کالمز

بیگل چٹان(ہلال گِری) اشکومن دُپاشل

ishkoman 2015

وادی اشکومن ضلع غذر ‘گلگت بلتستان کے اہم وادیوں میں سے ایک ہے۔ وادی اشکومن زمانہ قدیم سے اپنی جغرافیائی اہمیت کی وجہ سے مقامی راجاؤں‘ مہتروں اورانگریزوں کیلئے اہم تھی۔ خانہ بدوش ‘ مذہبی یاتری اور سیاحوں کے ساتھ کئی کارواں اس وادی سے گزرتے تھے کیونکہ یہ علاقہ سنٹرل ایشاء ‘ روس ‘ افغانستان ‘ برٹس انڈیااور چائنا کیلئے ایک اہم درّہ یعنی گزرگاہ تھی۔ روسی پیش رفت اور مختلف علاقوں پر قبضے سے بِرٹس انڈیا نے بروغل اور اشکومن کو درّہ دریافت کیا۔صدیوں سے مختلف نسلیں اور قومیں اس وادی میں آباد ہوئے اورلیل ونہار کی نذر ہوئے۔ مختلف اوقات میں یہ علاقہ اپنے دامن میں تاریخ کی اہم نقوش سمائی ہوئی دکھائی دیتی ہے جس کے آثار آئے دن دریافت ہورہے ہیں۔ اس وادی کی تاریخی داستانیں نہ صرف آثارقدیمہ سے نمایاں ہے بلکہ لوگوں کے سینوں میں بھی محفوظ ہیں۔ آئیے اشکومن خاص کے گاؤں ٹُوپاشل (فیض آباد) میں موجود ایک اہم چٹان جو ’ہلال گِری‘(دلہن چٹان)یا ’بیکل چٹان‘ سے مشہور ہے‘ کے بارے میں ایک تحقیقی گفتگوکرتے ہیں۔ وادی اشکومن گلگت بلتستان میں گلگت سے شمال مغرب میں 120کلو میٹردور ضلع غذرکے شمال مغرب میں واقع ہے۔ اس کے شمال میں واخان افغانستان، مغرب میں درکوت یاسین، مشرق میں ہنزہ نگر اور جنوب میں 50کلومیٹر پر گاہکوچ واقع ہیں۔ وادی اشکومن نقشے پر 37-36 درجے شمالی ارض بلد اور 73-75 درجے مشرقی طول بلدکے درمیا ن واقع ہے۔ قدرتی حسن و شادابی میں ملبوس برف پو ش پہاڑی سلسلوں اور گلیشیرزکے دامن میں اس وادی سے مشہور دریا قرمبراور نالہ متھنتر میں آٹر جھیل سے دریائے اشکومن نکلتاہے۔ مختلف چھو ٹے چھوٹے نالوں سے یہ دریا تھپشکن کے قریب دریائے قرمبر میں ملتاہے۔ اسی طرح دریائے پکورہ، چٹورکھنڈ، اسمبراور دائین کے درمیان بل کھاتا ہوا ، گنگناتا ہوا یہ دریا سلپی(پونیال)کے مقام پردریائے گوپس اور دریائے پونیال سے جاملتا ہے ۔ وادی اشکومن کارقبہ2792 مربع کلومیٹر ہے(معاشرتی علوم ، ص۳۲) آبادی 1998ء کی مردم شماری کے مطابق 18406نفوس پر مشتمل ہے۔ جن میں 9200عورتیں اور 9206مرد شامل ہیں۔ 2206گھرانے تھے جو اب تین ہزارتک پہنچ چکے ہونگے اور اب یہ آبای دتقریباََ 40,000تک بڑھ چکی ہوگی۔ ڈاکٹر ناموس نے اپنی کتاب گلگت اور شینا میں اس وادی کی آبادی کی تفصیلی چارٹ دیا ہے جو اس مطابق ہے۔ ’’پو لیٹکل گورنر اشکومن کے زمانے میں انگریزوں نے مردم شماری کی تھی جسکے مطابق1911ء میںآبادی 2020 افراد،1921ء میں 2753 افراد،1931 ء میں 2986 افراد اور 1941ء میں 4282 افراد پر مشتمل تھی‘‘ (ڈاکٹرناموس، 1961ء ص1 حسن دانی ص404)۔

