آج بھی گلگت بلتستان کو ایک جوائنٹ سیکریٹری چلا رہا ہے، مکمل صوبہ بنانے کا وقت آگیا ہے: سینیٹر افراسیاب خان خٹک
لاہور(خصوصی نمائندہ) وقت آگیا ہے کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا مکمل صوبہ پا بنایا جائے ، اس جدید دور میں بھی پورے خطے کو وزرات امور کشمیر کا ا یک جوائنٹ سکریٹری چلا رہا ہے۔علاقے کے ساتھ مزید زیادتی نہیں ہونی چاہیے۔
ان خیالات کا اظہار سینٹ میں انسانی حقوق کمیٹی کے سابق چیر مین افراسیاب خٹک نے انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے زیر اہتمام ایچ آ ر سی پی سکریٹریٹ لاہور میں منعقدہ ایک مذاکرے سے اپنے خطاب میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ گلگت بلتستان کے لوگ پاکستان کے مکمل شہری بننا چاہتے ہیں اس سلسلے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ گلگت بلتستان کو پاکستان کا مکمل صوبہ بنایا جانا چاہئیے۔
مذاکرے سے انسانی حقوق کی راہنماء عاصمہ جہانگیر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کی صورتحال تسلی بخش نہیں ہے۔ اپنے حقوق کے لئے آوز اٹھانے والوں پر مقدمات کا اندراج مقامی انتظامیہ کی بوکھلاہٹ کا بین ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ حالیہ دنوں یمن کی جنگ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ایک جماعت نے احتجاج کیا تو ان کے نو افراد پر مقد مات بنائے گئے ۔ بعد میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے بھی وہی بات کی جو ان لوگوں نے کی تھی یعنی کہ یمن کی جنگ میں شامل نہیں ہونا چاہیے۔ عوام اور پارلیمنٹ جب ایک ہی بات کرتے ہیں تو عوام پر غداری کا مقدمہ بن جانا مضحکہ خیز ہے۔ اس بات پر عوام غدار بن جاتے ہیں تو پھر پارلیمنٹ بھی غدار ٹھرے گی؟
قبل ازین ایچ آ ر سی پی کے سالانہ کنونشن میں گلگت بلتستان میں انسانی حقوق کمیشن برائے پاکستان کے صوبائی کوارڈنیٹر اسرارالدین اسرار نے علاقے میں انسانی حقوق کی صورتحال پر اپنی تفصلی رپورٹ پیش کی ۔ انہوں نے سیاسی وآئینی حقوق سے محرومی کے علاوہ خواتین، بچوں، مزدوروں، سیپ سکولوں کے اساتذہ، عطاآباد کے متاثرین، آزادی صحافت، سیاسی و انسانی حقوق پر کام کرنے والوں پر مقدمات کا اندارج سمیت علاقے میں جرائم کی شرح، جیلوں کی صورت حال، صحت، تعلیم اور دیگر امور پر تفصلی رپورٹ پیش کی۔
انہوں نے کہا کہ علاقے میں سیاسی محرومیا ں اپنے عروج پر ہیں۔ اکیسویں صدی میں بھی علاقے کے عوام آئین سے محروم ہیں اور علاقے کا نظم و نسق آج بھی وزارت امور کشمیر کے ہاتھوں میں ہے اور ایک وفاقی وزیر علاقے کے سیاہ و سفید کا مالک ہے، منتخب اور نگران حکومت نمائشی ہیں ان کے ہاتھ میں تنخواہ اور مراعات کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ نگران حکومت اور گورنر کی تقرری غیر آئینی طریقے سے کی گئی ہے۔ انہوں نے مذید کہا کہ علاقے میں آج بھی سکول، ہسپتال اور محلے فرقوں کی بنیاد پر تقسیم ہیں۔ جیلوں میں خواتین اور بچوں کے لئے الگ بیرک نہیں جبکہ باقی قیدیوں کے لئے بھی ماحول مضر صحت ہے۔ قیدیوں کا فرار کا واقعہ ناقص سیکورٹی کا نتیجہ تھا۔ گزشتہ پانچ مہنوں میں ۴۱ افراد پر غداری کے جھوٹے مقدمات درج کئے گئے ہیں جبکہ عطاآباد کے متاثرین کے حق میں آواز اٹھانے والے ۱۲ افراد جیلوں میں سزا کاٹ رہے ہیں، قیمتی پتھروں کا کاروبار کرنے والی چھوٹے کاروباری سراپا احتجاج ہیں جبکہ سینکڑوں معدنیات کے لیزز غیر مقامی افراد کو دیے گئے ہیں جس سے مقامی لوگوں میں مایوسی پھیل گئی ہے۔ہسپتالوں میں گائینی ڈا کٹرز کی عدم موجودگی کی وجہ سے زچگی کے دوران کئی حاملہ خواتین کی جان لے لی ہے۔قیام امن اور سیاسی پراسس میں خواتین کی شمولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ معذور افراد کئی عر صے سے اپنے حقوق کے لئے سراپا احتجاج ہیں۔ سیپ سکولوں کے اساتذہ بھی عرصہ دارز سے سراپا احتجاج ہیں مگر ان کا کوئی پر سان حال نہیں ہے۔ گزشتہ سال چھ صحافیوں کو دھمکیاں ملی یا ان پر حملہ کیا گیا۔ علاقے میں غیرت کے نام پر ۱۷ خواتین کا قتل ہوا، ۲۲ اغوا کے مقدمات درج ہوئے، ۲ ریب کے ۲۰ خودکشیوں کے واقعات ہوئے ، مختلف جرائم میں ۹۱ افراد قتل اور ۲۱۹ افراد زخمی ہوئے جبکہ کل جرائم کی تعداد 1253 رہی ۔ انسانی حقوق کمیشن کے سالانہ کنونشن میں اسرارارلدین اسرار کی قیادت میں گلگت بلتستان کے ساتھوں اضلاع سے نو خواتین و حضرات نے شرکت کی اور علاقے کی بھر پور نمائند گی کی۔