جام نان جام قوم: اَمن و امان میں خواتین کا کردار
تحریر : حبیبہ شمس
ریڈیو پاکستان گلگت کے اسٹوڈیو سے کھوار ’’ گمبوری ‘‘ پروگرام میں ، ماؤں، بہنوں اور بیٹوں کیلئے خصوصی پروگرام ’’ جام نان جام قوم ‘‘ گزشتہ چھ سالوں سے ہر بدھ کو پیش کیا جاتارہا ہے ۔ اس بار میں نے یہ مناسب جانا کہ یہ خصوصی پروگرام اُردو میں ترجمہ کرکے اُن خواتین کی خدمت میں پیش کیا جائے جو ہمارا پروگام براہ راست نہیں سن سکتیں ۔
تولیجئے آج کا موضوع ہے ’’اَمن و امان میں خواتین کا کردار ‘‘اسلام کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے بعثت نبی پاک ؐ سے قبل عرب قبائل میں عورت سے ایک زر خرید غلام کی حیثیت سے سلوک روا رکھا جاتا تھا۔ ہمارے نبی پاک ؐ نے عورت کو ایک ماں، ایک بہن ، ایک بیٹی اور ایک شریک حیات کے اعلیٰ و ارفع مقام پر فائز کرکے اُسے اُسکے تمام بنیادی حقوق کا نہ صرف مستحق قرار دیا بلکہ ایک مرد ہونے کی حیثیت سے آپؐ خود عورت کو مختلف روپ میں مخصوص بنیادی حقوق سے عملی طورپر نواز کے اپنی اُمت کے لئے ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ جن میں طعام و قیام اور آرام و سکون کی سہولت، اچھا لباس،صحت و تعلیم اور ایک کنبے میں رہتے ہوئے کسی معاشرتی مسئلے میں حصہ داری اور فیصلے کا استحقاق عورت کو ملنے والے وہ بہترین بنیادی حقوق ہیں جو دنیا کے کسی اور مذہب میں موجود نہیں ہیں یا خال خال وجود رکھتے ہیں۔
پیاری ماوں، بہنو اور بیٹیو ! ہم سب یہ اچھی طرح جاتنے ہیں کہ عورت ہی ہے جوکہ دنیا میں معاشرہ سازی کی اکائی اور خلق کی علت ہے۔ وہ ہم ہی ہیں جو ایک اچھی قوم بنانے کی ضامن ہیں۔ اگرچہ دنیا میں اور خصوصی طور پر اسلامی دنیا میں اَمن و امان کو غار ت کرنے کے پیچھے کوئی عوامل ایسے نظر نہیں آتے جس میں بلا واسطہ طور پر کسی عورت کا ہاتھ ہو، تاہم یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ پس پردہ دنیا میں ہونے والی ہر تباہی اور بربادی ہماری وجہ سے ہے۔ اسکی دلیل یہ ہے کہ دنیا میں پیدا ہونے والا ہر مرد کسی عورت ہی کی آغوش میں پنپتا ہے۔ وہ ہماری ہی گود ہے جو کہ کسی بھی انسان کے لئے پہلے درسگاہ کی مثال ہے۔ میں اس وقت اپنی ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں سے خاص طور سے مخاطب ہو کے یہ کہنے کی جسارت کرتی ہوں کہ اگر آپ میری مذکورہ خیا ل سے اتفاق کرتی ہیں تو آپ میری اس گزارش سے بھی برابر متفق ہوں گی کہ مذکورہ بیان کی روشنی میں کسی بھی کنبہ ، معاشرہ ، قوم ، ملک اور دنیا کو تخت و تاراج کرنے اور جنت کا گہوارہ بنانے میں ہمارا کلیدی کردار ہے۔
میری ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں! آج کے دور میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم پلٹ کر اسلامی تاریخ میں خواتیں کے کردار کا مطالعہ کریں اور اسلامی تعلیمات کے مطابق اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کریں۔ کیوں کہ اسلام دین فطرت ہی، اسلام امن و آشتی ، محبت و اخوت ، پیار ہمدردی اور مساوات کا درس دیتا ہے ۔ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ ایک ماں کی حیثیت سے ہمارا دینی فریضہ بھی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک پُر امن شہری بننے کی تربیت دیں۔ہمارا بچہ خدا ناخواستہ اگر کسی سے لڑتا ہے ، اپنی زبان کا استعمال غیر مہذب انداز سے کرتا ہے یا کسی سے نفرت اور حقارت آمیز سلوک روا رکھتا ہے تو اس میں ہم تمام ماؤں کو اپنے ایسے تمام بچوں کی تربیت پر نظر ثانی کی ضرورت ہوگی ۔
مجھے پاکستان کے مشہور ادیب اشفاق احمد کا ایک قول یاد آتا ہے کہ’’ جب ہم کسی کھڑے پانی میں کنکر کا ایک ٹکڑا پھینک دیتے ہیں تو اُسی جگہ پر ایک ہلکا سا ارتعاش پیدا ہوتا ہے لیکن اس کی لہریں جیسے جیسے کناروں کی طرف جاتی ہیں تو ایک طوفان برپا ہو جاتا ہے ‘‘ یہی کچھ ہمارے بچوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے ۔ اُن کی ابتدائی حرکتیں ہمیں چھوٹی یا پھر مضحکہ خیز معلوم ہوتی ہیں اور ہم انہیں نظر انداز کرتے ہیں ۔ لیکن یہ یاد رکھنی چاہئے کہ یہی چھوٹی چھوٹی غیر ضروری حرکات و سکنات مستقبل میں کسی بڑی تباہی کا شاخسانہ ثابت ہوسکتی ہیں ۔ تو تمام ماؤں سے میری گزارش ہے کہ اگر ہم ایک پر امن معاشرے کی تشکیل چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے بچوں کی تمام حرکتوں پر کڑی نظر رکھنی ہوگی ۔