کالمز

اپنے زمانے کا عظیم مسیحا عبد الرحیم ڈاکٹھار

تحریر : شمس الحق قمر ؔ بونی حال گلگت

میں گزشتہ چالیس سالوں سے حاجی عبدالرحیم بابا کو جانتا ہوں گاؤں میں دو ناموں سے مشہور ہیں ’’ بابو عبدالرحیم اور عبد الرحیم ڈکٹھار‘‘ بعد میں حج کی سعات حاصل کرنے کے بعد آپ کو حاجی عبد الرحیم کے نام سے یا د کیا جاتا ہے تاہم ہم لوگ حاجی بابا کہتے ہیں ۔میری ملاقات پہلی دفعہ اُس وقت ہوئی جب تیز دھار والے تیشے سے کھیلتے ہوئے میرے داہنے ہاتھ کی آخری انگلی تن سے جدا ہوئی ، مجھے جب ہسپتال پہنچایا گیا تو وہاں صرف تین لوگ موجود تھے اُن میں سے ایک نے دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ’’ غازی اپ اسپرٹ سے انگلی کا زخم والا حصہ صاف کرو اور بُلی بھائی ! ٓپ بچے کے زخموں کے آس پاس چار جگہوں پر انجکشن لگاؤ ‘‘ یہ انجکشن لگانے کے احکامات جاری کرنے والا شخص سیڈول قد کاٹھ ، بھرا ہوا سینہ ، موٹے مگر سیاہ مائل ہونٹ، مخمور آنکھیں لیکن چاروں اطراف میں سورج کی ہلکی سی شعاعوں کی مانند لکیروں سے مزئین حلقے ، قدرے لمبی ناک مگر ابھرے ہوئے گالوں پر مناسب نقشہ یہی کوئی پینتالیس سال کا خوبرو نوجوان اُس زمانے کا عبد الرحیم ڈاکٹھار کے نام سے مشہور تھا جوکہ اُس زمانے کا مسیحا تھا ۔ میری اُنگلی کا اوپر والا حصہ ٹوٹ کے بالکل الگ ہو چکا تھا عبد لرحیم ڈاکٹھار نے کچھ اس مہارت سے مری اُنگلی کی پیوند کاری کی کہ شاید اب پلاسٹک سرجری سے بھی ممکن نہ ہو ۔ قدرت نے آپ کے ہاتھ میں بلا کی شفا رکھی تھی ۔ عبدلرحیم ڈاکٹھار کے پاس بہت ہی دور دراز علاقوں سے ہر قسم کے مریض آتے اور شفایاب ہو کے چلے جاتے ۔ عبد الرحٰیم ڈاکھٹار کو قدرت نے گویا اسی کام کے واسطے پیدا کیا تھا اُ س کے لئے دن کوئی معنی رکھتا تھا نہ رات، اپنے بال بچوں کی پروا تھی نہ گھرہستی کی خبر ، نہ اُس سے وقت لینا پڑتاتھا نہ فیس دینے کی فکر تھی کوئی بھی مریض بلا تفریقِ نسل، عمر، جنس، علاقہ اور زبان کے کسی بھی موسم میں اور دن کے چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی وقت آپ کے پاس آتے اور تسلی بخش شفا پاکے چلے جاتے ۔ اپنے پیشے کو عین عبادت کے طور پر کرتے تھے۔ میں سوچتا ہوں کہ اُس دور میں قابل صد احترام حاجی بابا اگر فیس لیتے تو چترال میں ظاہری دولت کے اعتبار سے آپ سب سے امیر ترین شخص ہوتے ۔