Jan Muhammadتاریخ کی گوشوں سے اشکومن کے حوالے سے کافی مواد ملنے لگا ہے جیسے قراقرم کے قبائل (1985ء)میں ڈاکٹر محمد رفیق مغل نے ان شواہد کا تذکرہ کیاہے جسے وہ یونانی متھالوجی کے قنطورس قراردیتے ہیں(ص ۱۸۹)۔ اس طرح رشید احمد ندوی اس بارے میں کہتے ہیں کہ ’’وادی اشکومن کے مشہور گاؤں ایمت کے ایک ٹیلے سے کانسی کی بنی ہوئی ایک رائلٹین بر آمد ہوئی تھی جسے سر آرل سیٹین نے دریافت کیا۔ اس کے مطابق نیچلا حصہ گھوڑے کی ٹانگوں اور جسم کا مظہر تھااورسر ،سینہ اور بازو ماضی کے آدمی کے شبییہ سے مشابیہ تھے۔ اس قسم کی صناعی عہد قدیم کے عقیدے کے مطابق بھی تھی۔ اُس عہد کی عجیب الخلقت معبودوں اور بتوں کی نمائیدگی بھی کرتی تھیں جسے سرآرول سیٹین اپنے ساتھ لے گئے اور اکسفورڈ کے عجائب گھر میں محفوظ کر دیا جس کانام اشمولین ہے‘‘۔ حال ہی میں ایک بڑی مٹکہ اشکومن غوٹلتی کے قریب چھاور کے سنگلاخ چٹانوں سے ملی ہے جس کے خدوخال مٹی کی صنعت سے ہے۔ سن ۲۰۰۵ء میں اسی علاقے سے چندانوکھی لاٹھیاں ملی تھی جن کو مختلف رنگوں میں سجاکر نوکیلے بنائے گئے ہیں۔ وہ شکل سے تیر جیسے لگتے ہیں۔ سمجھ نہیں آئی اتنی گہرائی میں یہ لاٹھیاں کیوں چھپائی گئی تھی؟ساتھ ساتھ ایک قدیم زیارت بھی ہے جس پر کسی بزرگ کے پاؤں کے نشان ہیں۔ نمبردار مرزا محمدایک کہانی قدیم شوڈوک کے بارے میں کہتے ہیں اُن کا کہنا ہے کہ’’ اُن کی برادری کا شوڈوک کِھلی کوہستان سے آکر غوٹلتی اشکومن میں آباد ہوا اورغوٹلتی میں سیلاب آنے کی وجہ سے اشکومن کوٹ منتقل ہوا۔ باقی قبائل کے لوگ بعد میں مختلف جگہوں سے آتے گئے اور اشکومن کی موجودہ آبادی وجود میں آئی ۔ کچھ لوگ آج کل اشکومن والوں کو ’شوڈوکے‘ نام سے بھی پکارتے رہتے ہیں‘‘۔ اس روایت کے بارے میں کوئی کتاب ہاتھ نہیں لگی تاہم ہوسکتا یہ بات درست ہو۔ اس رائے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا لیکن تحقیق کی نظر سے پرکھنے کے بعد ہی کچھ کہا جاسکے گا کیونکہ ان کی زبان یا ثقافت کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ہیں۔ تاریخ اقوام چترال میں ایسی ایک برادری ’شوڈوک‘ کا ذکر ملتاہے جو وادی بُروغل میں آباد ہے ہوسکتاہے وہ لوگ اشکومن میں فسادات یا قدرتی آفات کی وجہ سے وہاں گئے ہو؟ ان تاریخی حقائق سے اس وادی کی قدیم تاریخ کی عکاسی ہوتی ہے۔ ان تاریخی جھروکوں میں سے ایک بیگل چٹان ہے آیئے اس کی کہانی آپ کو بتاتے ہیں جو اس چٹان کے بارے میں مشہور ہے۔ ’’ شقمل دوپاشل موجودہ فیض آباد اشکومن میں قدیم زمانے میں بُرو شل قبائل آباد تھے اور ان کے قبیلے کا نام بیگل تھا۔ ایک دفعہ ان کے خاندان میں اجتماعی سات بیٹوں کی شادی کا انتظام کیا گیا۔ شادی کی تقریب میں وہاں موجود لوگوں نے شرکت کی۔ شادی میں مقامی روایات کے مطابق ڈول ڈمامے کا انتظام بھی کیا گیا۔ شام کوثقافتی ناچ گانے کا انتظام کیا گیاجس میں پیر و جو ان نے گرمجوشی سے حصہ لیا۔ عین تماشے کے وقت اُس گاؤں کے قریبی پہاڑی سے ایک چٹان گرگیااور (بقول بزرگوں کے) چٹان سے یہ آ واز آئی ’’ بُن دِیا بُن دِیا‘‘ یعنی پتھر آیا پتھر آ یا‘ سوائے ایک خاتون کے کسی نے یہ آواز نہیں سنی۔ وہ خاتون بُروشسکی زبان جانتی تھی اس لئے سمجھ گئی اور سب لوگوں کو وہاں سے بھاگنے کی واویلا کی لیکن کسی نے ایک نہ سنی جسکی وجہ سے صرف وہی خاتون بچ گئی باقی تمام اس چٹان کی زدمیں موت کے دھارے میں ڈوب گئے۔ وہ خاتون وہاں سے یاسین کی طرف نکلی اور سیدھا یاسین (سندی یا تھوئی) پہنچ گئی۔ (بقول ان کے) اس وقت وہ اُمیدسے تھی اور وہاں پہنچ کر ان کابیٹا پیدا ہو گیاجس کا نام اس نے اپنے پُرانے قبیلے (دادا) کے نام پر’ بیگل‘ رکھا۔ موجودہ زما نے میں یاسین تھوئی میں بیگل برادری کے حوالے یہ کہانی بتائی جاتی ہے اور اب وہاں اس کی نسل سے کم وبیش سات یا آٹھ برادریاں آباد ہیں۔ جن میں نوچے، نونے، شکر بیکے، مرکلی کوژ، صوبہ کوژ، چونے اور آتمیں شامل ہے‘‘۔ (وادی اشکومن‘ محمدجان2009ء) ۔

