کالمز

ہلال احمر کو بحران سے نکالنے کیلئے ہنگامی اقدامات کی ضرورت

تحریر:طارق حسین شاہ
ان دنوں گلگت بلتستان میں جہاں سرکاری ادارے حکومتی عدم توجہی کے باعث شدیدمالی بحران سے دو چار  ہیں وہی پر قدرتی آفات اور دیگر سانحات کے دوران حکومتی تعاؤن کا کردار ادا کرنے والے فلاحی ادارے بھی وسائل کی عدم دستیابی کے باعث سخت معاشی بد حالی کا شکار ہیں۔ جس کی وجہ سے علاقے میں سماجی مسائل میں تیزی سے اضافہ ہونے کے شدید خدشات ظاہر کئے جا رہے ہیں۔
انجمن ہلال احمر پاکستان ایک ایسا ادارہ ہے جس کی بنیاد بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کے دست مبارک سے رکھی گئی تھی اور1947 ء سے اب تک یہ ادارہ ملکی سطح پر آنے والے قدرتی آفات کے دوران امداد و بحالی کی سرگرمیوں اور معتدد موزی امراض کے حوالے سے عوام الناس کو شعور و آگاہی دینے میں حکومت کے شانہ بشانہ اپنی خدمات سر انجام دے رہا ہے۔2007 ء میں گلگت بلتستان تک وسعت کی چند درد مند شخصیات کی کاوشوں کے نتیجے میں اس ادارے کا دائر کار گلگت بلتستان تک وسعت دیا گیا اور ابتدائی ادوار سے ہی ہلال احمر گلگت بلتستان کے سانحہ عطا آباد 2010 کا طوفانی سیلاب تلس گانچھے میں آنے والی قدرتی آفت سمیت دیگر سانحات کے دوران آفت زدہ علاقے سب سے پہلے پہنچ کر نہ صرف متاثرین کی داد رسی کی بلکہ مشکل گھڑی میں ایک اہم حکومتی معاؤن ہونے کا بھی ثبوت دیا ۔2008 ء میں بین الاقوامی فیڈریشن برائے ریڈ کراس کی مالی معاؤنت سے گلگت اور سکردو شہر میں غریب اور بے سہارا افراد کی طبی معاؤنت کیلئے ہلال احمر گلگت بلتستان کی طرف سے دو بنیادی طبی مراکز قائم کئے گئے تھے جہاں پر روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں مریضوں کا علاج و معالجے کے ساتھ ساتھ مفت ادویات بھی دئیے جاتے تھے جبکہ قدرتی آفات سے متاثرہ علاقوں میں صحت و ابتدائی طبی امداد اور آفات کے خطرات کو کم کرنے کے حوالے سے عوام الناس کو شعور و آگاہی دینے کے سلسلے میں بھی متعدد منصوبوں کا اجرا کیا گیا اس کے علاوہ ادارے کے زیر اہتمام گلگت بلتستان سکاؤٹس،پولیس سمیت مختلف شعبہ جات زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کیلئے ابتدائی طبی امداد کی خصوصی تربیت بھی فراہم کی جاتی رہی لیکن بد قسمتی سے
آج سننے میں یہ آیا ہے کہ ہلال احمر گلگت بلتستان کیلئے ان منصوبوں کے انعقاد کے سلسلے میں مالی معاؤنت فراہم کرنے والے عالمی ادارے انٹرنیشنل فیڈریشن آف ریڈ کراس اور انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈکراس کی طرف سے مزید امداد بند کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔اور ساتھ ساتھ سکردو اور ہنزہ نگر میں ادارے کی جانب سے قدرتی آفات سے نمٹنے کے لئے قائم ڈیزاسڑ مینجمنٹ سیل بھی بند کرانے کی ہدایت دی گئی ہے جس کی وجہ سے ادارے کی سرگرمیاں رواں ماہ کے آخر میں معطل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے۔اس فیصلے سے جہاں ادارے سے وابسطہ دو درجن کے قریب ملازمین کے گھروں کے چولہے ٹھنڈے پڑھ جائینگے وہی یہ ان منصوبوں سے استفادہ حاصل کرنے والے لاکھو ں عوام کا بھی بہت بڑا نقصان ہو گا جبکہ مستقبل میں علاقائی سطح پر وقوع پذیر ہونے والے قدرتی آفات کے ممکنہ خطرات کے حوالے سے بھی علاقے کو اس ادارے کی ضرورت پڑے گا۔بیاتا جا رہا ہے کہ وفاقی اور دیگر صوبوں میں حکومت کی جانب سے ہلال احمر پاکستان کی خدمات کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے اور اس کے عویض وفاقی و صوبائی حکومتیں ہلال احمر کیلئے سالانہ بجٹ میں خصوصی گرانٹ مختص کرتی ہیں لیکن بد قسمتی سے گلگت بلتستان میں صوبائی حکومت کی جانب سے اس ادارے کی حالت زار پر کوئی توجہ دینے کا گوارہ نہیں کیا گیا ۔