Doctor babaمزے کی بات یہ ہے کہ پچھلے سال گرمیوں کی چھٹیوں میں جب میں چترال گیا تو محترم حاجی صاحب سے ملاقات کی سعادت نصیب ہوئی ۔ حاجی بابا گوشہ نشین ہیں، جسمانی شکست ریخت سے خندہ پیشانی کے ساتھ نبرد آزما ہو رہے ہیں لیکن اُس کے اندر رہنے والے عبد الرحیم نے اپنی زندگی کے حالیہ لمحات کے لئے دولت اور آخرت کے لئے ذاد راہ حقوق العباد کی شکل میں خوب کمائی ہے آپ کے جاننے والوں میں سے کون ایسا ہو سکتا ہے کہ جس کے ہاتھ ہر نماز کے بعد حاجی بابا کی خوش و خرم اور ہشاش ز ندگی کے حق میں نہ اُٹھیں ۔ میں حاجی بابا کو ملنے گیا تھا میری ملاقات ہو بھی چکی تھی تاہم میں ماضی کے دھندلکوں میں گم سم کچھ اسی سوچ میں تھا کہ آخر زندگی کتنی بے وفا ہے کہ مسیحاؤں کو بھی اپنے دستوری دامن میں نچاتی ہے؟ایک ایسا انسان جو کہ سب کی بگڑی صحت کو سنوارنے کا ضامن تھا آج خود لاٹھی کے سہارے بمشکل نیم استادہ ہوتا ہے۔ میں نے یکایک محسوس کیا کہ کوئی چھڑی کو میرے پیٹ میں از راہ تفنن گھونپ رہا ہے ، میں چونک پڑا تو حاجی بابا اپنے مخصوص انداز میں حلق کے اندر سے ایک کھرج دار آوا نکال کر ایک ایسی ہنسی ہنسا کہ میرے پاس ہوش میںآنے کے علاوہ کوئی اور چارہ کار نہیں تھا ۔ مجھے اب بھی ڈر تھا کہ حاجی بابا کہیں مجھے انجکشن نہ لگادے کیوں کہ ہمارے بچپن کے زمانے میں حاجی بابا انجکشن کے حوالے سے اتنے مشہور تھے کہ گھر میں کوئی بچہ بلا وجہ تنگ کرے تو ماں باپ آپ ہی کا نام لے لے کر ہمیں ڈریا کرتے تھے۔ میرے سامنے ایک پیالی میں چائے پڑی تھی حاجی بابا نے مجھے چائے پینے کا حکم صادر فرمایا ۔ چائے کے ساتھ میں نے بابا کو ہاتھوں ہاتھ لیا اور پہلا سوال وہی جھاڑ دیا جو میں اکثر سوچتا رہتا تھا کہ یہ بندہ اگر اپنے کام کے عوض آجکل کے ڈاکٹروں کی طرح فیس لیتا تو کتنا امیر شخص بن جاتا ؟ میرا سوال غالباً غیر معقول تھا ، حاجی بابا قہقہے لگا کر ہنستے رہے اور ادھر میں شرم سے پانی پانی ہوتا رہا ۔۔۔ تھوڑی سی توقف کے بعد حاجی بابااپنی میخ دار لاٹھی سامنے زمین پر گھونپ دی ، دونوں ہاتھ لاٹھی کے اوپر مضبوط کرنے کے بعد اپنی ٹھوڑی لاٹھی کے دستے پر پیوست کرکے جوات دیا کہ ’’ بات آپ کی بجاہے لیکن اُس وقت میری یہ سوج بالکل نہیں تھی کہ دنیاوی دولت کمانا بھی کوئی معنی رکھتا ہے بس خیال ہی نہیں رہا دوسری بات یہ ہے کہ اچھا زمانہ تھا ہم اپنے کام کے ساتھ کام رکھتے تھے پیسے سے زیادہ کام کی اہمیت تھی ۔ لیکن اجکل عجیب سا زمانہ آگیا ہے لوگ ہر کام کے عوض پیسہ لیتے ہیں ۔ مجھے یہ دیکھ کر عجیب لگتا ہے کہ اجکل کے سکولوں کے اساتذہ بھی کسی بچے کو اضافی وقت دیکر اُجرت لیتے ہیں ۔ اجکل کوئی بھی پیشہ پیسے کے علاوہ محض بیگار ہے لیکن ہم لوگ پیسے کے علاوہ کام کرکے اپنے پیشے کے ساتھ انصاف سمجھتے تھے۔ حاجی بابا مجھے یہی کچھ سمجھانے کے بعد کسی سوچ وادی میں چلا گیا ۔ میں سوچنے لگا کہ حاجی بابا کا بچپن کیسا گزرا ہوگا ۔ میرا خیال ہے کہ قارئین کرام بھی یہی کچھ سوچ رہے ہوں گے 

