شیم شیم کے نعروں کیساتھ وزیر اعظم کا استقبال
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنے لوگوں کو اتنی اہمیت نہیں دیتے جتنی غیروں کو دیتے ہیں ، جہاں گلگت بلتستان کی بات آتی ہے وہاں یہ بات شروع دن سے محسوس کی جاتی رہی ہے کہ یہاں ہمیشہ غیروں نے حکومت کی ہے اور ہم خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے رہے، یہ قصور نہ تو کسی بیورو کریٹ کا ہے نہ ہی وفاق سے درآمد کسی آفیسر یا لیڈر کا بلکہ یہ قصور ہمارے اپنے لوگوں کا ہے، دنیا میں یہ روایت چلی آرہی ہے کہ اگر کسی کے گھر دعوت پر جاتے ہیں تو وہاں کے لوگوں کو میزبانی کرنے کا موقع دیا جاتا ہے ، لیکن یہاں تو گنگا ہی الٹی بہتی ہے ،خود مہمان اپنے ساتھ میزبان بھی لاتے ہیں ، کسی کو میزبانی نہ کرنے دینے سے میزبان کو کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن اس میزبان کو نظر انداز کر کے اسکی عزت نفس کو مجروع کرنا اخلاقیات سے گری ہوئی حرکت تصور کیا جاتا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان اور مسلم لیگ (ن)پاکستان کے قائد میاں محمدنواز شریف کے گلگت بلتستان دورے کے موقع پر بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔مختلف قومی و علاقائی اخبارات سمیت قومی نیوز چینلز کیلئے کام کرنے والے صحافیوں کو وزیر اعظم صاحب کے دورے کے دوران دور رکھا گیا، جبکہ وفاق سے سرکاری میڈیاکی ٹیم لائی گئی، یہاں کے مقامی صحافی جو کہ نہ صرف علاقے کے معروضی حالات سے واقفیت رکھتے ہیں بلکہ لوگوں کے مسائل کا بھی ادراک رکھتے ہیں، انہیں وزیر اعظم سے دور رکھنے کے دو مقاصد ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ یہاں کے صحافی عوامی رائے وزیر اعظم کے گوش گزار نہ کر سکیں دوسرا یہ ہو سکتا ہیکہ مسلم لیگ(ن) گلگت بلتستان کے قائدین جنہوں نے آج تک یہاں کے صحافیوں کے کندھوں کو سیاست کیلئے استعمال کیا ، اپنی کمزوریاں چھپانے کیلئے صحافیوں کو دور رکھا ، خیر جو بھی ہو بات رسوائی کی ہی ہے، آج سے قبل بہت سارے وزرائے اعظم نے گلگت بلتستان کا دورہ کیا جس میں مقامی صحافیوں نے اپنا بھر پور کردار ادا کیا لیکن موجودہ وزیر اعظم کے دورے پر صحافیو ں کو دور رکھ کر صوبائی قیادت مسلم لیگ (ن) نے آنے والے وقتوں میں اپنی سیاست کے لئے مشکلات پیدا کیں ہیں ، جو صحافی یہاں کے مسائل بالائی حلقوں تک پہنچانے میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں انہیں دیوار سے لگانا ، جمہوریت کے لبادے میں آمریت کے مترادف ہے، وزیر اعظم کے دورے کے دوران یہاں کے صحافیوں کو دور رکھ کر صحافیوں کے عزت نفس کو مجروع کیا گیا جس کی وجہ سے گلگت کے تمام صحافتی تنظیموں گلگت پریس کلب، سٹی پریس کلب گلگت ، گلگت یونین آف جرنلسٹس اور گیمرا نے نہ صرف وزیر اعظم کے دورے کا بائیکاٹ کیا بلکہ کلمہ چوک کے پاس علامتی احتجاج بھی کیا، جیسے ہی وزیر اعظم صاحب کی گاڑی وہاں سے گزری صحافیوں نے شیم شیم کے نعروں کے ساتھ انکا بھر پور استقبال کیا اور حالات کی نذاکت سے بے خبر وزیر اعظم صاحب نے ہاتھ ہلا ہلا کر بھر پور جواب بھی دیا، لیکن اسی اثناء صحافیوں کے ہاتھ میں موجود پلے کارڈ ز دیکھ کر انکا ہاتھ رک گیا اور وہ حیرت ذدہ سے وہاں سے گزر گئے، دیگر قائدین ماروی میمن نے بھی شیم شیم کے نعروں کا ہاتھ ہلا ہلا کربھر پور جواب دیا ،بد بختی تو دیکھیں کہ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی قائدین نے وزیر اعظم سمیت دیگر مہمانوں کو اس احتجاج سے بے خبر رکھا جو یہاں کے مسلم لیگ(ن) کے ذمہ داران کی سستی ہی ہو سکتی ہے۔یہاں کے صحافی اس سے قبل کئی بار محترم میاں نواز شریف سے ملاقات کر چکے ہیں اور انسے ملاقات کوئی نئی بات نہیں تھی البتہ حکومت میں آنے کے بعد انکا یہ دورہ انتہائی اہمیت کا حامل تھا جس میں عوام کی نمائندگی کرنے والے مقامی صحافیوں سے ملاقات سے بہت سارے مسائل کے بارے میں میاں صاحب کو پتہ چلتا۔یہاں کے صحافیوں سے ملاقات نہ کروا کر موجودہ مسلم لیگ (ن) کے قائدین نے گلگت بلتستان کے ہزاروں مجبور اور حقوق سے محروم عوام کی آواز کو دبانے کی ناکام کوشش کی ہے، سابقہ حکومت کے دور میں کبھی صحافیوں کے ساتھ ایسا نہیں ہوا ،،لیکن ایک دفعہ جب سابقہ وزیر داخلہ رحمان ملک اپنے ساتھ وفاق سے صحافیوں کی ٹیم لیکر آئے تو ایسے میں گلگت کے سینئر صحافی سعید حسن نے انہیں کیا خوب کہا کہ جناب آپ نے وفاق سے صحافیوں کو لایا لگتا ایسا ہیکہ ہم یہاں آلو ٹماٹر بیجتے ہیں انہوں نے چیلنج کیا کہ یہاں کے صحافی کسی سے کم نہیں ہیں ، اس موقع پر رحمان ملک شرمندگی کا بوجھ برداشت نہ کر سکے اور انہوں نے صحافیوں سے معذرت کر لی۔
اس تحریر کی شروعات میں ذکر ہوا تھا کہ ذیادتی وفاقی قائدین یا آفیسران کی نہیں ہوتی بلکہ یہ ہمارے اپنے لوگوں کی کارستانی اور بد نیتی ہے کیونکہ سال کے 12 مہینے یہاں کے سیاست دان مقامی صحافیوں کے ساتھ ہی ربط میں رہتے ہیں، اگر یہاں کے مسلم لیگ (ن) کے قائدین چاہتے تو مقامی صحافیوں سے وزیر اعظم صاحب کی ملاقات ہو سکتی تھی او راگر ایسا ہوتا تو شیم شیم کے نعروں کے ساتھ استقبال نہ ہوتا۔