کالمز

نگران وزیر اعلیٰ کو کام کرنے دیا جائے

گلگت بلتستان کی نگران کابینہ کے قیام کے ابتدائی مر حلے میں پانچ وزراء کا چناؤ عمل میں آنے کے بعد گذشتہ دنوں نگران وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان شیر جہان میر کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا تھا کہ نگران کابینہ کی تشکیل میں ان سے مشاورت نہیں کی گئی وفاقی حکومت سے استدعاہے کہ مذید وزراء لینے کی اجازت دی جائے تاکہ جن اضلاع کے تحفظات ہیں ان کو دور کیا جا سکے۔ وزیر اعلیٰ کے اس بیان کے ساتھ ہی کئی سیاسی و مذہبی جماعتوں نے بھی نگران کابینہ کے چناؤ کے حوالے سے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے ان کے ازالے کا مطالبہ کر دیا تھا ۔اسی دوران خود حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے گلگت بلتستان چپٹرنے بھی نگران کابینہ کے چناؤ پر عدم اطمنان کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ نگران کابینہ کے چناؤ کے عمل میں مسلم لیگ (ن) کا کوئی کردار نہیں ہے اس لئے ابتدائی پانچ وزراء کے چناؤ پر مسلم لیگ (ن) کو بھی دیگر جماعتوں کی طرح شدید تحفظات ہیں کیونکہ نگران کابینہ کے متنازعہ بننے کی وجہ سے سب سے زیادہ نقصان مسلم لیگ کو پہنچا ہے لہذا آئندہ مذید وزراء کے چناؤ میں مسلم لیگ (ن) اپنا کردار ادا کرے گی۔

israrدریں اثناء وفاقی حکومت نے گلگت بلتستان کی نگران کابینہ میں مذید وزراء لینے کی اجازت دے دی ۔ جس کے بعد مسلم لیگ (ن) گلگت بلتستان نے نگران کابینہ کے لئے نئے وزراء کے ناموں کی ایک فہرست تیار کرکے نگران وزیراعلیٰ کو تھما دی ہے۔ توقع ہے کہ آئندہ چند گھنٹوں کے اندر کابینہ میں شامل کئے جانے والے نئے وزراء کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کر دیا جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ دنیا کے جمہوری معاشروں میں نگران حکومتوں کا تصور کیوں پایاجاتا ہے اور ان معا شروں میں نگران حکومتوں کے قیام کا طریقہ کار اور ان حکومتوں کا کردار کیا ہوتا ہے؟

نگران حکومت کے قیام کا بنیادی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کے وہ دومنتخب حکومتوں کے درمیانی عرصے کے دوران نظم و نسق چلائے اور اس دوران شفاف انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنا کر عنان حکومت نئی منتخب حکومت کے سپرد کرے۔ اس مقصد کے تحت نگران حکومت کے لئے ضروری ہے کہ وہ غیر جانبدار اور تمام سیاسی جماعتوں کے لئے قابل قبول ہو۔ گلگت بلتستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک نگران حکومت بنی ہے اس کے ابتدائی مر حلے میں شیر جہان میر صاحب کا بحثیت نگران وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان چناؤ پر کہیں سے بھی کوئی بڑی مخالفت دیکھنے میں نہیں آئی لیکن بعد ازاں نگران کابینہ میں پانچ وزراء کے چناؤ پر ہر طرف سے تحفظات کا اظہار وفاقی حکومت کے لئے ایک لمحہ فکریہ ہے ۔

شنید ہے کہ اب نئے وزراء مسلم لیگ(ن ) کی مرضی سے آئیں گے اگر ایسا ہوا تو کیا دیگر جماعتیں خاموش رہیں گی ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر غور کرنا لازمی ہے۔ کیونکہ پہلے پانچ وزراء کے ناموں پر تحفظات کے بعد اگر نئے وزراء پر بھی انگلی اٹھنے لگے تو یہ گلگت بلتستان کے آئندہ انتخابات کے انعقاد کے لئے نیک شگون نہیں ہوگا۔

بہت بہتر ہوتا کہ نگران وزیر اعلیٰ کو ان کی زمداریاں نبھانے کا موقع دیا جاتا کیونکہ بنیادی طور پر یہ کام نگران وزیر اعلیٰ کا ہے کہ وہ اپنے لئے ایک مناسب ٹیم تشکیل دے تاکہ وہ بہتر طور پر اپنا کام سر انجام دے سکے اور ان کی سر براہی میں شفاف اور غیر جانبدار انہ انتخابات کا انعقا ممکن ہو سکے کیونکہ نگران حکومت کا بنیادی کام ہی انتخابات کا انعقاد اور منتخب حکومت کو اقتدار منتقل کرنا ہے۔ اس ضمن میں مختلف سیاسی جماعتوں اور دیگر حلقوں کی مداخلت جمہوری عمل کے لئے کسی طور پر سود مند نہیں ہے۔ گلگت بلستان میں جمہوری عمل نو آموز ہے اس کو خراب کرنے کی بجائے مظبوط کرنے میں ہی ہماری بھلائی ہے۔ ہم سسٹم سے خوش نہیں ہیں مگر جمہوری عمل کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ جس کا کام اسی کو ساجے کے مصداق نگران وزیر اعلیٰ کو ان کا کام کرنے دیا جائے اس سلسلے میں ان کی مدد کی جائے ان کے کام کو خراب نہ کیا جائے۔ بے جا مداخلت سے علاقے میں جمہو ری عمل کو نقصان پہنچنے کے علاوہ کچھ نہیں ملے گا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button