کالمز

غیر مقامی گورنر کی طاقت

غیر مقامی گورنر کی تقرری کے معاملے پر آل پارٹیز کانفرنس منعقد کرنے والی پی پی پی کے صوبائی صدر مہدی شاہ کو یاد ہو یا نہ ہو ہم نے قطرہ قطرہ کے ذریعے ان کے دور اقتدار میں ان سے گزارش کی تھی گورننس آڈر

israr2009 میں بنیادی کمزوری یہ ہے کہ اس میں ترمیم کا اختیار گلگت بلتستان کی منتخب اسمبلی کو حا صل نہیں ہے لہذا اختیارات کا منبع یعنی گورننس آڈر میں ترمیم کا اختیار گلگت بلتستان اسمبلی کو دلانے کے لئے ایوان صدر میں برا جمان آصف زرداری سے مطالبہ کیا جائے ۔ مگر چونکہ اس وقت مہدی شاہ صاحب اقتدار کے نشے میں مست تھے اس لئے انہوں نے اس وقت یہاں تک کہہ دیا تھا کہ جو حقوق گلگت بلتستان کے عوام کو چاہئے تھے وہ پی پی پی کی حکومت نے دے دئیے ہیں اس سے زیادہ حقوق ممکن نہیں ہیں اور قوم پرستوں کے مطالبات بھی اس نظام کے تحت پورے ہوئے ہیں اب یہا ں قوم پرست تنظیموں کا وجود ختم ہو گیا ہے۔ ہم ہمیشہ اپنی تحریروں کے ذریعے ان کو بتاتے رہے کہ جناب اس نظام میں بہت کمزوریاں ہیں ان کو دور کئے بغیر ہم بااختیار ہونے کا ڈھنڈورا نہیں پیٹ سکتے ہیں مگر ان کو اس وقت ہماری باتیں سمجھ نہیں آئیں اور آج جب مشکل وقت آگیا تو انہوں نے حقوق کا راگ الاپنا شروع کردیا ہے ۔ ہم اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیں کہ مہدی شاہ صاحب نے اقتدار کے آخری دنوں میں ہی حقوق کی کہانی بنا ڈالی تھی جو کہ ان کو اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں نہیں سو جھی تھی۔ پی پی پی کی گلگت بلتستان میں دلچسپی سے انکار نہیں کیا جا سکتا مگر اس پارٹی کی یہ بیماری ہے کہ اس کو اپنے اقتدار کے دور میں سب اچھا کہنے کی بری عادت ہے اور اقتدار کے جاتے ہی یہ قوم پرستوں کی صف میں جا کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ جو رویہ پی پی پی کا آج دیکھنے کو مل رہا ہے یہ اگر ان کا اپنے اقتدار کے زمانے میں ہوتا تو آج صورتحال مختلف ہوتی کیونکہ اس وقت نہ صرف مرکز میں وزیر اعظم ان کا تھا بلکہ صدر مملکت ان کی جماعت کا سربراہ تھا۔ جبکہ سینٹ اور قومی اسمبلی میں ان کی اکثر یت تھی۔ مگر افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس وقت یہا ں پی پی پی کی صوبائی قیادت نے اسلام آباد سے جو بھی ملا اس کو من و عن قبول کیا اور اس کی تعر یفوں میں زمین آسمان کے قلابے ملا دئیے۔

جہاں تک غیر مقامی گورنر کی تقرری کی بات ہے اس کی روایت یقیناًپی پی پی نے ڈالی تھی مگر ساتھ ساتھ گورننس آڈر کے اندر اس بات کا ذکر بھی کردیا تھا کہ عبوری طور پر وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان علاقے کے گورنر ہونگے اور آئندہ جو بھی مستقل گور نر ہو گا وہ مقامی شخص ہوگا۔ اس دوران یہ زیادہ بہتر ہوتا کہ عبوری گورنر بھی مقامی ہی بنایا جاتا۔ چونکہ جمہوریت میں روایات کی بڑی اہمیت ہوتی ہے جو روایت ایک دفعہ پڑ جاتی ہے وہ آئندہ آسانی سے جان نہیں چھوڈتی ہے۔ چنانچہ(ن) لیگ کو اس روایت سے شہ ملی اور انہوں نے وہ کردیا جس کا خطرہ تھا۔ ویسے بھی گورننس آرڈر کو کوئی آئینی تحفظ حاصل نہیں ہے اس لئے اس کو روندنا کوئی انوکھی بات نہیں ہے اور اس آڈر کی یہی بنیادی کمزوری آج بھی اس کو ہمارے لئے غیر اہم بنا دیتی ہے یعنی وفاق جب چاہے اس میں کوئی بھی ترمیم اور تشریح کر سکتی ہے اور گذشتہ دنوں نگران حکومت کے حوالے سے دو سے زائد ترامیم گلگت بلتستان کے عوام سے پوچھے بغیر کردیے گئے ہیں ۔اگر اسآرڈر میں ترمیم کا اختیا ر گلگت بلتستان اسمبلی کے پاس ہوتا تو آج وفاق من مانی نہیں کر سکتا تھا۔گویا پی پی پی کی مر ہون منت جی بی کے عوام اس وقت کی غلطی کا خمیازہ آج بھگت رہے ہیں لہذا آج پی پی پی کو شور مچانا زیب نہیں دیتا۔

