عجیب شہرت کے نتائج
تحریر: محمدجان رحمت جان
کہاجاتاہے کہ ایک گاؤں میں کسی شخص کے پاس ایک گائے تھی جو عرصے سے نہ دودھ دیتی تھی اور نہ ہی سنبھالی جاتی تھی۔ گھر کے سب لوگ اُس کی اِس بُری عادت سے تنگ آچکے تھے۔ سب گھر والوں نے اُس کو کہی دور کسی قصاب کو بھیجنے کیلئے اپنے والد کو روانہ کردیا۔اُن کے والد گائے لیکر شہر کی طرف نکلے اور منڈی کے قریب پہنچے جہاں لوگوں کا ہجوم اور جانوروں کی بھی کوئی کمی نہ تھی۔ کسی نے بھی اُن کی گائے کی طرف نہ دیکھا اور وہ بہت مایوس ہوئے۔ وہ سوچنے لگے کیوں نہ کسی بیوپاری کی مدد لوں تاکہ گائے جلدی بک جائے اور اِس سے جان بھی چھٹ جائے۔منڈی کے مشہور بیوپاری سے گائے کی لین دین کی بات کی اور بیوپاری گائے لیکر مارکیٹ کی جانب نکلے۔ بیوپاری نے گائے کی اتنی تعریف کی کہ ایک دم لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ وہ زور زرو سے کہنے لگے’’ گائے! شاید دنیا میں کوئی ہو ایسی کہ قد چھوٹا‘ خرچہ کم‘ دودھ چار سے چھے کلو وہ بھی دن میں دو بار‘ ایسی گائے اللہ کی رحمت نہیں توکیاہے‘‘۔ سب لوگ اُس گائے کو خریدنے کیلئے پہل کرنے لگے ایک سے ایک بولی دینے لگا۔ گائے کی قیمت بڑھتی گئی۔ گائے کے مالک کو یقین نہیں آیا کہ ایسا بھی ہوسکتا ہے۔ گائے کی بڑھتی قیمت کو دیکھ کر اُس کی اِس قدر شہرت سے مالک کے دل میں اور بھی لالچ نے جنم لیا۔ بیوپاری کی باتوں کا مالک پر بڑا اثر ہوا اور دیکھتے ہی دیکھتے مالک کو بھی گائے کے اندر وہی خاصیتیں نظر آنے لگی۔ سب لوگ مالک کے پاس آتے گئے مالک کی شان بڑھتی گئی۔ وہ اس خوشی میں گائے کو نہ بھیجنے کی قائل ہوگئے سوچنے لگے کہ ایسے اہم گائے کو نہیں بیچنا چائیے۔ وہ گائے کی اُن تمام خامیوں کو بھول چکے تھے۔ ہجوم کو بے آبرو کرکے مالک اپنی گائے لیکر گھر تشریف فرما ہوئے سب حیران تھے کہ گائے واپس کیوں لیکر آئے؟ مالک نے ایک ایک بات اُن کو بتائی‘ سب پہلے پہل حیران ہوئے پھر آہستہ آہستہ اُس کی باتوں کا قائل ہوتے گئے یہاں تک کہ گائے میں وہ سب خوبیاں نظرآنے لگی۔نفسیاتی اس یقین کی وجہ سے گائے کی قد آوری ہوئی۔ مہینوں بعد پھر وہی پرانی گائے جس سے تنگ آکر مالک نے دریا میں ڈال دیا۔
ہمارے معاشرے کی سیاسی حالات اس کہانی سے زرا بھی مختلف نہیں۔ بیکار قسم کے لوگ اچانک ’’کار‘‘ والے ہوتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے سیاسی حلقوں میں بڑے بڑے نعروں کے ساتھ حاضر ہوجاتے ہیں جن کو دیکھ کر افسردہ سماج اور غربت کے مارے لوگوں کو وہ امید کی کرن نظر آتے ہیں۔ ان کی چال ڈال‘ حرکتیں‘ بولنے کا انداز اور رہن سہن کی اچانک تبدیلی سے ادرگرد کے لوگ بہت متاثر ہوجاتے ہیں اور راتوں رات کی تبدیلی کو دیکھ کر سب لوگ اُسی کو اپنا قائد تسلیم کرلیتے ہیں۔’دو دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات‘کی وجہ وقتی اثر ہے جو ہمارے نفسیات میں شامل ہے۔ ووٹ کے دن ہو یا کوئی اہم موقع ہم چانس(Chance) ضائع کرتے ہیں اور پھر پچھتاوے کی زندگی میں وقت بُگت لیتے ہیں۔ ہمیں اپنے ایمان پر یقین محکم نہیں۔ ہم ہمیشہ دوسروں کے کہنے پر وہ سب کچھ کر ڈالتے ہیں جو خود ہمارے لئے وبال جان کیوں نہ بنے۔ دنیا میں دوسروں کی اشارے سے چلنے والی قوم کبھی ترقی نہیں کرتی ہے۔ ہم اپنے تجربے اور احساس کے باوجود بھی عمل میں کسی اور کا شکار ہوجاتے ہیں۔ اس کمزوری نے ہماری ترقی پر گہرے زخم لگائی ہے جو شاید کبھی ٹھیک ہوجائے۔ دین ہو یا دنیا ہم تقلید کے انتہا پرپہنچے ہیں۔ ہماری اپنی شناخت ختم ہوتی جارہی ہے۔ ہم اتنے حلقوں میں بٹ چکے ہیں کہ اب حامی اور مخالف کا اندازہ مشکل ہوچکا ہے۔ دنیا میں ہر طرح کے حکومتی نظام ازمائے گئے اور ہم ازمودہ نظاموں کے ظلم کا شکار ہونے کے باوجود اسی پر قائم ہیں۔ سورۃ الرعد میں اللہ سبحان تعالی فرماتے ہیں’’ اس کے آگے اور پیچھے اللہ کے رکھوالے رہیں جو اللہ کے حکم سے اُس کی حفاظت کرتے ہیں خدا اُس نعمت کو جو کسی قوم کو حاصل ہے نہیں بدلتا جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔اور جب اللہ کسی قوم کے ساتھ بُرائی کا ارادہ کرتا ہے تو پھر وہ پھرنہیں سکتی اور خدا کے سوا اُن کا کوئی مددگار نہیں ہوتا‘‘(الرعد:۱۱)۔ اس آیت مبارک میں صاف صاف بتایا گیا ہے کہ تبدیلی خود نہیں بلکہ ہماری کوششوں کا نتیجہ ہوتی ہے۔ ہم جیسے محنت کرینگے اللہ تعالیٰ ویسا ہی ہمیں عنایت فرمائیں گے۔
دین و دینا میں ہم تقلیدی زندگی گزارتے ہیں جس کی وجہ سے ہماری سوچ ختم ہوچکی ہے۔ ہم سٹرک یا میدان میں ایک ہجوم جمع ہوتے ہیں ہماری قیادت کوئی بیوپاری کرتا ہے اور وہ جو کہے ہم اُسی کے قائل ہوجاتے ہیں۔ مسجد ومنبر کا بھی یہی حال ہے۔ عالم و فاضل کی کوئی شناخت نہیں بلکہ طاقتور سیاسی لوگوں کی عملداری ہے۔ پڑے لکھے عالم و فاضل علماء کی رسائی نہیں نیم پڑھے لکھے علماء لوگوں کی قیادت پر مامور ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ اور تجزیہ کئے بغیر دھراتے جاتے ہیں جو ہمارے معاشرتی فساد کا ایک سبب ہے۔ سیاسی و دینی قائدین تاریخ کے اُن گوشوں کو روز سٹرکوں پر لاتے ہیں جن کی وجہ سے ہمارے نسلیں تباہ ہوچکی ہے۔ تاریخ سے سبق سیکھنے کی بجائے تاریخ کا بدلہ لیتے جارہے ہیں۔ ہم پر مُردُوں کی حکومت ہے۔ ہم اُن کے اقوال و افعال کے جملہ حقوق کے تحفظ میں مصروف ہیں۔ مثالاََ رومیوں‘ یونانیوں‘ افریقیوں‘ انگریزوں‘ پرتگیزوں‘ فرنسییوں‘ جرمنیوں‘ روسیوں‘ چائنیز‘ مغلوں‘ منگولیوں‘ تاتاریوں‘ عثمانیوں‘ صفیوں‘ مسلمانوں‘ عیسائیوں‘ یہودیوں‘ سکھوں‘ ہندؤں‘ بدھ متوں‘ شنتوں‘ کنفیوششوں اور منکروں کے گروہی ازمودہ تاریخی بغاوتوں کی تحفظ کے ساتھ اُن کے افکار کی بقاء کے لئے دنیا کو جہنم بنا رکھا ہے جہاں روزانہ تاریخ اور مذہب کے نام سے لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن رہے ہیں۔ میڈیا کے دور نے اِن تمام کو اب ایک اشارے(click) تک محددو کردیا ہے اور ہم تماشا دیکھ رہے ہوتے ہیں۔ موت اور زندگی کی خبروں نے ہمیں بیوپاری کی طرح اپنے تجربے اور عمل کو بھی بھلا دیا ہے۔ ہم اُن کے کہنے پر گھروں سے باہر آتے ہیں حلانکہ بیوپاری (میڈیا)کا کام ہی وہی ہے جو جھوٹ کو سچ ثابت کرتا ہے۔
اِس تناظر میں ہماری کیا زمہ داری بنتی ہے؟ ہم کب تک دوسروں کے کہنے پر عمل داری کرتے رہیں گے؟ ہماری اپنی سہ کب ہوگی؟ کیا کبھی آپ اپنے معاملات خود حل کرتے ہیں؟ مشورہ اور رائے اپنی جگہ لیکن ہمیں اپنی سوچ اور اچھائی اور برائی کو سمجھنا چائیے۔ ہمارے بارے میں ہم سے زیادہ کوئی اور نہیں جانتا ہے۔ اپنا خیال خود رکھنا چاہئے۔ اپنی نفع نقصان کو جب ہم خود دیکھنا شروع کرینگے اس دن سے پائیدار ترقی کا آغاز ہوگا۔