کا آخری گھنٹہ عملاً خالی کرسیوں سے ہی خطاب کرنا پڑا کیونکہ 90فیصد سے زائد شرکاء جا چکے تھے ۔بنیادی طوپر یہ غلطی اسکرپٹ رائٹر کی تھی جس نے اتنے بڑے اجتماع کیلئے اتنی طویل اور بے ربط تقریر لکھی جس میں ایک لمحے کسی کی تعریف تو دوسرے لمحے تنقید تھی ، اسکرپٹ رائٹر کو معلوم ہونا چاہیے تھاکہ شرکاء صبح سے جلسہ گاہ میں موجود ہیں اور جلسہ گاہ کے اندرکھانے پینے اور دیگر ضروریات کے حوالے سے کوئی انتظام ہے اور نہ باہر لانے دیا جارہا،جس کی وجہ سے لوگوں کا مجبوراً نکلنا یقینی ہے۔ بلاول کی تقریر 8بجکر21منٹ پر شروع ہوئی اور غیر مربوطاور غیر مؤثر تقریر کی وجہ سے شرکاء نے ساڑے آٹھ بجے سے ہی جاناشروع کیا اور 9بجے تک جلسہ گاہ سے اکثر لوگ جاچکے تھے ،جس کو وہاں موجود ہر شخص نے محسوس کیا لیکن اسٹیج پر بیٹھے آصف علی زرداری اور ان کے ساتھی یہ محسوس نہ کرسکے یا دیکھ کر آنکھیں بند کردیں، یوں بلاول کا’’ رومن اردو‘‘ میں لکھی ہوئی تقریر’’جدید ٹیکنالوجی ٹیلی پرامپٹر‘‘ اسکرین پر دیکھ کر پڑھنے اور خود ہی نعرے بازی کرنے کا سلسلہ رات 10بجے تک جاری رہا۔

جلسہ گاہ کے اندراورباہر خراب ساونڈ سسٹم سے شرکاء بہت مایوس ہوئے، شرکاء کیلئے چار چھوٹی اور ایک بڑی اسکرین نصب کردی گئی تھی تاکہ برائے راست مقرر کو دیکھا جاسکے ،مگر آخر تک ایسا نہ ہوا۔جلسے میں پیپلزپارٹی کے گڑھ اور روح لیاری کا عملاًبائیکاٹ رہا جس کو میڈیا سمیت سب نے محسوس کیا ۔ پیپلزپارٹی کے قیام سے اب تک کراچی میں ہونے والے تمام جلسوں کی اصل زینت لیاری کے جیالے ہی رہے ہیں لیکن بلاول کی تقریب رونمائی میں لیاری کے جیالوں نے اپنی عدم شرکت کے ذریعے پیپلزپارٹی کو سخت پیغام دیا ہے اگر پیپلزپارٹی نے تدارک نہ کیا تو مستقبل میں سخت مشکلات کا سامنا ہوگااور یہ بات بھی سچ ہے کہ لیاری والوں پر جتنا ظلم پیپلزپارٹی کے اپنے دور میں ہوا اس کی مثال نہیں ملتی۔

پیپلزپارٹی نے اپنے چیئرمین بلاول کی باقاعدہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز تو کردیا لیکن بلاول کی تقریر نے پیپلزپارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے درمیان دوریاں پید اکردی ہیں۔19اکتوبر کو متحدہ نے بلاول کی تقریر اور سید خورشید احمد شاہ کے بیان پر اپنے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سندھ سے نہ صرف علیحدگی کی بلکہ سخت اقدام کا عندیہ بھی دیا،مبصرین کے مطابق دونوں سیاسی جماعتوں نے سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو اس کشیدگی کا نتیجہ سنگین لسانی خلیج اور تصادم کی شکل میں آسکتاہے ۔مبصرین کے مطابق ایم کیوایم کی حکومت سندھ سے علیحدگی اچانک نہیں بلکہ پہلے سے طے تھا ،بیانات نے صرف ایم کیوایم کو موقع دیا،تاہم اب بھی بعض رہنماء اب بھی مفاہمت کے لیے کوشاں ہیں ،لیکن ذرائع کا کہناہے کہ آئندہ چند ماہ تک ایم کیوایم حکومت سندھ کا حصہ نہیں بنے گی اور پیپلزپارٹی کے بعض لوگوں کی خواہش بھی یہی ہے۔

دراصل دونوں جماعتیں ظاہری اختلاف کے ذریعے اپنے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے کی کوششیں کررہی ہیں ایم کیوایم نئے صوبے یا انتظامی یونٹس کے قیام کے نام پر شہری اور پیپلزپارٹی ایم کیوایم کے اس نعرے کو سندھ کی تقسیم کی ساز ش قرار دیتے ہوئے ایک مرتبہ پھر دیہی سندھ میں اپنے اثر رسوخ کو مضبوط کرنا چاہتی تاکہ متوقع بلدیاتی انتخابات میں بھر پور فائدہ اٹھا سکیں،جس کے کچھ اثرات 20اکتوبر کو سندھ اسمبلی میں بلدیاتی ترمیمی بل کی منظوری کے موقع پر نظر آئے۔ ایم کیوایم کے نئے صوبے یا انتظامی یونٹس قیام کے بیانات کے خلاف سندھ کے قوم پرستوں میں سخت ردعمل پایا جاتاہے یہی وجہ ہے کہ 23اکتوبر کو قوم پرستوں کی جانب سے صوبے میں ایم کیوایم کے خلاف ہڑتال کی گئی۔

بعض ذرائع کا کہناہے کہ ایم کیوایم کی حکومت سے علیحدگی دراصل پیپلزپارٹی اورن لیگ کے خلاف ملک میں بننے والے ایک بڑے سیاسی اتحادکی کڑی ہے جس کی سرگرمیوں کا آغازہوچکا ہے ۔ پہلے مرحلے میں ’’متحدہ مسلم لیگ(ایم ایم ایل)‘‘ کے نام سے ناراض اور غیر فعال لیگیوں پر مشتمل ایک مضبوط گروپ اوردوسرے مرحلے میں پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ مخالف قوتوں کو ملا کر ایک مضبوط اتحاد بنایا جائے گا ، اس کی تصدیق 22اکتوبر کو کراچی میں وفاقی وزیر اور مسلم لیگ(ف) سندھ کے صدر پیر صدر الدین شاہ راشدی کی صدارت میں ہونے والے اجلاس سے ہوئی جس میں چار سابق وزرائے اعلیٰ سید غوث علی شاہ،ڈاکٹر ارباب غلام رحیم ،ممتاز علی بھٹو ،لیاقت علی جتوئی اور سابق اسپیکر قومی اسمبلی الٰہی بخش سومرو سمیت مختلف رہنماؤں نے شرکت کی ۔ ذرائع کا کہناہے کہ چاروں صوبوں میں مختلف رہنماؤں کو نئے اتحاد کے حوالے سے ٹاسک دیا گیا ہے اور یہ بھی کہا جارہاہے یہ عمران خان ، طاہرالقادری کے دھرنوں کی ناکامی کے بعد حکومت پر دوسرا وار ہے اور مائنس ’’ن لیگ ،پی پی پی ، جے یو آئی اور ان کے اتحادی‘‘ نئے سیٹ اپ کی باز گشت سنائی دے رہی ہے ،اب دیکھنا یہ ہے کہ جن قوتوں نے یہ منصوبہ بنایا ہے وہ کامیاب ہوتی ہیںیا پھردھرنوں کی طرح ناکامی سے دوچار!

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button