کالمز
چترال کا ایدھی
اقرا ء ٹرسٹ اور قاری فیض اللہ چترالی کو پاکستان کا دوسرا ایدھی اور چترال کا پہلا ایدھی کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا سیلاب ،زلزلہ یا کسی دوسری قدرتی آفت پر سب سے پہلے قاری فیض اللہ چترالی کی طرف سے امداد لیکر مولانا خلیق الزمان پہنچ جاتاہے لوگ سڑک کھول رہے ہوں نہر کو بحال کر رہے ہے ہوں زخمیوں اور تیما ر دارون کا ہسپتال میں جمگٹھاہو تو قاری فیض اللہ چترالی کی طرف دیگیں پہنچ جاتی ہیں کھانا تقسیم ہوتا ہے حالیہ سیلاب اور زلزلہ میں قاری فیض اللہ فیضی چترالی نے اقراء ٹرسٹ کے پلیٹ فارم سے ماضی کی طر ح سب سے زیادہ فعال کردار ادا کیا متاثرین کی فوری امداد کے علاوہ مستقل آباد کاری کے لئے مکانوں کی تعمیر میں مدد دی 2010 اور 2012 ء کے متاثرین سیلاب کو بھی گھروں کی تعمیر کے لیے جستی نالید ار چاردیں اور دیگر تعمیراتی سامان مہیا کیا گیا تھا اس سال بھی متاثرین کو جستی نالیدار چادریں اور دیگر تعمیراتی سامان مہیا کیا گیا تھا اس وقت بھی متاثرین کو جستی چادریں فراہم کی گئیں اور یوں متاثرین کے سروں پر چھت مہیا ہوگئی ایدھی کے کام کی طرح قاری فیض اللہ چترالی کی فلاحی امداد کا طریقہ بھی دو اصولوں پر مبنی ہے اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ متاثرہ شخص ،متاثرہ خاندان اور کنبے کی عزت نفس مجروح نہ ہو وہ مختلف دروازوں پر جاکر دستک نہ دے اور عرضی ،درخواست لیکر سائل بن کر ادھر ادھر بھٹکتا نہ پھرے اُس کی ضرورت اُس کے گھر کی دہلیز پر عزت نفس کے ساتھ چپکے سے خاموشی کے ساتھ پوری کی جائے مگر حساب کتاب ،رسید وغیر ہ اللہ پاک کی عدالت میں بھی اور دنیا والوں کے حسابات میں بھی دکھانے کے لئے صاف ستھر ا ہو عالمی سٹینڈرڈ کے مطابق ہو اس پر حرف زنی اور انگشت نمائی کی گنجائش نہ ہو اس کادوسرا اصول یہ ہے کہ پہلے پہنچو،پہل کرو، پہلے امداد پہنچاؤ اورکا م نمٹاؤ تاکہ ضرورت کے وقت مصیبت کے وقت متاثرہ شخص خود کو بے اسرااور بے بس محسوس نہ کر ے ان دونوں اصولو ں پر عمل کر نے کے لئے باہمی اعتماد اور بھروسے کی ضرورت ہے قاری فیض اللہ چترالی نے جو ٹیم بنائی ہے وہ ٹیم باہمی اعتماد اور بھروسے پر گذشتہ 15 سالوں میں ہر مرحلے پر پوری اتری ہے فلاحی کاموں کا جو سلسلہ تعلیمی میدان سے شروع ہوتا تھا وہ رفتہ رفتہ صحت کے شعبے میں داخل ہوا صحت کے شعبے سے قدرتی آفات کے شعبے میں داخل ہوا اور ہمہ گیر فلاحی پروگرام بن گیا اس کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں دفتر کا کرایہ ،ملازمین کی تنخواہیں اور ٹیلیفوں ،بجلی ،قالین ،دری کرسی میز وغیر ہ کے انتظامی اخراجات کا کوئی مد نہیں اس مد پر ایک پائی کا خرچہ نہیں آتا پوری ٹیم رضا کاروں پر مشتمل ہے اور ہر کام رضا