کالمز

بے گناہ پرنسپل اورلیکچررز کی معطلی

ڈگری کالج جوٹیال گلگت بلتستان کی سب سے پرانی کالج ہے۔ کالج میں چالیس کے قریب پروفیسرز، لیکچررز ہیں جبکہ بارہ سو کے قریب اسٹوڈنٹ زیر تعلیم ہیں۔ گزشتہ دنوں ڈگری کالج میں ایک ناخوشگوار واقعہ پیش آیا۔ طلبہ کے ایک گروپ نے کالج میں مذہبی پروگرام کے انعقاد کی کوشش کی تو دوسرے گروپ نے روکنے کے لیے کالج میں نعرے بازی شروع کی۔ محکمہ تعلیم گلگت بلتستان اور کالج انتظامیہ کی طرف سے کالج میں کسی بھی قسم کا مذہبی و سیاسی پروگرام کا انعقاد کرنا سختی سے ممنوع قرار دیا گیا تھا۔اور اس حوالے سے محکمہ تعلیم کے اعلی حکام نے کئی دن پہلے میٹنگ کرکے نوٹیفیکیشن بھی جاری کیا گیا تھا کہ کالج میں کسی قسم کا پروگرام نہیں ہوگا۔ کالج کے حالات کشیدہ ہونے کی وجہ سے مختلف فورسزروزانہ کالج آتی تھی۔ کالج کے پرنسپل کے والد صاحب کے انتقال کی وجہ سے ڈائریکٹرآف کالجز دس دن سے کالج جاکر پورے نظام کو کنٹرول کررہا تھا۔

جس دن ہنگامہ ہوا اس دن کالج کے پرنسپل اپنے آفس میں موجود تھے۔ تمام اساتذہ کالج میں کلاسیں لے رہے تھے کہ اچانک نعرے بازی شروع ہوئی۔ رینجرز، پولیس، اسپیشل برانچ، ایلیٹ فورس اور مجسٹریٹ عملہ پہلے سے موجود تھا۔اچانک کالج میں نعرے بازے ہونے پر معلوم ہوا کہ طلبہ کا ایک گروپ ایک ہال میں جمع ہوا ہے۔ کالج کے اساتذہ اور پرنسپل ، پولیس عملہ اور مجسٹریٹ کو لے کر اس ہال میں پہنچے۔ تمام اساتذہ نے طلبہ کو سمجھایا کہ یہ قانون کے خلاف ورزی ہے۔ لہذا کالج کا ماحول خراب نہ کریں جس پر طلبہ راضی ہوگے۔ کالج کے کچھ لیکچررز اور پولیس عملہ دوسرے گروپ کو کنٹرول کرنے میں مصروف تھے۔اسی اثنا پروگرام انعقاد کرنے والے طلبہ نے اپنے اساتذہ کی بات تسلیم کرلی اور پرامن طریقے سے منتشر ہونے پر رضامندی کا اظہا کیا ، جس پر کالج کے اساتذہ نے انہیں محفوظ طریقے سے رخصت کیا۔ اور پولیس کو کہا کہ آپ انہیں محفوظ طریقے سے جانے کے لیے سیکیورٹی فراہم کریں۔جب طلبہ کا ایک گروپ کالج سے باہر نکل گیا تو اساتذہ دوسرے مشتعل گروہ کو سمھانے بجھانے میں مصروف ہوئے، اسی اثنا طلبہ خاموشی سے کالج سے نکلنے پر رضا مند تھے۔