uter ishkoman
اس کہانی سے اشکومن اور یاسین کی وابستگی اور تعلقات کااندازہ ہوتاہے۔ تاریخ شاہان چترال‘۲۰۰۶ء نے بھی اس کہانی کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتاہے کہ’’ دادی کے ساتھ ایک بہوبھی تھی جو حاملہ تھی۔ یاسین جاکر ان کا بیٹا پیدا ہوا اور ان کا نام بیگل رکھا گیا۔ چترال اور یاسین کے حکمرانوں نے ان کو ان کی خاندانی پس منظرکی وجہ سے شاہانہ انتظام وانصرام فراہم کیا۔ ان کی نسل سے اب تھوئی یاسین میں آٹھ خاندان بنے ہیں‘‘۔ اُسی چٹان کے آس پاس کھدائی سے زیورات، اور مورتیاں نکلتی ہیں۔ اس کہانی یا روایت سے پتہ چلتا ہے کہ یہاں قدیم زمانے میں بُروشو قبائل آباد تھے اور انہوں نے ہی یہ نام رکھا ہو گا۔ یہاں کے تمام جگہوں کے نام بھی بُرو شسکی زبان میں ہیں جیسے متھنتر، چھنتر، اشقمتھر، باردم شح، غوژر مل، بَش مل، دَبیر،شینکی اور دُپاشل بادم چر وغیرہ۔ لفظ دُپاشل کے بارے میں یہ رائے اس وجہ سے بھی بروشو قبائل کے حق میں ہے کہ ہنزہ کریم آباد میں ایسے ہی الفاظ پر مشتمل گاؤں کے نام ہیں۔ ’’ہنزہ پراپر میں چار قبائل ہیں:دِرامتنگ، براتیلنگ، بُرونگ اور خرُوکژ۔ انِ قبائل کے ناموں سے ان کے گاؤں کے نام بھی واضح ہیں جیسے دِرامتنگ سے دِرامشل‘ براتیلنگ سے سِنوکُشل یا برُنشل، برُونگ سے برونشل اور خرُوکژ سے خرُوکُشل‘‘ یہاں لفظ ’’شل‘‘ بہت اہم ہے یہ لفظ اشکومن میں کیسے رائج ہوا؟ اس وجہ سے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ ٹوپاشل اُن کے قبیلے کا نام تھا۔