کہ عبدل الرحیم ڈاکٹھار کے بچپن کے حالات کیسے تھے کہاں سے پڑھا وغیرہ وغیرہ ۔۔ 

چلوجناب میں حاجی بابا کا بچپن بھی آپ کی نذر کر رہا ہوں ۔ حاجی بابا سے میں نے پوچھنے کا ہلکا پھلکا انداز روا رکھا۔ حاجی بابا سے جب میں نے اس کی تاریخ پیدائش پوچھی تو آپ نے اپنی شادی کے دن سے ابجد نکال کر مجھے اپنی پیدائش کی تاریخ بتا دی ۔ فرمانے لگے کے کہ ’’ تتے کیو لوؤ دوم ہتے زمانہ بو خور اوشوئے مہ خیال بویان اوا جوش سالہ اوشوتام کوشٹہ محمد بیگے خاندانہ مہ اژغالداری ہوئی‘‘ اس حساب سے حاجی بابا کی شادی 1936 میں ہوئی تھی اور آپ اپنی تاریخ پیدائش 1926أ ؁ ء بتاتے ہیں ابھی تک زندگی کی شاندار98 بہاریں دیکھ چکے ہیں ۔بنیادی تعلیم اپنیگھر ہی سے حاصل کی تھی تاہم گاؤں میں تعلم کا خاطر خواہ انتظام نہیں تھا لہذا حاجی بابا کو چترال شہر جانا پڑا 1942 ؁ ء میں پرائمری سکول چترال کو میڈل کا درجہ دیا گیا تھا ۔ اُس وقت کے حاجی بابا کے اساتذہ میں جن جن کے اسمائے گرامی آپ کو یاد ہیں اُن میں سے عبد المنان کوغوزی برینس سے فارسی کا ایک استاد نام یاد نہیں البتہ فارسی کے فاصل نام سے مشہور تھے، قابل ذکر ہیں۔یوں آپ کے مطابق 1944 ؁ ء کو آپ نے میڈل پاس کیا جو چترال میں تعلیم کا آخری درجہ تھا جبکہ پہلے بیچ کے میڈل پاس طلبأ میںآوی بونی سے کائے کاوس لال، چرون اویر سے حاصل پناہ ، لوٹ کوہ گرم چشمہ سے عبدول مراد ،کمانڈر دنین کا فرزند حاجی شامل ہیں جوکہ چترال کے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ تھے۔ محترم حاجی بابا کی ملازمت کی کہانی بھی دلچسپ ہے ۔ آپ کے مطابق آپ کے آباو اجداد کی جائیداد ناکردہ گناہوں کی پاداش میں بحق سرکار ضبط تھی ۔ حاجی بابا میڈل پاس کرنے کے بعد 1947 ؁ء یعنی پاکستان بننے تک مہتر چترال ہیز ہائنس مظفر الملک کے دربار میں درخواست گزاری کرتے رہے اُس زمانے میں درخواست گزاری کا طریقہ کار یہ تھا کہ قلعے میں ایک شکایتی صندوق اویزاں ہوا کرتا تھا اور درخواست گزار اپنی درخواست لکھ کے اس صندوق میں ڈالا کرتے تھے ایسی درخواستوں پر خال خال عمل درامد کی نوبت آیا کرتی ۔ حاجی بابا ہر ہفتے ایک درخواست اُس صدوق میں ڈالا کرتے تھے درخواستوں کا یہ پلندہ مہتر چترال کے سیکریٹری کی نظروں سے ہفتے میں ایک دفعہ گزرتا گویا ہر سات دن بعد حاجی بابا کی لکھی ہوئی درخواست مہتر چترال کی نظروں میں آتی اور چلی جاتی ۔ حاجی بابا کی اس درخواست گزاری سے جائیداد کی واپسی پر اگرچہ وقتی طور پر عمل نہیں ہوا تاہم اس کا ایک بڑا فائدہ یہ ہوا کہ چترال ہسپتال میں ڈسپنسر کی ایک پوسٹ جب آئی تو تعلیم یافتہ لوگوں کی تلاش شروع ہوئی ۔ یہاں حاجی بابا کی در خواست نوسی گویا اُس کی تعلیم کا ذاتی حوالہ بن گیا۔حاجی بابا درخواست اعلیٰ علمی ذوق کے ساتھ سنجیدہ اور بڑے مہذب انداز سے لکھا کرتا تھا ۔ میتار چترال نے کئی بار اپنے سیکرٹری سے اس قابل درخواست گزار کی علمی پختگی کے حوالے سے استفسار کر چکا تھا اور غالباً اس خواہش کا اظہار بھی کرچکا تھا تھا لڑکا قابل ہے اُس کی جائیداد قصہ الگ بات ہے تاہم اسے کوئی ملازمت ضرور دینی چاہئے ۔ ۔ لہذا ڈسپنسر کی آسامی آنے پر مہتر چترال کے سیکریٹری نے فوری طور پر حاجی بابا کو بلایا اور اپوائنمنٹ لیٹر آپ کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ اُس وقت سول ہسپتال کا ڈاکٹر قریشی صاحب تھے اُس نے انٹرویو کے طور پر ذاتی حال احوال پوچھااور یوں ملازمت کا آغاز ہوا ۔ یہ قصہ تھا 1948 ؁ ء کا 1951 ؁ ء کو صاحب موصوف کی ملازمت چترال سکاوٹ میں منتقل ہوئی ، اُس زمانے میں بونی میں ریاست کا ایک ڈسپنسری ہسپتال ہوا کرتا تھا جو 1966 ؁ ء کو سرکار کی تحویل میں چلا گیا اُسی زمانے میں صاحب موصوف نے ڈسپنسری بونی کے لئے درخواست دی جو کہ ضرورت کی بنیاد پر فوری طورپر منظور ہوئی اور عبد الرحیم بابا کی شاندار خدمات بالائی چترال منتقل ہوئیں ۔ یہاں میں نے حاجی بابا کے پیشے سے تھوڑا سا ہٹ کر سوال کیا کہ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے وہ یہی کوئی 40 سالوں تک محیط ہے میں نے اپنی عمر میں بہت ساری تبدیلیاں دیکھی ہیں آپ تو ہمارے بزرگ ہیں آپ کی عمر اور زندگی کا تجربہ بے حد عمیق ہے آپ کو کیا کیا انوکھی باتیں نظر آتی ہیں؟ چونکہ یہ ساری باتیں میں انٹر ویو کے انداز میں نہیں کر رہا تھا بلکہ عام اور بے تکلف انداز سے ہم دونوں محوِ سُخن تھے ، حاجی بابا میرے سوال پر معنی خیز انداز میں تبسم فرمایا اور گویا ماضی کے خوابیدہ تاروں کواپنی پُر مسرت مسکراہٹ سے جھنجھوڑ دیا ’’ کیاکیا دیکھا کا سوال سطحیٰ ہے سوال یہ ہے کہ میں نے کیا کیا نہیں دیکھا ‘‘ آپ نے سب سے پہلی اور مثبت تبدیلی چترال کے مختلف علاقوں میں سکول بنانے میں علاقے کے مختلف شخصیات کا ذکر کرتے ہوئے کوشٹ میڈل سکول کو ہائی سکول بنانے کے سلسلے میں علاقے کی نامورشخصیت شرف الدین المعروف موردیرو لفٹں کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ اُس زمانے میں تعلیم کی طرف لوگوں کی توجہ دلانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا اجکل تعلیم کی بات کرنا زمانے کا عین تقاضا ہے لیکن اُس زمانے میں تعلیم کے لئے قربانی دینا معنی خیز امر تھا ۔ لفٹن موردیر (مرحوم) اپنی جان اور اپنا مال داؤ پر لگا کر کوشت سکول کو ہائی سکول بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا یہ ہمار ے علاقے میں بہت بڑی تبدیلی تھی صاحبِ موصوف نے دوسری اہم تبدیلی جو دیکھی وہ چترال کے کسی سپوت کا ڈاکٹر بننا تھا محترم سردار الملک چترال سے ڈاکٹر بننے ولا پہلا چترالی تھا جو کہ ترقی کی جانب ایک زینے کی مثال تھی پھر یکے بعد دیگرے سکول بنتے گئے جس وجہ سے آج ہم ایک تعلیم یافتہ معاشرے میں رہ رہے ہیں یہ ایک بڑی تبدیلی تھی ۔ چترال مستوج سڑک کی تعمیر اور چترال میں جیب کی آمد بھی کسی معجزے سے کم واقعہ نہ تھا ۔ موصوف نے ایک پل کی توقف کے بعد مسکراتے ہوئے فرمانے لگے کہ مرحوم شیرعلی بونی کی والدہ ( مرحومہ) پہلی بار جیب دیکھ کر بولا تھا کہ یہ کھاتی کیا ہے؟ ۔ 1958 ؁ ء میں یارخون لشٹ میں ڈسپنسری کے قیا م نے تحلکہ برپا کیا یہ بہت بڑی بات تھی۔ 

لوگوں کے پاس پیسہ نہیں تھا اُس وقت حاجی بابا کی تنخواہ مبلغ پچاس روپے تھی جبکہ اُس زمانے میں حاجی بابا نے بروغیل سے ایک بہت ہی قد آور بیل خریدا جس کی قیمت ضرف پچپن روپے تھی ۔ میں نے کہا کہ’’ بابا اجکل کی تبدیلی کے بارے میں کیا خیال ہے ؟ ریڈیو آیا ، ٹی وی آیا، ٹیلی فون آیا، اجکل موبائل اور کمپوٹر کا زمانہ ہے آپ کو کیسا معلوم ہوتا ہے ‘‘ فرمانے لگے ’’یہ تبدیلی نہیں ہے بیٹا یہ قیامت کی نشانیاں ہیں ‘‘ حاجی بابا اپنی گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے کہ اُس زمانے میں ایک اور عجوبہ ہوا وہ یوں کہ صاحب موصوف کو کسی مریض کے ساتھ پشاور جانا پڑا واپسی پر مصنوعی کھاد کی ایک بوری ہاتھ لگی اُس زمانے میں بیس روپے کی بوری کھاد مہنگا سودا تھا بہر حال شوق کی کوئی قیمت نہیں ہوتی لہذا حاجی بابا نے یہ بوری خرید کر آخر کار گھر پہنچا ہی دیا ۔ یہ غالباًجولائی کا آخری ہفتہ تھا چاول کی کاشت ابھی ہوئی تھی یہ کھاد جب ڈال دی گئی تو کچھ ہی دنوں بعد چاول کی فصل اتنی زرخیز ہوئی کہ د یکھنے والوں کی لمبی قطار لگ گئی گاؤ ں کے لوگوں کا اس تماشے سے لطف اندوز ہونا اتنی اچنبھے کی بات نہیں تھی مزے کی بات یہ ہوئی کہ مضافات سے بھی لوگ آتے رہے علاقے کی نامور شحصیت بلبل تاج لال المعروف میتار باک میکی ( مرحوم ) نے عبد الرحیم ڈاکھتار کو ڈانتے ہوئے کہا کہ ’’ بس کورے لہ برار افار کیہ بلاہ الاو ہو لوڑیکو بچے بونی مینوؤ مولتو بغائے مہ دوری ہار بوتہ سوت شونو اسونی اوچے اسونی ‘‘ حیرت کی بات یہ ہے کہ آج کوئی بھی نئی چیز نئی نسل کو نئی معلوم نہیں ہوتی یہ سب میرے لئے عجیب ہیں ۔ آج کے انسان کے اندر احساسات کا شدید فقدان ہے افسوس ناک بات یہ ہے کہ انسانوں کی آبادی تو بڑھ گئی لیکن سماجی اقدار خٹم ہوئیں ، چھوٹے بڑوں کی قدر کرتے تھے اپنے سے بڑوں کو پہلے سلام کیا جاتا تھا ، چلتے ہوئے بڑے کو آگے رکھا جاتا تھا ، چھوٹے بڑوں کی دست بوسی کرتے تھے ، لوگ ایک دوسرے کے گھروں میں جاتے تھے ایک دوسرے کے غم کو بانٹتے تھے لیکن صد افسوس کہ آج وہ زمانہ محض خواب نظر آتا ہے ۔ میں نے آخری سوال دل میں ہمشہ زندہ اور کھٹکتے رہنے والے ایک واقعے کی پس منظرسے پوچھ لیا ۔ واقعہ یہ تھا کہ میرے چھوٹے بھائی کو کسی دفتری کام سے بروغیل جانا ہوا وہاں اتنا بیمار پڑا کہ موت اور زندگی کی آخری کشمش میں گھر پہنچادیا گیا ، اگرچہ ہسپتال بھی پہنچایا جا سکتا تھا لیکن اُن کے ساتھ جو ٹیم گئی تھی اُن کے خیال میں بھائی کو گھر پہنچانا اس لئے بہت ضروری تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ہسپتا پہنچاتے پہنچاتے راستے میں دم توڑدے ۔ سیدھا گھر لے آنے کا فیصلہ اس لئے بھی درست تھا کہ بہن بھائی اور ماں باپ اپنے بچے کاآخری دیدار کر سکیں ۔ میرا بھائی نیم عنودگی کی کیفیت میں تھا ۔ میں فوراً ہسپتا ل کی طرف بھاگا کہ کوئی ڈاکٹر ہاتھ آئے اور میں اُسے فوری طور پر گھر لے آوں ہو سکتا ہے کہ بھائی کو کوئی ایسی دوائی کھلائے کہ وہ سنبھل سکے ۔ مجھے یاد ہے کہ ہم جب بہت چھوٹے تھے توبابو عبد الرحیم ایسے معاملات میں لپک جھپکنے میں حاضر ہوتے تھے ۔ لیکن یہ ایم بی بی ایس ڈاکٹر جس کے پاس میں اپنے بھائی جان کے لئے زندگی کے بھیگ مانگنے گیا تو اُس نے ایک ہی جواب دیا کہ ’’ ہم کسی کے گھر نہیں جاتے ہیں ‘‘ لیکن کہانی کا ایک رخ یہ ہے کہ بابو عبد الرحیم کے زمانے میں میرے تیسرے نمبر کا بھائی شدید بیمار ہوا تو آخری سہارے کے طور پر میرا ایک چچا ڈاکٹھار عبد الرحیم کو بلانے گیا صاحب موصوف دس منٹ کے اندر ہانپتے کانپتے پہنچ گیے بھائی جان کو فوری اانجکشن لگایا اور بھائی کی آنکھیں آہستہ آہستہ وا ہو گئیں۔اُس کے جانے کے بعد میر ے چچا جان نے باقی گھر والوں کو ڈکٹھار عبد الرحیم کی فرض شناسی بتاتے ہوئے کہا کہ جب وہ ڈکٹھارعبد الرحیم کے پاس پہنچے تو وہ نماز مغرب کے لئے وضو کر رہے تھے اور بیماری کے بارے میں سنتے ہی نماز ترک کردی اور مسیحائی کا راستہ لیا ۔ میں نے حاجی بابا سے پوچھا کہ آپ آج سے تیس سال پہلے نماز چھوڑ کے ایک مریض کے علاج کو ترجیح دی تھی کیا آپ نے وہ ساقط نماز دوبارہ دوبارہ ادا کی یا اب تک اپ کے اوپر قرض ہے ؟ حاجی بابا نے خوبصورت جواب دیا ’’ انسان کاحق مشکل ہوتا ہے اللہ بہت بڑا ہے انتا بڑا کہ جس کا کوئی کنارہ نہیں ہے ‘‘ حاجی بابا آپ ہمیشہ خوش رہیں میری دعا ہے کہ میری عمر بھی آپ کو لگے تو ہمارا مسیحا ہے

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button