کالمز

نوجوان ،جمہور اور روایات 

تحریر: حاجی سرمیکی 

haji baqir (2)عالمی یومِ جوانان کی مناسبت سے سکردو میں ایک انتہائی سادہ تقریب منعقد ہوئی ۔ تقریب کی سادگی روایتی نشست وبرخاست اور مہمانداری کے ضابطوں کے حوالے سے ہی نہیں بلکہ اپنے شرکاء کے اعتبار سے بھی بہت سادہ تھی ۔ یہ کسی مجبوری یا غیر ارادی طرز عمل کا نتیجہ نہ تھا بلکہ ان نوجوان سماجی کارکنان کی خود شناسی اور تقریب کے مآخذ سے سروکار ہونے کی ایک جامع ارادی اور منطقی تحریک کا لائحہ عمل تھا ۔جو بلتستان میں نوجوانوں کی بہبود کے لئے کوشاں تحریک بلتستان یوتھ الائنس میں شامل ہیں۔یہ سادہ تقریب اپنی دنیا آپ بدلنے کی جانب ایک قدم تھا۔ گوکہ تقریب اپنے نفسِ مضمون کے اعتبار سے نوجوانوں کا عالمی دن منانا تھا مگر جہاں پہلے ہی سے ذمہ دارانہ سوچ بوجھ کے حامل نوجوان جمع ہوجائے وہاں پھر سماج میں نوجوانوں کے کردار اور ذمہ داریوں پر لمبی چوڑی تقریریں کرنے اور روایتی جملے بازی کرنے کی گنجائش کہاں باقی رہتی ہے۔اسی لئے منتظمین نے اس دن کو ” جمہوری اقدار اور نوجوانان "کے نام سے معنون کیا ۔تمام تر منتظم شرکاء ، نوجوانوں کی تنظیموں اور تحریکوں کے ممبران اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے جمہوریت ، جمہوری اقدار اور ہماری قومی روایات پر پر مغز گفت وشنید کی۔گفتگو کے آغاز سے ہی شرکاء جمہوری طرز حکومت اور جمہوری اقدار سے یکسر اتفاق کرتے تھے تاہم من حیث القوم ہماری جمہوری روایات پر نالا ں نظر آرہے تھے۔ بات قرآن مجید کی آیت "کیا کچھ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر ہے ، ہرگز نہیں”سے آگے بڑھی ۔ بعض ناقدین نے جمہوریت میں مقدار کو معیار پر فوقیت کی نفی کی ۔ تاہم یکے بعد دیگر ے ہر چند مقررین نے اپنی بساط کے مطابق اس کی توضیح پیش کی ۔اس بات پر تنقید کی گنجائش تو بجا طور پر موجود ہے کہ جمہوریت میں بقول علامہ محمد اقبال ؒ افراد کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا ۔ تاہم اس کے لئے بھی خود قرآن مجید نے اس کا حل بھی بتایا ہے ۔ یعنی تم میں سے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ایسی ہونی چاہیئے جو لوگوں کو اچھے کاموں کی پر لگائے اور برے کاموں سے روکے ۔ سو یہاں جمہوریت کے اندر بھی اگر کم فہم لوگوں کی رہنمائی کا کام بھی ویسا ہی ایک گروہ کرسکتا ہے جو لوگوں کو نیک کام کی طرف بلاتا ہے ۔ پھر اسی جملے کا اطلاق صرف جمہور پر نہیں بلکہ سیاسی رہنماؤں پر بھی ہوتا ہے ۔ یقیناًان کے ہاں بھی کچھ جاننے والے اور کچھ نہ جاننے والے ہوں گے ، جن کے انتخاب میں بھی عوام کو جاننے والے کی قدر کرنی ہوگی۔ دنیا ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جہاں ایک عادل اور اصول پسند رہنما پوری ریاست کا نظام بدل ڈالتا ہے ۔ جمہوریت کی اصل روح کے اعتبار سے تو عوام کا اپنا معیار بلند ہونا چاہئیے ۔ جمہوریت کسی بھی ایک فرد کو محروم رکھ کراپنا پورا مطلب نہیں دے سکتی ۔ اس لئے بہتر تو یہ ہے کہ سو فیصدی عوام ، منصفانہ رویہ، مفاد عامہ اور نیک نیتی جیسی خوبیوں کی حامل ہو۔ وگرنہ ان خوبیوں کے بغیر اگر ایک محب وطن ، عادل اور انسان دوست فرد کی رائے کو کسی جاہل، فاسد اور شرپسند کی رائے کے برابر تسلیم کرنا بھی اپنے اندر ایک بے یقینی صورت پیداکرتی ہے۔ اسی خدشے کے پیش نظر بعض ترقی یافتہ ممالک میں تھنک ٹینک کے ساتھ بحث و مباحثے اور مناظر ے کا اصول بھی پایا جاتا ہے جہاں سیاسی رہنماؤں کو اپنی سوچ، حکمت عملی اور اعلیٰ حکمرانی کے لا ئحہ عمل پیش کرنا پڑتا ہے ۔ اس مرحلے میں کم وبیش تعلیم یافتہ حضرات اور معاشرے کے فعال کارکنان تک ان مباحثوں میں بالواسطہ طور پر شامل ہوتے ہیں ۔ جو مزید ان کے منشور، سیاسی نظریات اور اعلیٰ حکمرانی سے متعلقہ رائے اور تجزیئے کے ذریعے سے عوام میں رائے سازی کا کام کرتے ہیں۔ اس کے بر عکس ہمارے ہاں روایتی جمہوری ہتھگنڈے مستعمل ہیں ۔ جن میں دین ، علاقائیت، نسل یا پھر دیگر ترجیحات کو عمومی رائے سازی میں اہم عناصر کی حیثیت حاصل ہیں۔ لہٰذا طویل المدتی لائحہ عمل یہ ہے کہ تعلیم اور رابطہ کاری کے نظام میں بہتری کے ذریعے جمہور کے اندر حقیقی اقدار کو پروان چڑھایا جائے ۔ جو کہ ہمارے علاقے میں بہت وقت طلب کام ہے ۔ اور اگر اس کا کوئی قلیل المدتی حل نکالا جائے تو وہ یہ ہے کہ معاشرے میں انصاف پسند، غیر جانبداراورباشعور طبقے میں سے منتخب افراد کو عمومی رائے سازی کے لئے استعمال میں لایا جائے تاکہ وہ عوام کے سامنے مثبت نظریات اور وقت کے تقاضوں کو پیش کر سکے، جن کو ملحوظ خاطر رکھ کر کم و بیش عوام جمہوری رویئے کے مطابق رائے شماری میں اپنا کردار ادا کریں ۔ البتہ کچھ ممالک میں سیاسی طور پر انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی ہی قبل از وقت جانچ پڑتال ہوتی ہے اور پھر ان میں سے اہلیت کے مطابق دوچند کو بطور امیدوار پیش ہونے کی منظوری دی جاتی ہے۔ اس مرحلے میں شوریٰ کا انتخاب عوام خود کرتی ہے ۔ تاہم لاکھوں عوام کی طرف سے نمائندگی کرنے کا جس شور یٰ کو حق حاصل ہوگا وہ کیا اپنے آپ میں جمہوری طرز سے بنا ہوا ہوگا۔ کیا اس کوبنانے کے لئے ہر کس و ناکس کی رائے حتمی نہیں ۔ اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو وہ خود جمہوریت کی نفی نہیں ہوگی ؟۔ تاہم شوریٰ خود براہ راست کسی ایک امیدوار کو کامیاب قرار دینے کا حق نہیں رکھتا جبکہ وہ ایک ہی نشست کے لئے دو چند امیدواروں کی موزونیت کا فیصلہ کرتی ہے۔ اس لئے فقط اسے قلیل المدتی لائحہ عمل کے طور پر مانا جاسکتاہے۔ اب سوال یہ ہے کہ طویل المدتی مگر سب سے پائیدار حل کی طرف کیسے بڑھا جائے۔ تو عمومی رائے اور اجتماعی مفاد کی ترجیحات پر اتفاق رائے تب تک ممکن نہیں جب تک جمہور کو یکساں انصاف ، تعلیم ، صحت اور خوراک حاصل نہ ہو۔ جس کے لئے حکومتی نظام میں موجود بدعنوانیوں ، بے ضابطگیو ں کاخاتمہ اور عوامی ترجیحات کی روشنی میں ترقیاتی منصوبہ سازی اشد ضروری ہے۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ ہم جمہوریت شناس انتہا پسند ہے۔ ہم وسائل کی یکساں تقسیم اور حصول میں جمہوری رویئے نہیں رکھتے۔ جمہور کی ضرورت تو فیصلہ سازی کے عمل میں پیش آتی ہے ورنہ جو انفرادی امورِ حیات ہے وہ ہر فرد نے اپنے طور سے سر انجام دینے ہیں جو اپنے آپ میں ایک جمہوری رویئے کا عکاس ہے۔ وہ اس کے لئے آزاد ہے مگر وہ اپنی آزادی کے لئے دوسروں کی آزادی کا برابر احترام کرے۔ وہ اپنے پاس موجود فاضل وسائل کو سرکار کے حوالے کریں تاکہ جو محروم ہیں ان کا ازالہ ممکن ہوسکے۔ ورنہ آج تک جمہوریت امیر کو امیر تر اور غریب کو غریب تر کرتی رہی ہے۔ جمہوری عمل صرف حقوق حاصل کرنے کا نام نہیں ، اس کا مطلب صرف انتخابات میں اپنی مرضی کے امیدوار کو ووٹ دینا نہیں، بلکہ یہ ایک طرز حکومت ہے ۔ جس کے مطابق غریب امیر سے زیادہ طاقتور ہو، کیونکہ ان کی آبادی امیروں کی آبادی کے تناسب سے زیادہ ہوتی ہے ۔ جمہوریت اپنے اوپر قابل حکمران مسلط کرنے کا نام نہیں ہے۔ بلکہ کسی قابل اور لائق فرد کی رہنمائی میں اپنی ترجیحات کو اپنے جیسے دیگر محروم لوگوں کی مفاد کے پیش نظر حل کرنا ہے ۔ یعنی بالواسطہ طور پر حکمرانی میں شامل ہونا مراد ہے۔ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اس میں حکمران عوام کا اور عوام حکمران کا احتساب بھی کرسکتی ہے۔عوام خود اپنے نمائندے پیش کرے نہ کوئی خود بطور نمائندہ پیش ہو کر عوام میں جائے اورجب ایک ہی نشست پر ایک ہی جگہ سے ایک سے زائد شخصیات کی نشاندہی کی صورت میں الیکشن کا مرحلہ درپیش ہو۔ مگر ہمارے ہاں الیکشن کا مطلب ہی یہ ہوتا ہے کہ دو بندوں نے اپنے اثرو رسوخ ، طاقت اور حکومتی نمائندگی کی بنیاد پر مقابلہ کے لئے خود کھڑے ہونا ہے اور عوام چاروناچار انہی میں سے کسی کا انتخاب کرنا ہے۔ بلکہ بارہا ایسے بھی مواقع آئیے ہیں کہ جہاں عوام کی اکثریت ہر دو نمائندے سے تنگ تھی مگر کون تھا کوئی تیسرا جسے وہ ووٹ دیتا ۔ ایسے میں ان کی ہمت نہیں ہوتی کہ اپنا کوئی امیدوار میدان میں لائے۔ اصل رائے کا اظہار تو اس نمائندے کا الیکشن میں اپنی نامزدگی کے وقت عوام کو کرنا چاہیئے جو کہ مصلحت پسندی کی وجہ سے نہیں کر پاتے۔بلتستان یوتھ الائینس نے اس سے قبل بھی عوامی نمائندوں کا عوامی مسائل اور اپنی ترجیحات کے حوالے سے آگہی کے لئے انتخابات کے ایام میں مختلف تخلیقی اور منفرد سرگرمیاں سرانجام دے چکی ہیں۔ جن کا مقصد عوام کو اپنے نمائندوں کی ترجیحات سے آگاہ کرنا تھا۔آخر الذکر یہ کہ بلتستان کے نوجوان خوش قسمت ہے جنہیں ذی شعور نوجوان رہنماؤں کی سرپرستی حاصل ہے ۔ اگر یہ پلیٹ فارم مستقبل میں جمہوری اصولوں پر سختی سے کاربند رہتے ہوئے نوجوانوں کی رہنمائی کرتے رہیں گے تو وہ دن دور نہیں کہ یہاں حقیقی جمہوری روایات اپناداغ بیل ڈالے گی اور عوام کو صحیح سمت میں لے کر چلنے والی قیادت فراہم ہوگی جو بلا تفریق ترقی وخوشحالی کے لئے کوشاں ہوگی ۔ یہی جمہوریت کا حقیقی ثمر ہوگا۔

آپ کی رائے

comments

متعلقہ

Back to top button