’تاریخ شاہان چترال ‘ اخونزادہ مرزا فضلِ واحد بیگ نے تحریر کی ہے موصوف لکھتے ہیں کہ چترال میں کٹور اور خوشوقتہ حکمرانوں سے پہلے تین اور خاندانوں نے حکمرانی کی ہے جو کہ درج ذیل ہے ؛
۱۔ شاہی خاندان اول سکندرے کالاش دور (۳۳۴ قبل مسیح تا۶۴۰ء)
۲۔ شاہی خاندان دوم چینی نژاد عہد رئیس (۶۴۰ء تا ۱۰۳۰ء)
۳۔ شاہی خاندان سوم ترک نژاد بیگالے عہدہ رئیس (۱۰۳۰ء تا ۱۶۶۰ء)
۴۔ شاہی خاندان چہارم سنگین علی عہدہ مہترچترال، کٹوریہ و خوشوقتہ (۱۶۶۰ء تاقیام پاکستان)

Stticks-Found in a Chavoor Dader (2)
موصوف کے مطابق شاہی خاندان دوم چینی نژاد عہد رئیس کے بعد شاہی خاندان سوم ترک نژاد بیگالے عہدہ رئیس کی حکومت رہی ہے۔ بیگالے خاندان تقریباََ ۱۰۳۰ء سے ۱۶۶۰ء تک حکومت کی ہے اوریہ سلسلہ سات آٹھ سو برس جاری رہا ہے۔ اس دوران قبائلی فسادات اور جنگوں میں حکومت آتی جاتی رہی ہے۔(ص ۷۷۔۶۲)اس کے بعد یعنی سولہویں صدی کو کٹور و خوشوقتہ حکمران آئے ان کو نہ صرف شکست دی بلکہ ان کے لوگ یہاں سے بھاگ کے گردونواح کے علاقوں میں گئے۔’’ خاندان رئیس بیگالے کے چترال میں زوال کے بعد خاندان رئیس بیگالے کے چند ا فرد جان بچاکر علاقہ اشکومن گاؤں ٹوپاشل(فیض آباد) آکر رہائش پذیر ہوئے۔۔۔ کئی سال اشکومن میں رہے اور ایک دن شادی کی تقریب میں ایک چٹان گرنے سے صرف دادی اور بہو بچ گئی اور جان بچاکر یاسین پہنچ گئی۔۔۔ ان کے ہاں ایک بیٹاہوا جس کا نام بھی بیگل رکھا گیا۔۔۔‘‘(ص۔۱۶۹۔۱۷۰)۔

