کالمز

ہم نے مانا کہ تغافل نہ کروگے لیکن ۔۔۔

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے پیر کے دن تیمر گرہ اور باجوڑ سے زلزلہ مثاثرین کے درمیان امدادی چیکوں کی تقسیم کا افتتاح کیا یہ اچھی بات ہے ،سیلاب کے متاثرین کو 3 ماہ بعد بھی امداد نہیں ملی زلزلہ متاثرین کو کم از کم امداد ملنا شروع ہوگیا ہے تیمرہ گرہ ،شانگلہ ،سوات ، باجوڑ، دیر ،چترال اور کوہستان جیسے اضلاع کو پنجاب کے دیہات پر قیاس کیا گیا ہے اس وجہ سے چیکوں کی تیاری اور تقسیم میں بڑی ناانصانی ہوئی ہے حکومت نے اسلام اباد کے ایک ائیر کندیشنڈکمرے میں بیٹھ کر فیصلہ کیا کہ تیمر گرہ ،باجوڑ اور کوہستان میں بھی پنجاب کی طرح چار دیواری نہیں ہوگی مویشیوں کے لئے چھت اور دیوار والے مکانات نہیں ہونگے محض ایک کمرے کا گھر ہوگا جس میں وہ رہتے ہونگے باورچی خانہ ہوگا ،سٹور ہوگا اس لئے مویشیوں کے چھت اور دیوار والے مکانات کو زلزہ کے نقصانات میں شامل نہیں کیا گھر کی چار دیواری اور پردہ وال کو زلزلہ کے نقصانات میں شامل نہیں کیا ایسا لگتا ہے کہ خیبر پختونخوا کا کوئی سیاستدان ،کوئی وزیر ،کوئی ایم این اے ،کوئی ایم پی اے یا کوئی افیسر میٹنگ میں موجود نہیں تھا اگر میٹنگ میں خیبر پختونخوا کاکوئی معقول شہری شامل ہوتا تو ثقافت کے فرق کوواضح کر تا موسم کے فرق کو واضح کرتا پنجاب میں موسمی حالات کی وجہ سے مویشیوں کے لئے چھت اور دیواروں والے مکانات کی ضرورت نہیں ہوتی بندوق، فائرنگ اور دشمنی کا کلچر نہ ہونے کی وجہ سے چار دیواردی کی ضرورت نہیں ہوتی پردہ کے لئے کسی دیوار کی ضرورت نہیں ہوتی خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں دونوں چیزیں گھر کا لازمی حصہ ہوتی ہیں اگر کسی کے مویشیوں کے چار مکانات زمین بوس ہوگئے ہیں تو یہ مکمل نقصان ہے اگر کسی کی چار دیواری گری ہے تو یہ جزوی نقصان ہے حکومت نے دونوں کو درجہ بندی سے خارج کر دیا ہے اور ایسا فرض کر لیا ہے کہ شانگلہ ،تیمر گرہ ،باجوڑ ،چترال اور کوہستان بھی شیخوپورہ ،شاھدرہ یا گوجرخان میں واقع ہیں بند کمرے کے اندر یک طرفہ فیصلہ کرنے میں ایسی فاش غلطیاں سرز د ہوتی ہیں 1973 ؁ء میں ذولفقار علی بھٹو کی حکومت تھی ڈالر 12 روپے کا تھا کوہستان میں زلز لہ آیا پٹن ،دوبیر ،جیجال ،داسو اور اردگرد کے دیہات متاثر ہوئے بھٹو شہید نے 1973 ؁ء میں کلی نقصان کے لئے دولاکھ روپے اور جزوی نقصان کے لئے ایک لاکھ روپے دیئے تھے اُس وقت کے دو لاکھ روپے 17 ہزار ڈالر بنتے تھے اس وقت 2015 ؁ء میں 2 لاکھ روپے صرف 2 ہزار دو ڈالر کے برابر ہیں بھٹو شہید نے کلی نقصان کے 17 ہزار ڈالر دیے اور کلی نقصان میں چار دیواری ،مویشیوں کے چھت والے مکانات بھی شامل کردیے2015 ؁ء میں مسلم لیگ (ن) کے لیڈر کلی نقصان کے لئے دو ہزارڈالر دے رہے ہیں اور چار دیواری کو نقصان میں شمار