حالانکہ گزشتہ سال جولائی کو کراچی میں ہلال احمر پاکستان کی ایک اعلیٰ سطحی اجلاس میں صدر پاکستان جو ہلال احمر پاکستان کے بھی صدر ہیں آصف علی زرداری نے تمام صوبائی حکومتوں بشمول گلگت بلتستان کو ہلال احمر کیلئے درکار وسائل کی فراہمی کے سلسلے میں خصوصی احکامات جاری کئے تھے جس کے ایک ہفتے بعد وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان کے نام ایک خصوصی مراسلے میں صدر زرداری نے ہلال احمر گلگت بلتستان کیلئے سرکاری اراضی کی فراہمی اور دفاتر اور وئیر ہاؤسز کی تعمیر سمیت ملازمین کی تنخواہوں کی مد میں خصوصی گرانٹ دینے کے احکامات دئیے تھے جس کی روشنی میں ہلال احمر گلگت بلتستان کی جانب سے تین کروڑ کی سمری وزیر اعلیٰ سیکرٹریٹ میں جمع کرا دی تھی لیکن تا حال حکومتی سطح پر اس سلسلے میں کوئی اقدامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی حکومت کی جانب سے ہلال احمر کیلئے سرکاری زمین فراہم کی گئی جس کی وجہ سے گزشتہ سال تر کی کی ریڈ کریسنٹ سوسائٹی کی طرف سے ہلال احمر کی بلڈنگ کی تعمیر کے نام پر مختص کی جانے والی 10کروڑ کی خطیہ رقوم صرف اور صرف سرکاری زمین نہ ملنے کے باعث واپس کر دی گئیں جو ہم سب سے لمحہ فکر یہ ہے ۔اس طرح رواں سال سے جرمن ریڈ کراس کے تعاؤن سے سکردو میں ہلال احمر کی بلڈنگ تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی لیکن حکومت کی جانب سے زمین فراہم نہ کرنے پر منصوبہ بھی تا حال شروع نہ ہو سکا ہے۔
ہلال احمر کی جانب سے کئی بار صوبائی حکومت اور انتظامیہ سے ہلال احمر کیلئے سرکاری اراضی کی فراہمی اور سالانہ گرانٹ دینے کے سلسلے میں اپیل کی گئی لیکن اس کے باوجود حکومت کی جانب سے ان کے مسائل پر کوئی توجہ نہیں دیا گیا تا ہم گزشتہ سال 6ستمبر کو گورنر ہاؤس میں گورنر گلگت بلتستان پیر سید کرم علی شاہ جو ہلال احمر کے صوبائی صدر بھی ہیں کی زیر صدارت ایک اہم اجلاس میں گورنر اور چیف سیکرٹری گلگت بلتستان سجاد سلیم ہوتیانہ نے تمام سرکاری اداروں اور ماتحت اداروں سے ہلال احمر کے لئے مالی وسائل کی فراہمی میں کردار ادا کرنے کی ہدایت دی تھی جس پر صرف اور صرف قراقرم کواپریٹیو بنک کی جانب سے پانچ ک امداری چیک کے سوا کسی نے بھی اس ادارے کی معاؤنت نہیں کی جس کی وجہ سے آج یہ دن دیکھنا پڑا ہے کہ بانی پاکستان کے دست مبارک سے حکومتی معاؤنت کیلئے قائم کیا جانے والے ادارے کو گلگت بلتستان سے وجود کے خاتمے کے شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں جو ہم سب کیلئے انتہائی شرم کا مقام ہے۔لہذا گلگت بلتستان کی صوبائی حکومت اور دیگر امدادی ادارے اس ادارے کو وجود کے خاتمے سے بچانے کیلئے 31 مارچ سے قبل ہنگامی اقدامات اٹھائے اور ساتھ ساتھ گلگت بلتستان کے غریب اور نادار افراد کی جانب سے صدر پاکستان سے بھی یہ اپیل کی جاتی ہے کہ وہ انی تاریخی حکومت کے آخری ایام میں وفاق سے براہ راست ہلال احمر گلگت بلتستان کیلئے درکار رقوم جاری کرنے کے احکامات صادر فرما کر ادارے کو دوبارہ سے عوامی فلاحی و بہبود کیلئے کام کرنے کا قابل بنائیں۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button