ایسا دکھائی دیتا ہے کہ قبائلی جنگ وجدل کے دوران چترال سے یہ لوگ اشکومن آگئے اوران جگہوں کے نام رائج ہوئے بعدمیں ان کی تباہی کی وجہ سے دوبارہ یاسین تھوئی نگلے ۔ ان کے جانے کے بعد غالباََ تیرھویں یا چودھویں صدی میں اشکومن میں موجودہ نسل کے آباؤاجداد کی آمدہوئی۔

found in Ishkoman Handis
ان وجوہات کی وجہ سے پوری وادی کا نام شقمل سے اشکومن پڑگیا اور اس کے جغرافیائی حدود برگل چٹورکھنڈ سے غو ٹلتی میں در کوت کی سرحد تک اور ایمت میں وادی قرمبر سے سو خترآباد، چترال واخان کی سرحد تک پوری وادی کو وادی اشکومن یا تحصیل اشکومن کہتے ہیں۔

’’اس وادی میں چٹورکھنڈ، دائین،پکورہ، وغیرہ انگریزوں کی گلگت ایجنسی بننے کے بعد لوگ اس وادی میں چترال واخان وغیرہ سے آکر آباد ہو گئے‘‘ ( احمد حسن دانی ، ۲۰۰۰ء)۔ تاریخ شاہان چترال کے مصنف کے مطابق’’ جب کہ اس زمانے ورشگوم پر رئیس بیگالے چترال کی جانب سے ایک ایجنٹ (میر) مقررتھا۔۔۔ جن بیگالے چترال سے بے دخل ہوکر اشکومن آگئے تو اس ’میر‘ نے ان کو خوش آمدید کہا اور ان کی بہت مددکی‘‘ (ص۱۶۹)۔ ۱۷۰۰ء سے ۱۸۰۰ ء کے وسط تک گلگت بلتستان میں کئی ایک حکومتیں آئیں۔ایک اور کتاب’’The Story of Gilgit Baltistan and Chitral 2002‘‘ کے صفحہ نمبر۴۰ پر کچھ جغرافیائی نقشے دیئے گئے ہیں جن میں وادی یاسین(ورشگوم) کو Greter Yasinظاہر کیا گیا ہے ان صفحات پر حکمرانوں اور مذہب کی تبلیغ کے بارے میں بھی اہم تذکرے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ۱۸۴۰ء سے پہلے یہ علاقے ایک ہی حکمران کے زیرحکمرانی میں تھے۔ اس طرح ایک اور اہم کتاب’’Explorers of the Western Himalayas, 1820-1895‘‘میں Jhon Keayبھی یاسین کو متحدہ یاسین ہی بتاتا ہے۔ وہ اپنی کتاب میں اشکومن کو ایک اہم درہ اور یاسین کے حکمرانی میں ایک ریاست ظاہر کیا ہے۔ 1824ء میں سلما ن شاہ نے گلگت پر قبضہ کیا۔جسے بعد میں راجہ آزاد خان نے شیر قلعہ میں قتل کیا(شاہ رئیس خا ن کی تاریخ گلگت صفحہ نمبر۳۴۲) ۱۸۲۲ء کو تراخانی خاندان کاآخری راجہ عباس قتل ہوا۔ اُدھر پنجاب میں مہاراجہ رنجیب سنگھ کی حکو مت تھی۔ 1819ء کو کشمیری لداخ فتح کر نے کے بعد ان کی نظر یں گلگت کے علاقوں پرجمی تھیں۔ اِن دنوں گلگت میں گوہر آمان کی حکومت تھی۔راجہ سکندر کی قتل کے بعدکریم خان نے سکھوں سے مدد مانگ لی اور یوں سید نتھے شاہ کی قیا دت میں ۱۸۴۲ء کو سکھ فوج گلگت آگئے اور گوہر آمان کو شکست دی۔ ۱۸۴۶ء ؁ کو سکھوں کی پہلی جنگ انگر یزوں سے ہوئی۔ انگریزوں نے سکھوں کوشکست دی۔ ۱۶ مارچ 1846ء کو معاہدۂ امر تسر کے تحت 75 لاکھ نانک شاہی میں کشمیر فروخت ہوا۔ گلگت بلتستان اس معاہدہ میں شامل نہیں تھے تاہم بعد میں لفٹنٹ وینش ایگینو اور لفٹننٹ ینگ وغیرہ نے اِن علا قوں کو بھی بیع شدہ ممالک میں شامل کیا۔

