کالمز

نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنے

جنت نظیر دلکش وادی گلگت بلتستان تاریخی اور جغرافیائی اعتبار سے اپنی مثال آپ ہے ۔یہاں پہاڑوں سے نکلنے والے قدرتی چشموں کا پانی زم زم کی طرح اور یہاں کے حسین نظارے جنت سے کم نہیں ۔اللہ تعالیٰ نے اس علاقے کو قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ۔گلگت بلتستان پاکستان کے شمال میں واقع ہے یہاں چائینہ ،انڈیا،افغانستان اور تاجکستان کے بارڈر بھی ملتے ہیں ۔گلگت بلتستان کی ٹوٹل آبادی ایک ملین سے زائد اور علاقہ 28000ہزار مربع میل پر پھیلا ہوا ہے ۔یہاں کے عوام نے اس علاقے کو اپنی مدد آپ کے تحت ڈنڈوں اور کلہاڑیوں سے ڈوگرا راج کو بھاگا کر آزاد کروایا اور بغیر کسی شرط ومشروط پاکستان کے ساتھ علاقے کو کراچی معاہدے کے تحت منسلک کردیا۔1947سے لیکر 1970تک حکومت پاکستان نے گلگت ایجنسی اور بلتستان ایجنسی کو چلایا تب ایک تحصیلدار علاقے میں کمانڈ کررہا تھا ۔جب 1970میں اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے علاقے کا دورہ کیا اور علاقے سے ایف سی آر جیسے کالے قانون کو ختم کرکے ناردرن ایریاز کونسل بنایا تب سے لیکر 2009تک کونسل میں گلگت بلتستان کے منتخب عوامی نمائندے چیف ایگزیکٹیو کے ماتحت عوامی خدمت کرتے رہے ۔29اگست 2009کو جب وفاق میں اور گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی تب ایمپاور منٹ اور سیلف گورننس آرڈر2009کے تحت کونسل کو اسمبلی کا درجہ دیا گیا تب سے گلگت بلتستان کے عوامی منتخب نمائندے وزیراعلیٰ جی بی اور گورنر جی بی کے ماتحت ہوگئے اور اسمبلی کیلئے فنڈز بھی بڑھادےئے گئے جب 2013میں وفاق میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آئی اور ٹھیک دو سال بعد گلگت بلتستان میں ن لیگ کی حکومت بھاری مینڈیٹ لیکر اقتدار میں آئی تب نومنتخب وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے تین بار گلگت بلتستان کا دورہ کیا انہی دوروں کے دوران وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف نے گلگت بلتستان کو بین الاقوامی سطح پر لنک کرنے کیلئے اقتصادی راہداری کے بڑے منصوبوں کا اعلان کیا جس پر عملدرآمد بھی تیزی سے جاری ہے لیکن یہاں کے عوام کبھی تحصیلدار کبھی چیف ایگزیکٹیو کبھی وزیراعلیٰ گورنر کے ماتحت رہنے کے بعد بھی وہ حقوق حاصل نہیں کرسکے جو کہ ان کا بنیادی حق تھا ن لیگ کی حکومت نے ہی پہلی مرتبہ اے پی سی کا انعقاد کیا جس میں تمام سٹیک ہولڈرز سے رائے لی سوائے گلگت بلتستان کے صحافیوں کے جن کو اے پی سی اجلاس میں مدعو کیا گیا ۔کیونکہ یہاں کے حالات کی حقیقت بھی صحافیوں سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے بہر حال قارئین کرام میرا مقصد آپ کو تنقید برائے تنقید کی طرف دھکیلنا نہیں ہے بلکہ یہاں کے تاریخی حقائق سے آپ کو آگاہ کرنا ہے ۔جب وزیراعظم پاکستان نے حالیہ دنوں گلگت بلتستان کا دورہ کیا اور نومنتخب گورنر میر غضنفر علی خان کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے اپنی دل کے تمام حقائق سے عوام کو آگاہ کرتے ہوئے کہا مجھے گلگت بلتستان سے پیار ہے یہاں کے عوام کوبہت کچھ دینا چاہتا ہوں عوامی نمائندے مجھے یہاں بلائیں تو میں یہاں آکر چار ارب کی جگہ پانچ ارب روپے دے کر چلا جاؤنگا وزیراعظم پاکستان نے ایکسپرس وے سکردو کے اعلان کے ساتھ کہا اقتصادی راہداری سے گلگت بلتستان میں خوشحالی آئے گی ویسے خوشحالی کے بارے میں سن کر تو آج تک گلگت بلتستان کے حقوق سے محروم عوام جی رہے ہیں ویسے وزیراعظم پاکستان نے گلگت بلتستان کو آئینی صوبہ بنانے کا عندیہ بھی دے دیا ہے جو کہ علاقے کیلئے نیک شگون ہے ۔