Title faheemپرنسپل کے ساتھ تمام پروفیسر اور لیکچررز طلبہ کو سمجھارہے تھے کہ اچانک پولیس نے طلبہ کی طرف رخ کرکے فائر کھول دی، اور آنسو گیس کی گولہ باری کی۔ کالج کی انتظامیہ نے بار بار منع کیا کہ فائر نہ کریں طلبہ پرامن طریقے سے جارہے ہیں۔ مگر انتظامیہ اور پولیس نے اساتذہ کی ایک نہ سنی اور انہیں اپنے دفتر جانے پر مجبور کیا۔ جس پر تمام اساتذہ پرنسپل کی آفس میں جمع ہوگئے۔ اساتذہ پر بھی آنسو گیس کی فائر ہوئی تھی جس کی وجہ سے سب کے آنسو جاری تھے اور گلے بند ہوچکے تھے۔تمام طلبہ کالج سے باہر جمع تھے ، مشتعل تھے، اسی اثنا ڈائریکٹرآف کالجز بھی پہنچے اور طلبہ کو سمجھانے کے لئے ان کے درمیان گئے، جس پر کئی اساتذہ ان کی معاونت کے لیے کالج سے باہر طلبہ کے پاس پہنچ گئے اور انہیں سمجھانے بجھانے لگے۔ کچھ طلبہ نے کہا کہ کالج کے گیٹ کے ساتھ ہماری موٹرسائیکلز کھڑی ہیں ہم ان کو لے کر جارہے ہیں تو اساتذہ نے کہا کہ جلدی نکل جاؤ، جب ایک طالب علم جانے کے لیے وہاں پہنچا تو پولیس والوں نے اس کی پٹائی شروع کی اور لاتوں گھونسلو ں کی بارش شروع کی ۔ گیٹ پر کھڑے اسسٹنٹ پروفیسر فداحسین (زولوجی) نے طالب علم کو مارنے پر پولیس کو منع کیا تو پولیس نے ان کو گالی دے، ان کے ساتھ لیکچرار امیرجان حقانی(پولیٹیکل سائنس) نے کہا کہ ہم اساتذہ طلبہ کی منتیں کرکے ان کو گھر جانے کے لیے راضی کررہے ہیں اور آپ طلبہ کو مار کر مزید ماحول خراب کررہے ہیں تو اس پر پولیس تھانیدار نے کہا کہ تم لوگ یہاں سے دفع ہوجاؤ ۔تو ان دونوں لیکچراروں کی پولیس کے ساتھ منہ ماری ہوئی۔ تاہم ڈائریکٹر کالج سمیت دیگر اساتذہ طلبہ کو منستشر کرنے میں کامیاب ہوئے اور پھر ڈائریکٹر کی صدارت میں کالج اسٹاف روم میں میٹنگ کے لیے بیٹھنے لگے تو اے سی گلگت اپنے عملے کے ساتھ پہنچا اور کہا کہ ہم کالج کو قبضہ میں لے رہے ہیں۔