نہیں کرتے مویشیوں کے چھت والے مکانات کو نقصانات میں شمار نہیں کرتے چترال کے دیہات بالیم ،چرون اویر اور ہرچین میں نقصان کے سروے کر نے والوں کے ساتھ ایک اور مسئلے پرعوام کے جھگڑوں کی نوبت آئی مسئلہ یہ تھا کہ مہمانوں کے 3 کمرے زمین بو س ہوگئے تھے سروے کر نے والے کہتے ہیں کہ مہمانوں کے لئے ہے ہمارے حساب میں صرف گھر کے مالک کا ایک کمرہ آتاہے دوسرے کمرے حساب میں نہیں آتے نہ کلی نقصان میں آتے ہیں نہ جزوی نقصان میںآتے ہیں متاثرین کا موقف یہ تھا کہ زلزہ قدرتی آفت ہے بے رحم مصیبت ہے زلزہ نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ کمرہ گھر کے مالک کا ہے اُس کے بیٹے کا ہے یا مہمان کا ہے زلزلہ نے عمارت کوگرادیا اس کی دوبارہ تعمیرپر 10 لاکھ روپے کا خرچہ آئے گا آپ کے اندھی ،بہری او رلنگڑی لولی حکومت کلی نقصان کے لئے دولاکھ روپے دیتی ہے اس میں بھی میرے گھر کے سارے کمرے شامل نہیں ہوتے صرف ایک کمرہ شامل ہوتاہے یہ تو ظلم ہے زیاد تی ہے زبردستی ہے تم کچھ بھی مت لکھو ، نکل جاؤ ، دفع ہوجاؤ ، اگر چاردیواری گری ہے تم شمار نہیں کرتے اگر برآمد ہ گرا ہے تم اس کو نہیں لکھتے مہمان خانہ زمین بوس ہوگیا ہے تم حساب میں نہیں لاتے ،مویشی رکھنے کے چار کمرے گر چکے ہیں تم ان کو شمار نہیں کرتے تمہاری حکومت اعلان کرتی ہے امداد دینا نہیں چاہتی ان باتوں پر ہر گاؤں میں جھگڑے ہوئے ،بحث وتکرار ہوئی مگر یہ لکھنے والے کا قصور نہیں ہے سروے کرنیوالے کا قصور نہیں ہے چنداندھے ،بہرے اور لنگڑے لولے افیسروں اور سیاستدانوں نے اسلام اباد کے ایک کمرے میں بیٹھ کر گجرات ،لاہور اور ملتان کے تجربے کو سامنے رکھ کرفارم بنوایا ہے امدادی پیکچ تیار کیا ہے اِن کی نظر وں میں شانگلہ ، تیمرگرہ چترال او رباجوڑ کے عوام للوپنجوہیں جنہوں نے پوری عمر کبھی لاکھ دو لاکھ روپے کی رقم نہیں دیکھی اس لئے بند کمرے میں کسی واقف کار سے مشاورت کئے بغیر پیکچ تیار کر نے والوں نے ایسا فارم بنوایا جس میں سروے کر نے والا کچھ نہیں لکھ سکتا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نے خیبر پختونخوا کے پہاڑی علاقوں میں زلزلہ کے نقصانات کا جو سروے کیا ہے اُس پر نظر ثانی کے لئے دوسرا سروے کروایا جائے اس میں چاردیواری ،مویشی کے مکانات ،مہمان خانہ وغیر ہ بھی شامل کئے جائیں یہ ہمارے کلچر کے لازمی اجزاء ہیں ان کے بغیر گھر نہیں بنتا نیز یہ بھی دیکھا جائے کہ اگر بھٹو شہید نے 1973 ؁ء میں کوہستان کے متاثرین کو دو لاکھ روپے دیے تھے تو 2015 ؁ء میںیہ رقم کم از کم 10 لاکھ روپے ہونی چاہیے وزیر اعظم میاں نواز شریف کو ثقافت کے فرق اور ڈالر کے موجودہ نرخ پر ضرور توجہ دینی چاہئے
ہم نے مانا کہ تقافل نہ کروگے لیکن
خاک ہوجائینگے ہم ، تم کو خبر ہونے تک

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button