کارانہ جذبے سے ہوتا ہے قاری فیض اللہ چترالی خود پس منظر میں رہ کر کام کرتے ہیں کبھی کسی مستحق مریض کی مدد کر کے ، کسی قابل اور ذہین طالب علم کو انعام ،ایوارڈ ،سکالرشپ دیکر یا کسی متاثرہ شخص کو عمارتی سامان حوالہ کرکے یا 100 کلو آٹا کی بوری دیتے ہوئے تصویر نہیں اترواتے یا مواقع پر خود موجود ہونا بھی پسند نہیں کرتے اپنا نام ظاہر کرنا بھی گوارا نہیں کرتے اور ہر سال 3کروڑ روپے سے لیکر 5 کروڑ روپے تک کے فلاحی کام خاموشی کے ساتھ انجام دیتے ہیں نہ اشتہار ،نہ بینر ،نہ فوٹو ،نہ تصویر ،نہ صلے کی تمنا ،نہ ستائش کی پروا اور شروع میں ایدھی کا بھی یہی طریقہ تھا بعد میں میڈیا خود اُن کے کاموں کی طرف متوجہ ہوئی ایدھی نے شروع میں اشتہار بازی نہیں کی قاری فیض اللہ چترالی نے فلاحی شعبے میں باقاعدہ کام کا آغاز 1988 ء میں مدارس کے قیام اور مساجد کی تعمیر کے کام سے کیا 12سال بعد 2000 ء میں اس کادائر ہ عصری تعلیم اور سکولوں میں پڑھنے والے ذہین طالب علموں اور طالبات کی حوصلہ افزائی تک وسیع کر نے کا پروگرام بنایا 2002 ء میں اقراء ایوارڈ ز کے نام سے میٹرک میں نمایاں پوزیشن لینے والے طلبہ اور طالبات کے لئے سرکاری سکولوں اور پرائیویٹ سکولوں کی الگ الگ درجہ بندی کر کے 40 ہزار روپے 30 ہزار روپے اور 15,15 ہزار روپے کے آٹھ نقد انعامات کے ساتھ یاد گاری شیلڈاور اقراء نشان تقسیم کر نے کا باقاعدہ آغاز کیا 2010 ء میں دینی مدارس کے طلبہ اور طالبات کے لئے انعامات اور اقرراء نشان کا نیا سلسلہ شروع کیا یہ کام گذشتہ 13 سالوں سے باقاعدگی اور تسلسل کے ساتھ ہورہا ہے اقراء انعام اور نشان لینے والے طلبہ / طالبات اب زندگی کے مختلف شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ڈاکٹر ی اور انجینئر نگ کے شعبوں کے علاوہ پاک فوج میں کمیشن لیکر میجر کے عہدے تک پہنچ چکے ہیں اسی طرح ایسے مریضوں کا علاج ہوا ہے جو علاج کی استطاعت نہیں رکھتے تھے اور یہ کام کسی کی عزت نفس کو مجروح کئے بغیر آسانی اور خاموشی کے ساتھ ہوا ہے 2010 ء ،2012 ء اور 2015 ء کے سیلابوں میں متاثرین کی مد د کے شعبے پر 8 کروڑ روپے خرچ کئے گے 2015 ء میں متاثرین سیلاب کی فوری امداد ، بحالی اور اباد کاری پر ساڑھے تین کروڑ روپے خرچ کئے گئے لطف کی بات یہ ہے کہ یہ کام انتہائی متانت اور خاموشی کے ساتھ ہوا ہے لمبے لمبے پراجیکٹ پروپوزل بنانے والے ،بڑی بڑی کو ٹھیوں میں دفتر سجا کر بیٹھنے والے اور 75 لاکھ روپے کی گاڑیوں میں گھوم پھر کر فلاحی کام کرنے والوں کو چترال کے ایدھی قاری فیض اللہ چترالی کے ماڈل کی پیروی کر نی چاہیے جس کی انتظامی اخراجات صفر کے برا بر ہیں جوامداد جہاں سے آتی ہے وہ سید ھی سیدھی متاثر ین کو ملتی ہے جو نظر بھی آتاہے اور یہ قابل تقلید ماڈل ہے۔