تب ڈائریکٹر، پرنسپل،تمام اساتذہ اور کالج سٹاف نے کالج خالی کیا اورڈائریکٹریٹ میں جمع ہوئے۔ اس کے دو گھنٹے بعد کالج کے ایک ہال کو آگ لگادی گئی اور لائبریری کو نقصان پہنچایا گیا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اتنی فورسز کی موجودگی اور کالج کو قبضہ میں لینے کے بعد کس نے کالج کو آگ لگایا اور پھر فرار بھی ہوا؟ ادھر محکمہ تعلیم کے اعلی حکام نے چیف سیکرٹری سے اجازت لے کر پرنسپل سمیت تین لیکچرارز کو معطل کیا۔ ان کے بارے میں تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ اگر اس دن کالج کے اساتذہ طلبہ کی منتیں اور فریاد کرکے پرسکون طریقے سے گھر جانے پر مجبور نہ کرتے تو لازمی بات تھی کہ دس بارہ بے گناہ طالب علموں کی لاشیں گرنی تھی۔ جن اساتذہ کو معطل کیا ہے ان میں ایک لیکچرار منور کالج میں ہی موجود نہیں تھا جبکہ امیرجان حقانی اور فداحسین نے دیگر اساتذہ کے ساتھ مل کر امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے حتی الامکان کوشش کی۔ پولیس نے ایک بے گناہ طالب علم کی پٹائی شروع کی جو گھر جانے کے لیے کالج کے دروازے سے اپنی موٹر سائیکل لینے آیا تھا تو لیکچرار فداحسین نے پولیس کانسٹیبلز کو کہا کہ یہ طالب علم گھر جارہا ہے آپ ان کو نہ مارے تو پولیس نے فداحسین کوگالی دے، ساتھ لیکچرار امیرجان حقانی نے کہا کہ آپ لوگ اس طرح طلبہ کے اوپر تشدد کریں اور خواہ مخواہ فائر نگ کرتے رہیں گے تو طلبہ مزید مشتعل ہونگے اور حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ اس بات پر پولیس نے ان کے ساتھ بھی بدتمیزی کی جس پر لیکچرر فداحسین اور امیرجان حقانی کی پولیس کے ساتھ تلخ کلامی ہوئی تو دیگر اساتذہ نے ان دونوں لیکچرار ز کو کالج لے گئے۔ کالج کے طلبہ کے ذرائع سے معلوم ہوا کہ اگر اس دن اساتذہ درمیان میں نہ آتے تو کئی قیمتی جانوں کا نقصان ہوتا،۔ مگر ان اساتذہ کو ان کی کوشش پر ایوارڈ اورا نعام دینے کے بجائے ان کو معطل کیا گیا جو انتہائی افسوس ناک ہے۔ مختلف سماجی و سیاسی کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ جن اساتذہ نے فساد کو روکنے کے لیے کردار ادا کیا ان کو معطل کیا۔اور ان کی عزت نفس مجروح کی گئی۔ ہماری چیف سیکرٹری اور دیگر اعلی حکام سے پرزور اپیل ہے کہ ان کو بحال کریں، ادھرپروفیسرز اینڈ لیکچررز ایسو سی ایشن نے موقف اختیار کیا اورڈگری کالج میں رونما ہونے والے افسوس ناک واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کی اور دلی افسوس کا اظہار کیا۔انہوں نے کالج کے پرنسپل پروفیسر سر باز خان ، لیکچرر منور حسین، لیکچرر فدا حسین اور لیکچرر امیر جان حقانی کی معطلی کو سراسر نا انصافی اور زیادتی قرار دیتے ہوئے متعلقہ حکام سے ان کی معطلی کومنسوخ کرنے/ واپس لینے کا مطالبہ کیا۔ ایسو سی ایشن کے عہدیداروں نے کہا کہ بے گناہ پرنسپل اور فیکلٹی ممبرز کو معطل کر کے ان کی عزت نفس مجروح کی گئی ہے اور ہتکِ عزت کی گئی ہے جسے کسی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے کہا کہ واقعہ کے دوران ڈائریکٹر کالجز ڈاکٹر میر احمد جان ، پرنسپل اور فیکلٹی ممبرز نے کالج کو اپنا گھر جیسا اور طلبا کو اپنی اولاد جان کر اپنی جان کی بازی لگا کر کئی لاشوں کو گرنے سے بچایا جس کے شاہد کئی لوگ ہیں۔مگر یہ امر انتہائی افسوسناک ہے کہ متعلقہ حکام کی جانب سے مذکورہ آفیسرز کے اس انتہائی مثبت کردار کو سراہنے اور انہیں ایوارڈ سے نوازنے کے بجائے انہیں معطل کیا گیا۔ہم چیف سیکریٹری گلگت بلتستان سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ جلد از جلد معطلی کے احکامات کو واپس لیکر انہیں با عزت طور پر بحال کریں اور تعریفی اسناد سے نوازیں۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ اس واقعہ کی انکوائری کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جسے ہم خیر مقدم کرتے ہیں۔ ہمیں امید ہے کہ یہ کمیٹی مکمل طور پر میرٹ اور شفافیت کو یقینی بناتے ہوئے اصل ملزمان کی نشاندہی کرے گی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ سیکرٹری سروسز کی صدارت میں قائم کی گئی کمیٹی واقعی کوئی تحقیق کرکے اصل ذمہ داروں کو سزاد یتی ہے یا پھر روایتی طریقہ اپناتے ہوئے معطل شدہ اساتذہ کو مزید تنگ کرکے ماحول خراب کررہی ہے۔معطل اساتذہ کا موقف یہ ہے کہ انہوں نے اپنی جان کی پروا کیے بغیر گولیوں کی تڑتڑاہٹ میں نکل کر معصوم طلبہ کی جان بچائی اور اس کے عوض معطلی کا بدنام داغ اپنے اعلی حکام سے انعام پایا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button