میرٹ والے وزراء
گلگت بلتستان پر بذریعہ پیراشوٹ مسلط ہونے والی سفارشی کابینہ کے وزراء کو ان کے قلمدان سونپے گئے ہیں۔ اور ان قلمدانوں کے ساتھ وزراء نے عوامی داد و تحسین حاصل کرنے کے لئے اپنے اپنے آبائی گاوں کا رخ کیا ۔ جہاں پر ان میں سے اکثریت نے عوامی اجتماعات سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارا تقرری میرٹ پر ہوا ہے اور ہم علاقے میں میرٹ قائم کریں گے۔
میرٹ کے لفظ کی توہین کرنے والے ان وزراء سے پوچھاجائے کہ میرٹ کا مطلب کیا ہے؟ کیا وزارتوں کے لئے اسلام آباد اور گلگت میں جگہ جگہ دستک دینے کا نام میرٹ ہے؟ کیا یہ وزراء ٹسٹ اور انٹرویو کے زریعے مقرر ہوئے ہیں یا کونسا امتحان پاس کر کے یہ لوگ وزیر بن گئے ہیں جس کو یہ میرٹ کہتے ہیں۔ ہاں اگر یہ مان بھی لیتے ہیں کہ یہ میرٹ کی بنیاد پر آئے ہیں تو یہ کیسا ممکن ہو سکتا ہے کہ ضلع ہنزہ نگر جو گلگت بلتستان میں شرح خواندگی کے لحاظ سے اول نمبر پر ہے اور یہاں سے کوئی وزیر میرٹ پر نہیں آسکا، میرٹ میں ایسی کیا خاص بات تھی کہ ہنزہ سے کوئی امیدوار اس میں کوالیفائی نہیں کرسکا۔ ان چیدہ چیدہ خصوصیات کے بارے میں بتایاجائے، جسے میرٹ کا نام دیکراس کی بنیاد پر من پسند بٹالین میں وزراء کی فوج بھرتی کیا گیا۔سیدھی سی بات ہے کہ تمام وزراء کسی نہ کسی سفارش پر وزیر بنے ہیں، ہم ان پر رشوت کا الزام نہیں لگا سکتے مگرجو بیانات ہم اخبارات میں پڑھتے ہیں، ہم وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ تمام وزراء سفارشی ہیں۔ ان وزراء کے میرٹ اور ڈی میرٹس الیکشن کے دوران اور بعد از الیکشن معلوم پڑے گا۔
اب یہ بات تو طے ہوئی کہ یہ لوگ کسی طرح بھی میرٹ پر نہیں آئے ہیں، ایسے میں یہ لوگ ہمیں معاشرے میں میرٹ کا خواب کیوں دکھاتے ہیں جو خود کسی کی سفارش پر آئے ہیں، وہ معاشرے میں کیا خاک میرٹ قائم کریں گے۔ میرٹ تو تب قائم ہوتا ہے جب یہ خود میرٹ پر آئے۔ میرٹ اسے کہتے ہیں، جب ایک کلرک کی خالی اسامی کے لئے پندرہ سو سے دو ہزار اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان لمبی لمبی قطاروں میں کئی گھنٹے انتظار کے بعد اپنا درخواست جمع کرتے ہیں، ان تمام سے تحریری امتحان لینے کے بعد انٹرویو کے لئے شارت لسٹ کیا جاتا ہے، پھر متعلقہ معیا ر کے حامل ایک غیر جانبدار انٹرویو پینل ان میں سے ایک کلرک کا انتخاب کرکے اس کے ہاتھ میں سرکاری قلم دیا جاتاہے ۔ تب جا کر وہ کلرک یہ کہنے کے قابل ہوجاتا ہے کہ ان کا انتخاب میرٹ پر ہوا ہے اور ان کے والدین، رشتہ دار اور علاقے کے لوگ بھی اس پر فخر کرتے ہیں۔ جب ایک کلرک کے انتخاب کے لئے اتنے سارے مراحل سے گزرنا پڑتا ہے جس کا کام صرف ایک دفتر کی دیکھ بھال کرنا اور باہر سے آنے والے لوگوں (عوام) کی خدمت کرنا ہے، تو ایک صوبائی وزیر کے انتخاب کا عمل اتنا آسان کیوں ہے، جس میں ٹسٹ ہے نہ انٹرویو، اور نہ ہی اس کے لئے کوئی معیار یا قابلیت متعین۔ بس ایک من پسند شخص کو منتخب کیا، جس کے ہاتھ میں قلمدان دیکر سرکاری امور کو اپنے مرضی سے چلانے کا اختیار دیا۔ اور وہ جو چاہے کرلیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم اعلیٰ تعلیم تافتہ نوجوان ان کے منتخب ہونے اور انہیں قلمدان سونپنے کی خوشی میں بھنگڑا ڈالتے ہیں۔
دیکھنایہ ہیں کہ یہ میرٹ والے وزراء اپنے وزارتوں میں کس حد تک میرٹ قائم کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