صدارتی صوبے کا وزارتی گورنر
زولفیقار علی غازی
صدارتی آرڑیننس کام نکالنے وا لہ و ہ نسخہ ہے جس سے جوجب چاہے اپنا کام نکا ل سکتا ہے بس جس کو کا م نکلوانا ہے اسے حکومت میں ہی نہیں بلکہ پورا پورا حکومت ہونا چاہئے اور صدر بھی ممنون جیسے ، آپ پوچھ سکتے ہیں کہ آخر کو ممنون جیسے کیوں؟۔
ملک میں آیین بھی ہے اور قانون وقنون بھی ،قانون موٹی موٹی کتابوں میں لکھا ہو ا ایسا خشک مضمون ہے جسے پڑھنے سے اور کچھ ا ور ہو نہ ہوسر درد ضرور کرتا ہے رہا قنون تو اس کا محل وقوع پنجاب ہے اور رانا ثناﷲ کے علاوہ کسی اور کو اس کا ذکر تک کرنے کی اجازت نہیں ہے ہا ں البتہ عابد شیر علی اگر کچھ کہیں تو کوئی معانقہ نہیں۔آیین بھی ایک الگ شے ہے جس کو آیین کی سمجھ آتی ہے وہ ساری زندگی ہنستا رہتا ہے اور جس کو اسکی سمجھ نہیں آتی وہ بھی ہنستا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ حفیظ پیرذادہ کہیں نظر آجاے۔ اب ایسا نہیں ہے کہ ن لیگ میں آیین دان اور قانوندان نہیں ہیں روز ٹی وی پر قانون کا سبق پڑھاتے ہوے پانچ سے دس تو نظرآ ہی جاتے ہیں ۔اب گلگت بلتستان کے حوالے سے وہ بولتے کیوں نہیں ؟ یہ سوال آپ پوچھ سکتے ہیں ، لیکن بات فیس کی ہے، کون وکیل فری آف کاسٹ بولتا ہے؟ اگر آپ کسی وکیل سے بلوانا چاہتے ہو کچھ تو پھر فیس بھرو ورنہ خاموش رہو۔
آیین، قانون اور قنون کے ساتھ ساتھ ایک اور شے بھی ہے جسے صدارتی آرڑیننس کہتے ہیں، ہمارے لئے تو یہی سب کچھ ہے، کیوں کہ ہمارا صوبہ ہی اسی آرڈیننس کی وجہ سے معرض وجود میں آیا ہے ۔اب آیین کیا کہتا ہے اور قانون کیا کہتا ہے؟اس بات کو جانے دیں کیوں کہ یہ صوبہ نہ آیینی ہے اور نہ ہی قانونی، یہ صوبہ صدارتی ہے اوراس کے حوالے سے قانونی نہیں قنونی بات کی جا سکتی ہے اور مسلہ درپیش یہ ہے ہمارے پاس قانونی ماہرین پائے جاتے ہیں قنونی نہیں ، قنونی ماہرین سارے پنجاب میں پائے جاتے ہیں لہذا ہم تو اس حوالے سے بات کرنے سے رہے۔ اب قنون میں یہ کہیں نہیں لکھا ہے کہ گورنر کا تعلق گلگت بلتستان سے ہی ہونا چاہئے کوئی بھی گورنر ہو سکتا ہے بس وزیر اعظم کا نظر کرم ہونا چاہئے۔ اگر جناب وزیر اعظم کی نظر کرم فرض کر لیجئے جناب رانا ثنااﷲ پر پڑھ گئی تو؟؟ وہی گور نر ہونگے کیونکہ یہی قنون ہے، یہ صوبہ آیین اور قانون کے مطابق نہیں چلایا جا رہا ہے یہ تو قنون کے مطابق چلایا جا رہا ہے اور اگر قنون کو جوش آگیا تو جناب شاہدﷲ بیگ جیسے جینس سیکریٹری بھی گورنر بن سکتے ہیں۔ مانا کہ ضروری نہیں کہ گورنر کا تعلق گلگت بلتستان سے ہو، پنجاب میں گورنر کی سیٹ خالی ہے لہذا اسی قنون کے مطابق کے پی کے سے کسی کو پنجاب کا گورنر لگا کر زرہ بتائے گا کہ واقعتا ایسا بھی ہو سکتا ہے۔ پارٹی میں شامل ہونے کے بعد یہ عقل نام کی چیز بھی لاہور جاتی ہوگی، اگر گئی ہے، تو اس سے واپسی پر زرا پوچھئے گا کہ گورنر پنجاب چودھری سرور نے کتنے کام کرواے تھے، یعنی کتنے لاکھ کے کام کرواے تھے؟ آپ بس عوام کو بتا دیجئے گا کہ وہاں کیا ہوا تھا؟ چودھری سرور نے پنجاب کی گورنری کو کیوں لات ماری؟ اس کے بعد تو عوام گورنر گلگت بلتستان پیر کرم علی شاہ کے گھر جا کر اس سے پوچھینگے۔
اب گورنر کو لے کر بہت لے دے ہو رہی ہے، پی پی پی، پی ٹی ائی، ایم ڈبلیو ایم اس حوالے سے ایک پیج پر نظر آتے ہیں لیکن سب کے پیراگاف الگ الگ ہیں۔ پی ٹی ائی کا مسلہ یہ ہے وہ بولتے زیادہ ہیں اور عملی طور پر عمل پر یقین نہیں رکھتے ہیں جمبو سایز کابینہ کو لے کر عدالتی دروازہ کھڑکھڑانے کی بات کی تھی لیکن وزارت کے مل جانے بعد نہ صرف یہاں خاموشی ہے بلکہ اسلام آبادسے بھی گولہ باری کم ہو گئی ہے۔ آخر کو کچھ دو اور کچھ لو کی سیاست کی سمجھ آگئی ہے۔ پہاڑوں کی لیز اگر کینسل ہو گئے تو؟ اب پی ٹی ائی کو یقین ہو چلا ہے کہ وہ دھرنا دیں یا مارچ کریں حکومت جانے والی نہیں کیوں کہ 58/2 Bبھی نہیں ہے اور ایوان صدر میں نہ لغاری ہے اور نہ غلام اسحاق خان۔
ایم ڈبلیو ایم سادہ کھیل کھیل رہی ہے جو اس قدر پیچیدہ ہے کہ کسی اور کے کندھے پر بندوق رکھ کر آیندہ سیٹ اپ میں گورنری مانگنے جا ر ہی ہے اس جماعت کا فوکس ایک مکتب فکر کے اندر صرف ایک اکثریتی قبیلہ ہے اور اسی بنیاد پر ن لیگ کے ساتھ بہت جلد رتعلقات کو نئے سرے سے استوار کرنے کی کوششوں میں مصروف نظر آیگی۔ یعنی آیندہ الیکشنز پی پی پی ورسس ۹ ستارے ہی ہو گا۔ اب ان نو ستاروں کو تقسیم کے فارمولے میں کتنا حصہ ملے گا اس کے لئے گورنر کا کردار بہت اہم ہوگا۔ جی، بی کونسل میں حصہ، ٹیکنوکریٹس کا انتخاب، پہاڑوں کا لیز اور کیا کیا تقسیم ہوگا؟ بس دیکھتے جائے ۔ گورنر صاحب نے آتے ہی احتیارات کا بے دریغ استعمال زبانی طور پر شروع کردیا ہے، جو اعلانات وزیر اعلیٰ کو کرنے چاہئیں وہ گورنر خود کر رہے ہیں۔ گورنر پنجاب ایک گلی نہیں بنوا سکتے تھے ، اور گورنر سندھ کا کام صرف گورنر ہاوس میں ہی رہنا ہے جبکہ گورنر گلگت بلتستان اربوں کے پروجیکٹس شروع کروانے کے ساتھ ساتھ بجلی کے حوالے سے بھی نوٹس لے رہے ہیں لہذا ایسے میں ہم اگر محترم وزیر اعلی ٰ سے یہ کہیں کہ اب آپ کی ضرورت نہیں رہی ہے اپنی عزت کی خاطر یہ عہدہ کسی ن لیگی کے سپرد کر کے بینک پر ہی توجہ مرکوز کریں تو کوئی غلط تو نہیں ہوگا۔