کالمز

معاہدہ کراچی اور سٹیٹ سبجیکٹ رولز

Hidayat-Ullahاپریل کا مہنہ کشمیر کے حوالے سے بڑا اہم مہنہ ہے دیگر واقعات کے علاوہ اس مہنے میں وعدے وعید اور عہد و پیما کے قصے کہانیاں بھی وقوع پذیر ہوئے ہیں ان میں سے دو اہم دستاویزات ایسے ہیں  جن میں سے ایک دستاویز کشمیر کی وحدت  اور دوسری  پاکستانی زیر انتظام آزاد کشمیر اور جی بی   میں دوری بڑھانے کا موجب بنی ہے ۔۔وحدت سے متعلق جو دستاویز ہے  اسے  مہارجہ ہری سنگھ نے 20  اپریل 1927کو  باشندگان ریاست کا قانون  کے نام سے  نا فذ کیا تھا۔جبکہ  دوسرا معاہدہ وہ ہے جو  کراچی میں  28 اپریل  1949   کوطے پایا اور اسے معاہدہ کراچی کا نام دیا گیا   ۔ اس وقت یہاں ان دو دستاویزات کو وجود میں لانے والے یا ان کا سبب بننے والوں کی تعریف یا تنقید مقصود نہیں بلکہ یہاں یہ  بتانے کی کوشش کی جائیگی کہ یہ دستاویزات  گلگت بلتستان کے حوالے سے کتنی اہمیت  کے حامل ہیں  اور  ان کی موجودگی یا غیر موجودگی سے ریاست کشمیر کے مسلے مین کیا اثرات مرتب ہونگے یا ہو سکتے ہیں ۔۔ ۔خاص کر گلگت بلتستان کے حوالے سے ان دو دساتاویزات   سٹیٹ سبجیکٹ رولز  اور معاہدہ کراچی گلگت بلتستان کی آئنی حقوق  کے لحاظ سے بڑی اہم دستاویزات تصور کی جاتی ہیں  اور غالباً اس وقت گلگت بلتستان کی آئنی حقوق کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی یہی دو دستاویزات ہی  ہیں  بلکہ میں تو یہی کہونگا کہ  ریاست کا یہ خطہ نہ ادھر کا اور نہ ادھر کا  ان ہی دستاویزات کی بنا پر ہے جس کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ گلگت بلتستان میں موجودہ حالات میں یہی دو بڑے سیاسی ایشو بن گئے ہیں  یعنی سٹیٹ سبجیکٹ کی بحالی اور معاہدہ کراچی کی منسوخی۔ ۔ آزاد کشمیر میں ایس ایس آرلاگو ہے  جبکہ گلگت بلتستان میں یہ قوانین  بھٹو دور میں   معطل  کئے گئے  ۔۔ان قوانین کا یہاں معطل ہونا جبکہ ریاست کے باقی حصوں  میں اس قانون کا اطلاق ہم سمجھتے ہیں کہ  ریاست کے اس خطے گلگت بلتستان کے ساتھ   بڑی زیادتی ہے۔دوسری بات اس قانون  کو اس خطے میں معطل کرنا شائد اس  واقعہ کی روشنی میں ہو  جب ستر کی دہائی میں  یہاں ایک  تحریک اٹھی تھی جس کے نتیجے میں ایک مقامی تنظیم وجود میں آئی تھی جسے تنظیم ملت کا نام دیا گیا تھا جس کا تزکرہ میں  پہلے ہی اور تنظیم ملت ٹوٹ گئی  کالم میں کر چکا ہوں  ۔ میری معلومات کے مطابق  سٹیٹ سبجیکٹ رولز کے خاتمہ یا معطل کرنے کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اس وقت کی  مذہبی جماعتوں کی لیڈر شپ کو بھی اعتماد میں لیا گیا تھا  ورنہ یہ قانون  اتنی جلدی معطل کیسے ہو سکتا تھا  میں جب بھی  اس حوالے سے کالم لکھتا ہوں تو مجھے جناب عاقل خان صاحب   جو تحصلدار ریٹائرڈ تھے اور دوسرے جناب غلام محمد غون  کشروٹ  والے بڑے یاد آتے ہیں  ان دو اشخاص نے  سٹیٹ سبجیکٹ رولز  کے معطلی کی  بڑے بھرپور اور شدت سے مخالفت کی تھی ۔ غلام محمد غون  صاحب تو  ہر وقت ہر محفل میں جلسوں میں کہا کرتے تھے کہ گلگیتیو اپنے پائوں  آپ کلہاڑی مت چلائو یہ ایس ایس آر ہمارا محافظ ہے  لیکن  ان حضرات کی نہ سنی گئی اور ہوا وہی جو بڑے چاہتے تھے۔ آج گلگت بلتستان میں ان دو واقعات  کو لئے بڑی بحث ہے کہ معاہدہ کراچی  یہاں کے لوگوں کی مرضی شامل کئے بغیر عمل میں لایا گیا  تھا۔ ۔میں اپنے ان  سیساستدان بھائیوں سے پوچھتا ہوں  کہ  1947 میں ہم نے کتنی سیاسی سمجھ بوجھ کا مظاہرہ کیا اور پھر  1949 میں ہماری کونسی قیادت ایسی تھی جو    معاہدہ کراچی  میں نمائندگی کرتی  کیا اس وقت یہ خطے کشمیر سے الگ تھے جو  اس معاہدے کے فریق بنتے جس کا جواب نفی میں ہے اس وقت یہ خطہ آزاد کشمیر کا ایک یونٹ تھا اور مسلم کانفرنس  کی قیادت  اس  خطے میں کشمیر کی نمائندہ جماعت تھی  اسی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو  اس وقت کی  آزاد کشمیر اور پاکستانی حکومت  کے مابین یہ معاہدہ عمل میں آیا  یوں یہ  خطہ پاکستانی کنٹرول میں چلا گیا ۔۔اب اس کے نتائج  اچھے یا بُرے  اس پہ  توجہ کی ضرورت ہے۔۔۔۔ سٹیٹ سبجیکٹ رولز کی معطلی کے باعث یہاں کے لوگ ہر اس مراعات سے محروم ہوگئے جواس قانون کی موجودگی میں یہاں کے باشنگان کو حاصل تھے ۔اس کا اندازہ   ستردھائی کے لوگ بخوبی لگا سکتے ہیں یا اس کا موازانہ  آزاد کشمیر سے با آسانی کیا جاسکتا ہے ۔  وہاں اس وقت سوائے رینٹل آفسران کے کوئی غیر ریاستی باشندہ  اس قانون کے تحت وہ مراعات حاصل نہیں کر سکتا جو ریاستی باشندوں کو حاصل ہیں یہاں ان باتوں کی  تفصیل کالم کو طول دینے کے مترادف ہوگی  اس لئے اسی پہ اکتفا بہتر ہے ۔۔اب آئیں معاہدہ کراچی اس معاہدے کی رو سے  یہ خطہ  27 اپریل 1949 تک براراست ریاست جموں کشمیر  کے ساتھ رہے اور 28 اپریل 1949 سے  معاہدے کے تحت پاکستانی  زیرانتظام کشمیر شمالی علاقہ جات اور اب گلگت بلتستان کہلاتے ہیں ۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ ریاستی تشخص اب بھی اس خطے کی اسی طرح ہی ہے جیسے پہلے تھی چاہئے آپ اس خطے کو جو نام دیں ۔۔  یہاں میں  سعید آسی صاحب کے کالم گلگت بلتستان اور آئینی پھندہ کا حوالہ اور اس کالم کے چند اقتباسات  درج کرنا چاہونگا جس سے قارئین کو اندازہ ہو جائیگا کہ  گلگت بلتستان کا یہ خطہ کن زنجیروں سے بندھا ہوا ہے اور یہاں کے باسیوں کو  کس طرح سے ہانکا جا رہا ہے  وہ اپنے کالم میں رقم طراز ہیں ۔۔مجھے تو گلگت بلتستان کی ملک کے نئے صوبے کی حیثیت سے تشکیل پر ہی اعتراض تھا جس کا اظہار میں نے انہی سطور پر اپنے ایک کالم میں کیا تھا کیونکہ سابق حکمران پیپلز پارٹی نے یہ انتظامی اقدام آئین کی دفعہ 239 کے قطعاً منافی اٹھایا تھا جس کی شق (4) اس امر کا پابند بناتی ہے کہ کسی صوبے کی حدود میں تبدیلی (اس کے اندر سے نئے صوبے کی تشکیل) کے لئے قومی اسمبلی میں اس وقت تک آئینی ترمیمی بل پیش نہیں کیا جا سکتا جب تک متعلقہ صوبائی اسمبلی دو تہائی اکثریت سے اس کے لئے قرارداد منظور نہ کرے۔ گلگت بلتستان چونکہ وفاق کے زیر کنٹرول علاقے میں شامل ہے، جس کا الگ پس منظر ہے اور آگے چل کر میں اس پر بحث کروں گا، آئین میں ایسی کوئی شق موجود نہیں جس کے تحت وفاق کے زیر کنٹرول کسی علاقے کو باقاعدہ صوبے کا درجہ دیا جا سکتا ہے اس لئے گلگت بلتستان کو صوبے کے قالب میں ڈھالنا آئین کے بنیادی ڈھانچے کے منافی تھا کیونکہ آئین کا بنیادی ڈھانچہ ایک وفاق اور چار صوبوں پر مشتمل ہے جس میں کوئی نیا صوبہ آئین کی دفعہ 239(4) پر عمل پیرا ہو کر ہی شامل کیا جا سکتا ہو۔ اس واضح آئینی صورت حال میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے گلگت بلتستان کو ملک کے پانچویں صوبے کا درجے دے کر آئین پاکستان کو کند چُھری کے ساتھ ذبح کیا تھا ورنہ کسی نئے صوبے کی تشکیل اتنی آسان ہوتی تو پیپلز پارٹی اپنے اسی دور حکومت میں پنجاب میں سے صوبہ جنوبی پنجاب اور ایم کیو ایم متحدہ سندھ میں سے جناح پور اور خیبر پی کے میں سے ہزارہ صوبہ نکلوانے کا شوق پورا کر چکی ہوتی۔ اسی کالم میں وہ مزید اس پر روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں ۔مجھے گلگت بلتستان کو صوبے کے قالب میں ڈھالنا کشمیر پر پاکستان کے اصولی مؤقف کو خود ہی دفن کرنے کے مترادف نظر آیا تھا کیونکہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلہ کی رو سے شمالی علاقہ جات بشمول گلگت بلتستان وادیٔ کشمیر کا حصہ ہیں جسے پاکستان نے شروع دن ہی سے اپنے اصولی مؤقف کے تحت متنازعہ قرار دے رکھا ہے اور عالمی فورموں پر ہم اس بات کی ہی وکالت کرتے ہیں کہ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کشمیر کے عوام نے خود کرنا ہے جس کے لئے اقوام متحدہ نے کشمیریوں کا استصواب کا حق تسلیم کر رکھا ہے، اس اصولی مؤقف کے تحت ہی آزاد کشمیر کو صوبے کا درجہ نہیں دیا گیا اور اس کی آزاد حیثیت برقرار رکھی گئی ہے جس کا اپنا آئین، اپنے قوانین، اپنی قانون ساز اسمبلی، اپنی سپریم کورٹ اور وزیراعظم کی سربراہی میں اپنی حکومت ہے۔ اس اصولی مؤقف کے تحت ہی ہم مقبوضہ کشمیر کو باضابطہ ریاست کا درجہ دینے کے بھارتی اقدام کو تقسیم ہند کے ایجنڈے اور یو این قراردادوں کے منافی قرار دیتے ہیں اور کشمیریوں کے استصواب کے حق کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اگر ہم نے خود ہی وادیٔ کشمیر کے سپریم کورٹ سے تسلیم شدہ ایک علاقے کو صوبے کا درجہ دے دیا ہے تو کشمیر ایشو پر ہمارے اور بھارت کے مؤقف میں کوئی فرق نہیں رہتا۔ میری دانست کے مطابق سابق حکمران پیپلز پارٹی نے دانستہ طور پر یہ فارمولا لاگو کر کے کہ ’’مقبوضہ کشمیر بھارت کا اور آزاد کشمیر پاکستان کا‘‘ ، کشمیر پر پاکستان کے کلیم سے دستکش ہونے کی سازش کی تھی، ورنہ آئینی، اصولی اور اخلاقی طور پر وادیٔ کشمیر کے کسی علاقے کو پاکستان کے صوبے کا درجہ دینے کا کوئی جواز موجود نہیں۔۔ان حالات کی روشنی میں اور گلگت بلتستان کی جغرافیائی  اہمیت  کو دیکھتے ہوئے  کیا کسی نئے عمرانی  معاہدے کی ضرورت نہیں  میرے خیال میں  موجودہ سیاستدانوں  کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے ۔ سیاسی اور ذاتی مفادات سے بالا تر ہوکر اس خطے کی کشمیر کے ساتھ وابستگی  جو سید امیر کبیر علی ہمدانی کے دور سے چلی آرہی ہے اور اس وقت کی حالت اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان  ایک نئے  عمرانی معاہدہ  کی تشکیل کی طرف قدم بڑھائیں تو وہ سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے  جن کی جی بی کے عوام خواہش رکھتے ہیں  یعنی ایسی صورت میں  یہ دونوں دستاویز سٹیٹ سبجیکٹ رولز نافذ اور معاہدہ کراچی کا خاتمہ ممکن  ہوگا۔۔۔۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button