جہاں تک گورنر کی تقرری کی بات ہے اس حوالے سے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ پیر سید کرم علی شاہ مقا می گورنر کی حیثیت سے جب گورنر ہاوس میں تعینات تھے تو اس وقت بھی وہ وزرات امور کشمیر کے ماتحت تھے اور ہر کام کے لئے ان کے در پہ حاضری دیتے تھے ایسے میں اگر وزیر امور کشمیر خود گورنر بن بیٹھے ہیں تو وہ یقیناًسید کرم علی شاہ سے زیادہ با اختیار گورنر ہونگے۔ جب مقامی وزیر اعلیٰ اور گورنر کے ہوتے ہوئے بھی ان کے آقا وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان ہوتے ہیں تو کیوں نہ ان سے ہی کہا جائے کہ وہ براہ راست تمام عہدے اپنے پاس رکھ کر ان کا بھر پوراستعمال کر یں۔ اب تو برجیس طاہر نے ہفتے میں دو دن گلگت میں گزارنے کا عندیہ دیا ہے اس سے گورنر ہاوس کی رونقیں نہ صرف بڑھ جائیں گی بلکہ گورنر ہاوس طاقت کا مرکز بن جائے گا اور وہاں سے نکلنے والے احکامات پر من وعن عملدرآمد ہوگا۔ جمہوری روایات اور (ن) لیگ کی مخالف جماعتوں کو اس سے انتخابات میں کتنا نقصان اٹھانا پڑتا ے اس سے قطع نظر اب آئندہ ہمیں وزارت امور کشمیر کے اختیارات ہسپتال روڈگلگت میں واقع گورنر ہاوس میں دستیاب ہونگے۔ ہم کسی مقامی یا غیر مقامی کے چکر سے نکل کر دیکھیں تو نظام وہ ہی ہے جو آج سے 68 سال قبل تھا فرق صرف اتنا ہے کہ ہماری جدوجہد اور سیاسی شعور کی بدولت اب ہمارے اصل حکمران وزیر امور کشمیر و گلگت بلتستان برجیس طاہر آئندہ ہفتے میں دو دن گلگت بلتستان میں گزاریں گے جو کہ گزشتہ 68 سالوں میں واحد تبدیلی ہے۔ باقی گذشتہ ساری تبدیلیاں محض نماشی تھیں جن سے چند افراد نے فائدہ اٹھایا ہے عوام کو ان سے کوئی فائدہ نہیں ملا ہے ۔اب وہی لوگ عوام کو یہ کہہ کر بیوقوف بنا رہے ہیں ان کے حقوق غصب ہو رہے ہیں۔ حالانکہ عوام کو نہ پہلے حقوق میسر تھے اور نہ اب ہیں جو کچھ ہوا ہے وہ مراعات یافتہ طبقے کی آپس کی جنگ ہے اس سے عوام کو کوئی غرض نہیں ہے۔ اگر کسی کو عوام سے دلچسپی ہو تو وہ عوام کی خاطر اپنے اقتدار کو ٹھکرا دے اور عوم کی صف میں کھڑا ہو جائے تب مانا جائے گا کہ ان کو عوم کی فکر ہے۔ میٹھا میٹھا ہب ہب کڑوا کڑوا تھو تھو اب نہیں چلے گا اس لئے عوام آج مراعات یافتہ طبقے کی آپس کی جنگ کا حصہ بننے کے لئے تیار نہیں ہیں اور پی پی پی کی کال پر گزشتہ دنوں عوام نے غیر مقامی گورنر کے خلاف سڑکو ں پر نکلنے سے نکا ر کر دیا۔ کیوں کہ عوام جان چکے ہیں کہ گورنر مقامی ہو یا غیر مقامی نظام وہی ہے جو عوام دشمنی پر مبنی ہے اس سے عوام کو نہ کل فائدہ ملا تھا اور نہ آج مل رہا ہے۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button