Bagal stone 2
۱۸۵۲ء میں گوہر آمان والئی یاسین نے دوبارہ سکھوں اور ڈوگروں پرچڑھائی کردی اور ۱۸۵۳ء کو پوپ سنگھ پڑی کے قر یب سکھوں کو گلگت سے نکال دیا۔ (عثمان علی، لوگ کہانیاں، ۱۹۹۲ء ص21,22) بہر حال ۱۸۶۰ء کو گوہر آمان وفات پاگئے ۔ عزیز علی منشی (۱۸۷۰ء) نے تاریخ چترال کے صفحہ نمبر ۱۱۷ پر تاریخ وفات اور گلاپور ضلع غذر میں دفن ہو نے کا ذکر کیا ہے۔ تمام تبدیلی کے باوجود اشکومن والئی یاسین کی حکمرانی میں تھا۔ حسب روایت مالیہ اور محصولات وغیرہ والئی یاسین کو دیاجاتاتھا۔ والئی یاسین کی حکمرانی میں اشکومن ۱۸۲۴ سے ۱۸۹۶ء تک رہا۔ اس تمام عرصے میں اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کی وجہ سے یا سین میں سیاسی استحکام نہیں رہا۔ بھائی بھائی کا قاتل تھا‘ باپ بیٹے کا۔ یوں یہ کھیل ۱۸۹۶ء کو وادی اشکومن سے ختم ہوا۔ (حسن دانی۔۲۰۰۱ء صفحہ303) ان شواہد سے اندازہ ہوتا ہے کہ اشکومن کا یاسین کے ساتھ گہرے تعلقات تھے جس کی بناء پر بیگل کہیں اور جانے کے بجائے سیدھا یاسین کی طرف نکلے۔ آج یاسین خاص کر تھوئی میں اس برادری کی بہت آبادی ہے۔ اس برادری کے سپوت آج ہر شعبہ زندگی میں اول دستہ نظر آتے ہیں۔ تعلیم‘ سیاست‘ سماج اور دیگر اداروں میں اہم عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ قانون ساز اسمبلی کے سابق رکن محمدایوب‘ نگران وزیر پلاننگ اینڈ ڈیوپمنٹ الواعظ علی مراد‘ حفیظ الرحمٰن‘ مومن جان سمیت سینکڑوں نوجوان گلگت بلتستان سمیت ملک کے مختلف اداروں میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔اس چٹان کے بارے میں اہل دانش سے مزیدتحقیق کا انتظارہے۔ اس طرح کی تحقیق محکمہ آثار قدیمہ کی مدد سے کی جاسکتی ہے۔ امید ہے گلگت بلتستان کی سیاسی وریاستی ادارے ایسے اہم آثارقدیمہ کی حفاظت کے ساتھ ان کی تاریخ کے بارے میں محققین کی مدد کریں۔ اس سلسلے میں قراقرم انٹرنیشنل یونیورسٹی بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔ شعبہ تحقیق اس طرح کے اہم تحقیقات کی سرپرستی کرسکتاہے جسے نہ صرف علاقائی تاریخ محفوظ ہوگی بلکہ تحقیق کا دائرہ بھی وسیع کیا جاسکتاہے۔ یونیورسٹی سے اس طرح کے سرگرمیوں کی اپیل ہے تاکہ نئی نسل ہماری تاریخ سے روشناس ہوسکیں۔

uter ishkoman

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button