کالمز

حسن صباح ایک حقیقت سو افسانے(گزشتہ سے پیوستہ)

بہرحال یہ منصفین حسن کو اس طرح دیکھتے ہیں وہ یہ بات ماننے کے لئے تیار نہیں کہ حسن اپنے مذہبی اور روحانی مسلک میں مخلص بھی ہوسکتا تھا وہ یہ بات بھی ماننے پر آمادہ نہیں ہوتے کہ حسن اپنے اعمال کو اس خالص مذہبی ضرورت کے طورپر جائز قرار دے سکتا ہے جو ذاتی اور سیاسی اغراض سے بالاتر ہوتی ہے۔ وہ یہ تصور نہیں کر سکتے کہ حسن کا ذہن مذہب سے متاثر ہوسکتا تھا ان لوگوں کے خیال میں انسانوں کی بس دو ہی قسمیں ہوتی ہیں جیسا کے عرب شاعر ابوالعلامعری نے کہاہے
اثنان اہل الارض ذو عقل بلا دین والآخر دین لاعقل لہ

’’انسان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو عقل رکھتے ہیں او دین نہیں رکھتے اور دوسرے وہ جو دین رکھتے ہین اور عقل نہیں رکھتے ‘ ‘۔’’ ان لوگوں کے خیال میں حسن

فکرِ فردا  کریم اللہ
فکرِ فردا
کریم اللہ

مذہبی آدمی نہیں تھا اور نہ کوئی تخریب پسند تھا بلکہ ایک خالص سیاسی آدمی تھاجو اقتدار کی خواہش رکھتا تھا اور اقتدار کے حصول کے لئے اس زمانے کے سیاسی طریقوں کو اپنایا تھا ۔الموت پر قبضے کے بعدحسن توزندگی کی تمام آسائشین حاصل کر سکتا تھا مگر اس نے سادگی اور ترکِ لذات کی زندگی اختیار کی مورخین اس بات پر متفق ہیں کہ الموت میں حسن کی زندگی نفس کشی ،زہد اور ترکِ لذات پر مبنی تھی اس کے فدائی بھی انہی اوصاف کے مالک تھے اس نے انہیں شراب نوشی اور دوسرے غیر شرعی کاموں کے  ارتکاب کرنے سے منع کر رکھا تھا.

یہاں تک کہ اس نے اپنے ایک بیٹے محمد کو شراب نوشی اور دوسرے بیٹے حسین کو قتل کے الزام میں موت کی سز ادی تھی۔ (حسن بن صباح ، جون ایلیا 8،تاریخ جہانکشاجلد سوم صفحہ 209,210 جامع التوریخ صفحہ نمبر 46، روضتہ الصفا جلد نمبر 4صفحہ نمبر 76، تاریخ گزیدہ صفحہ نمبر 521میں لکھا ہے کہ حسین کو یہ سزا زنا کے الزام میں دی گئی تھی )۔اس نے اپنے ایک عزیز فدائی کو قلعہ المو ت سے اس لئے نکلوادیا تھا کہ اس نے بانسری بجائی تھی (حسن بن صباح ،جون ایلیا 8،تاریخ جہانکشاجلد سوم صفحہ نمبر 210، جامع التواریخ۴۳) ۔ ہم یہ بھی پڑھتے ہیں کہ اس کی بیوی اور بیٹیاں کتائی کرکے روزی کماتی تھیں(حسن بن صباح ،جون ایلیا8،تاریخ جہانکشا جلد سوم ۲۱۱، جامع التواریخ صفحہ نمبر ۴۳)۔’’ظاہر ہے حسن یہ سب کچھ کرنے پر مجبور نہیں تھا اسے کسی کے سامنے جوابدہی نہیں کرنی تھی اس کے سوا بھلا اورکیا کہاجا سکتا ہے کہ یہ امور اس کے مذہبی اور روحانی نظام کا حصہ تھے اسے کٹر مذہب پرست کہہ کر اس پر شدید تنقید کرنا بالکل قابل فہم ہے لیکن اس کے بارے میں کوئی برعکس رائے کہنا ممکن نہیں۔

حسن کی حقیقت ان لوگوں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتی جو اس کی زندگی کو اس کے زمانے کے حالات کی روشنی میں دیکھتے ہیں۔ کیونکہ تاریخ بہر حال الگ الگ واقعات کا مطالعہ نہیں ہے یہ واقعات دراصل پس منظر میں چھپے ہوئے نفسیاتی او رمادی حالات کا نتیجہ ہوتے ہیں ۔جو لوگ حقیقت اور واقعیت کو تلاش کرنا چاہتے ہیں ان کے لئے ضروری ہے کہ تاریخ کو ہر زاویے سے دیکھنے کی کوشش کریں اور زیرِ مطالعہ عہد کی روح کو سمجھنے کی ذمہ داری اداکریں اس لئے کہ صیحح نقطہ نظر تک پہنچنا اس طرح ممکن ہے کہ واقعات کو ان اسباب وعلل او رسیاق وسباق کے حوالے سے دیکھا جائے جو علت کو معلول کا ایک طویل سلسلہ ہے قوموں او رشخصیتوں کے عروج وزوال میں بخت واتفاق کا نہیں علیت کا ہاتھ ہوتا ہے تاریخ نویسی کا فن اس بات کا متقاضی ہے کہ ان تمام عوامل کا جائزہ لیا جائے جو کسی فرد یا قوم کے اعمال میں کارفرما ہوتے ہیں پس اگر ہمیں حسن کی زندگی اور اس کے اعمال وکردار کی صیحح تصویر دیکھنا ہے تو ہمارے لئے نہ صرف ان حالات کا جائزہ لینا ضروری ہے جن میں حسن نے زندگی گزاری بلکہ ان حالات کا بھی جو اس کے زمانے سے پہلے پیش آئے ۔