میرا گلہ وزیراعظم پاکستان سے ہے تو صرف اتنا میاں صاحب آپ ملک کے وزیراعظم ہیں اور آج تک گلگت بلتستان کے عوام نے ملک کی دفاع سے لیکر ہر جگہ ملک عزیز کیلئے جانوں کے نذرانے بھی پیش کےئے آپ یہاں کے عوام کو کیوں ان پڑھ سمجھتے ہیں ۔شاہد پہلے دورے کی تقریر میں Laptopجسکو کمپیوٹر کہتے ہیں جو کہ ایک مشین ہوتی ہے جبکہ دوسرے دورے کی تقریر میں ایک ارب بہت بڑی رقم ہوتی ہے جو کہ ایک سو کروڑ سے بنتی کے الفاظ استعمال کئے تو یہاں میں آپ کو بتاتا چلوں پورے ملک پاکستان میں سب سے زیادہ تعلیمی معیار گلگت میں ہے ۔یہاں کی نوے فیصد عوام پڑھی لکھی خیر آپ کی محبت گلگت بلتستان اور یہاں کے عوام سے ہے تو آپ کے علم میں ایک اور حقیقت لانا وقت کی ضرورت سمجھتا ہوں یہاں وزیراعلیٰ گورنر اور وزراء تو سیٹ اپ مکمل کرنے کیلئے ٹھیک ہیں لیکن آج بھی فنڈز کا اختیار بیوروکریٹس کے پاس ہیں اور یہی بیوروکریٹس ہے جن کی وجہ سے سالانہ اربوں روپے علاقے خرچ ہوکے بغیر واپس ہوجاتے ہیں ۔اگر آپ اس علاقے سے واقع محبت کرتے ہیں تو سرکاری اداروں میں میرٹ بحال کرنے کے ساتھ کرپشن کا خاتمہ کردیں اور عوامی نمائندوں کے راستے میں حائل بیوروکریٹس کی رکاوٹوں کو ختم کرکے علاقے میں ترقیاتی منصوبوں کا جھال بچھا دیں یہاں کے عوام نے گلگت بلتستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ منڈیٹ آپ کی جماعت کو دیا ہے اور آپ سے عوام بھی اکثریتی طور پر آئینی صوبے کی توقع رکھتے ہیں ۔
محترم قارئین کرام یہاں پر میں گلگت بلتستان کے نڈر وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن کا ذکر نہ کرو تو شاہد یہ زیادتی ہوگی گورنر میر غضنفر کی تقریب حلف برداری میں وزیراعلیٰ گلگت بلتستان نے بھی دبنگ تقریر کرتے ہوئے گلگت بلتستان کے قابل وزیراعلیٰ ہونے کا ثبوت دیا ۔وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ یہاں کے عوام آئینی صوبہ چاہتے ہیں ۔گلگت بلتستان پاکستان کیلئے انرجی کوریڈور اور اکنامک کوریڈور کی حیثیت رکھتا ہے بے شک اگر گلگت بلتستان کے حوالے سے یہاں کے مقامی سیاستدانوں کی رائے کو اگر قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے تو واقعی جی بی کے مسائل حل ہوسکتے ہیں ۔پہلے تو گلگت بلتستان کو 65سالوں سے نظر انداز کیا گیا اور گلگت بلتستان کی اہمیت کو کسی نے سمجھنے کی کوشش نہیں کی آج تک یہاں کے عوام کے ساتھ صرف سیاست ہوتی رہی لہٰذا اب وقت آگیا ہے کہ گلگت بلتستان کی آئینی اور تاریخی حیثیت واضح کی جائے تاکہ یہاں کے عوام کو بنیادی طور پر ان کے حقوق مل سکیں ۔
قارئین کرام
ہمیں توقع رب پر رکھنا چاہیے اور علاقے میں قیام امن کیلئے ملکر بھائی چارگی اخوت امن کو فروغ دینا ہوگا جب تک یہاں امن برقرار نہیں ہوگی تب تک علاقہ ترقی کی راہوں پر گامزن نہیں ہوسکتاہم اگر پانچ فیصد اختلافات کو 95فیصد مشترکات پر حاوی کردیں گے تو کبھی ترقی نہیں ہوگی اگر ہم عوامی نمائندوں کے ذریعے علاقے کو ترقی کی راہوں پر لیکر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں اختلافات کو بھول کر خدا رسول اور قرآن پر متفق ہونا ہوگا ۔لڑائی شیطان کی ہے جو ہر وقت جکڑ کر رکھتی ہے ۔صوبائی حکومت کو بھی چاہے وہ گلگت بلتستان کے عوام کو روپیہ دو روپیہ میں نہ بیج ڈالیں بلکہ گلگت بلتستان کی علاقائی جغرافیائی حیثیت کو مد نظر رکھ کر مستقبل کے فیصلوں میں عوام کی نمائندگی کو بھی یقینی بنائیں تاکہ علاقے میں ترقی ہونے کے ساتھ آنے والی نسلیں بھی ترقی کی راہوں پر گامزن ہوسکیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو ۔علاقے کے معروف شاعر جمشید دکھی نے کیا خوب کہا ہے ۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button