کالمز

صدا بصحرا۔۔۔۔۔۔۔ اسرائیل کا ایران کو جواب

برطانوی خبر رساں ادارے نے خبر دی ہے کہ متحدہ عرب امارات کی ریاست اور بڑے شہر ابو ظہبی میں اسرائیل کا سفارتی مشن کھول دیا گیا ہے۔ اور توانائی کے تین بڑے منصوبوں کا ٹھیکہ اسرائیلی کمپنیوں کو دیا گیا ہے۔ ان منصوبوں میں گیس اور تیل کے منصوبے شامل ہیں۔ یہ ایران ، حزب اور شام کے اسرائیل مخالف عوام کو اسرائیل کا خاموش اور کرارا جواب ہے۔ اس میں کویت اور سعودی عرب کا کردار نمایاں ہے۔ امریکہ میں 2016ء کے صدارتی انتخابات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہوگا۔ کہ متحدہ عرب امارات میں اسرائیل کا سفارتی مشن قائم کر دیا گیا۔انتخابی مہم میں اسکو خوب اچھالا جائیگا۔1990ء تک امریکہ کے صدرتی انتخابات میں سویت یونین کے خلاف امریکی کامیابیوں کو عوام کے سامنے رکھا جاتا تھا۔ 1992کے انتخابات میں پہلی بار اسلامی ممالک کے خلاف امریکی فوج اور اسرائیلی حکومت کی کامیابیوں کو سامنے لایا گیا۔ اس کے بعد اسامہ بن لادن، القاعدہ وغیرہ کو پیش کیا گیا۔ 1990ء میں سویت یونین ٹوٹنے کے بعد دشمن کو مسلمانوں پر پہلی بڑی کامیابی اس وقت ملی جب یہودی افواج کا ہیڈ کوارٹر سینٹ کام، قطر کے دار الخلافہ دوحہ میں قائم ہوا۔ 10مسلمان ملکوں میں ایک لاکھ یہودی افواج کو چھا ؤنیاں بنا کر دے دی گئیں۔ ان ملکوں میں یہودی افواج کی مدد کے لئے 3 لاکھ یہودی اور عیسائی ٹھیکہ دار، کنٹریکٹر تعینات کر دئے گئے۔ جن میں بلیک واٹر ، ڈین کور، زی ورلڈ وائڈ بہت نماں ہیں۔ یہودیوں کے لئے کام کرنے والے کنٹریکٹر ز کی بڑی تعداد کا اسلامی ملکوں پر دھاوا بولنا اس بات کا ثبوت ہے۔ کہ اسلامی ممالک اس وقت تک محفوظ تھیں جب تک سویت یونین قائم تھا۔ یہودیوں کی پوری طاقت اور امریکہ کی پوری فوج سویت یونین کے خلاف کاروائیوں میں مصروف تھی۔ ان کو اسلامی ممالک پر حملے کی فرصت نہیں تھی۔ دنیا میں فلسطینیوں کے مسئلے پر بھی سویت یونین کو موثر کردار ادا کرنا تھا۔ مگر نوابزاداہ لیاقت علی خان کے غلط فیصلے کی وجہ سے پاکستان امریکہ کا غلط اتحادی بن گیا۔ یک طرفہ اتحادی بن گیا۔ پاکستان کی طرف سے ہر مرحلے پر امریکہ کی تابعداری اور امداد ہوئی۔ امریکہ کی طرف سے تاریخ کے کسی بھی موڑ پر پاکستان کی کوئی مدد نہیں ہوئی۔ امریکی حکومت اور یہودی لابی کے ہم نواؤں کا پورا گروہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال پیش نہیں کر سکے گا۔ کہ امریکہ نے بھی پاکستان کی مدد کی ہے۔ کوئی ایک مثال بھی ایسی نہیں ملتی۔ اس وقت عالم اسلام کا منظر نامہ بے حد بھیانک تصویر پیش کر تا ہے۔ اسلامی کانفرنس کی تنظیم کو امریکہ اور اسرائیل نے سعودی عرب کے ذریعے دفن کر وا دیاہے۔ 57اسلامی ممالک کا کوئی مشترکہ پلیٹ فارم نہیں ہے۔ سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تیسری دنیا کی تنظیم ختم ہو گئی۔ سیٹو (SEATO) کا اتحاد ٹوٹ گیا۔ سینٹو کا اتحاد بھی ٹوٹ گیا۔ نیٹو (NATO) کو اجارہ داری مل گئی۔ نیٹو اول روز سے امریکہ اور اسرائیل کا اتحادی ہے۔ 1978ء میں افغانستان کے اندر خانہ جنگی کروانے میں نیٹو ممالک نے امریکہ، اسرائیل اور سعودی عرب کا ساتھ دیا۔ پھر افغانستان پر امریکی قبضے کی راہ ہموار کرنے کے بعد نیٹو نے باقاعدہ فوج لا کر افغانستان میں ڈال دیا۔ اور افغان جنگ میں نیٹو نے امریکہ کے برابر حصہ لیا۔ عراق ، لیبیا، یمن، صومالیہ، سوڈان اور شام میں بھی نیٹو کا اتحاد امریکہ اور اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔ دشمن کو اسرائیل یا امریکہ کے نام سے پکارنے کی جگہ نیٹو یا اتحادی ممالک کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ اس طرح دشمن نے اپنا چہرہ چھپایا ہوا ہے۔ ابو ظہبی میں اسرائیل کا سفارتی مشن کھلنے کے بعد ان لوگوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔جنہوں نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ جنہوں نے افغان جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا تھا۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ ہم سعودی عرب کی مدد کر رہے ہیں۔ حالانکہ افغانستان کی جنگ اسرائیل اور یہودی افواج کو پاکستان کی سرحدوں پر ڈالنے کی جنگ تھی۔ افغان خانہ جنگی میں 1978سے 1990ء تک امریکہ کا ساتھ دینے والی قوتوں نے اسرائیل کو طاقت دی ہے۔ فلسطینیوں کو کمزور کیا ہے۔ دشمن کو تقویت دے کر اسلامی ممالک کو منتشر کر دیا ہے۔ یہ لوگ اب بھی پرانے ڈِگر پر چل رہے ہیں۔ ایران، حزب اللہ، شام اور فلسطین کے مقابلے میں سعودی عرب، اسرائیل اور امریکہ کو تقویت دے رہے ہیں۔ اگر برطانوی خبر رساں ایجنسی کی بات درست ہے اور ابو ظہبی میں اسرائیل کا سفارتی مشن قائم کر دیا گیا ہے تو یہ بات عیاں ہو گئی ہے کہ اسرائیل، سعودی عرب اور امریکہ نے ایران ، شام ، حزب اللہ اور فلسطینی اتھارٹی کو بہت کڑوا اور تلخ جواب دے دیا ہے۔ یہ عالم اسلام کے سینے پر مونگ دلنے کے مترادف ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

یہ بھی پڑھیں
Close
Back to top button