تیسری چوتھی اور پانچویں صدی ہجری کے دوران اسلامی دنیا انتشار کا مرقع تھی مسلمانوں کی زندگی نوع بہ نوع تضادات کے درمیان کشمکش سے دوچار تھی ذہنی زندگی کا معیار بلند تر تھا علمی ادارے فروع پا رہے تھے اور لوگ علم کا بہت ذوق رکھتے تھے مگر مسلم معاشرے کی ہر سطح پر اور ہر طبقے میں انتشار نمایاں تھا معاشی صورت حال بہت بگڑ چکی تھی لوگ گرانی سے تنگ آئے ہوئے تھے نظم ونسق مفقود تھا لاقانونیت اور مذہبی مزاج عروج پر تھا مشتعل عوام فوج سے ٹکر ا جاتے تھے دکانیں لوٹی جاتی تھیں پل جلائے جاتے تھے مسجدوں کے منبر توڑے جارہے تھے(المنتظم ،کتاب البدایہ والنہاریہ اور دوسری تاریخوں کے علاوہ کامل ابن اثیر کی ساتویں،آٹھویں اور نویں جلد میں یہ واقعات جگہ جگہ نقل کئے گئے ہیں )۔ عباسی خلافت میں کمزوری راہ پا چکی تھی اور زوال کے خیمے گڑھ چکے تھے خلافت چھوٹی چھوٹی ولایتوں میں بٹ چکی تھی اور یہ ولایتیں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار تھیں اندلس میں ایک زمانے سے بنوامیہ کا اقتدار قائم تھا مصر میں اخشیدیوں کی حکومت اور استقلال کا علم لہرارہا تھا شمال مغربی افریقہ میں فاطمی خلافت قائم تھی حلب اور سرحدی علاقوں میں حمدانی قابض تھے عراق پر ویلمیوں کا قبضہ تھا یمامہ بحرین ،عمان اور اندرونِ بصرہ میں قرامطہ کی عملداری تھی اہواز اورفارس میں آل بویہ صاحب اقتدار تھے خراسان اور ماوراء النہر سامانیوں کے پاس تھا سبکتگین کی اولاد ہندوستان اور افعانستان پر برسرِ اقتدار تھی اور علوی طبرستان پر حکومت کر رہے تھے مختصر یہ کہ عباسی سلطنت ٹکڑے ٹکڑے ہو چکی تھی اسکا دائرہ اثر سکڑتا چلا جا رہا تھا اس سے نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ مسلمان اور بطور خاص عرب عباسیوں کے اقتدار سے خوش نہیں تھے کیونکہ عباسی خلافت کی انتظامیہ میں ایرانیوں اور ترکوں کو بہت زیادہ رسوخ حاصل تھا اور عرب ان دنوں قوموں کو اپنا مفتوح سمجھتے تھے غرض عباسی اقتدار کے خاتمے تک مسلم معاشرہ خانہ جنگیوں کی آماجگاہ بنا رہا ۔

حقیقت یہ ہے کہ عباسی خلافت مضبوط بنیادوں پر قائم نہیں تھی اخلاقی اعتبار سے بنوعباس ،بنوامیہ سے زیادہ مختلف ثابت نہیں ہوئے پھر یہ کہ انہوں نے اپنے اقتدار میں ایرانیوں اور ترکوں کو شریک کرکے عربوں کو ناراض کیا ان مختلف اور برسرِ پیکار گروہوں نے عباسی خلافت کے زوال میں اہم کردار اداکیا عباسیوں کے کمزور ہوجانے کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ اہل بیت اور علویوں سے بنوامیہ کے مقابلے میں کچھ کم بے رحمی سے پیش نہیں آئے ۔یہاں تک کہ امام ابوحنیفہ اور امام شافعی ایسے لوگ بھی عباسیوں کے خلاف تھے غرض مختلف معاشی ،سماجی ،طبقاتی ،اخلاقی اور جذباتی اسباب مل کرعباسیوں کے زوال کی وجہ بنے ‘‘۔انہی حالات میں حسن نے فارس کے عوام بالخصوص اسماعیلیوں کی نمائندگی کی اور سلجوقی حکمرانوں کے ظلم واستبداد کے خلاف علم بغاوت بلند کردیا جو رفتہ رفتہ قومی انقلاب میں تبدیل ہوگئی اور فارسی علاقوں سے ترک سلجوقوں کے اثر نفوذکو ذائل کر کے ایک خود مختار فارسی اسماعیلی حکمرانی کی بنیاد ڈالی گئی جسکے استحکام میں حسن صباح کی اپنی ذات اور عوام سے مساوات کا سلوک اہم کردار ادا کیا۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button