افراد کاکردار اور بدعنوانی
تحریر: محمدجان رحمت جان
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیر، ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ۔ اس شعرمیں جس فلسفے کا ذکر کیا گیا ہے وہ آپ سب جانتے ہیں۔ کسی بھی ادرے اور قوم کی ترقی کا بنیادی عنصر آخرکارفرد ہی ہے۔ فرد ہی نیک اور بد کا شکار ہونے کے بعد دوسروں کو اپنی زد میں لے سکتاہے۔ فرد کی انفرادی توجہ سے ہی ہر پُرزہ اپنی کارکردگی آگے بڑھاتاہے جس سے اجتماعی طورپرپوری مشینری چل سکتی ہے۔ جس طرح موبائل اور مشینوں میں لاکھوں چھوٹے چھوٹے پُرزے ہوتے ہیں اور ہر ایک کو اہم بنیادی کام سپرد ہوتا ہے جس کی وجہ سے اجتماعی طورپر وہ عمل ہو گزرتی ہے۔ اس طرح ہر ادارے میں افراد مختلف حیثیتوں میں اپنا کام کرتے ہیں۔ جہاں تک تعلیم کا تعلق ہے تعلیمی ادارے جو بچوں کو تعلیم سے بہرہ مند کرتے ہیں ان میں بھی افراد ہی اس مقدس پیشہ سے منسلک ہیں۔ ادارہ بذات خود کوئی چیز نہیں یہ افراد کی اجتماع کا نام ہے جن کو کسی تنظیمی مقصد کے لئے مجتمع کیا جاتاہے۔ ہر فرد کی اپنی ذمہ داری ہونی چاہئے تاکہ وہ اپنی حد میں اپنی کارکردگی سرانجام دے لیکن اداروں میں معاملہ ہی کچھ اور ہوتا ہے ایک شخص کہیں دوسرے اشخاص کی ذمہ داریوں کو انجام دے رہا ہوتاہے جس کی وجہ سے کام تسلی بخش نہیں رہتا۔ یہی بدعنوانی کی ایک مثال ہے۔ کوئی بھی مشین دنیا میں ایسا نہیں جس کو چند پُرزے چلاتے ہوں۔ یہ کام پاکستان سمیت کہیں ملکوں میں ممکن ہے مثال کے طورپر کچھ ٹریکٹر ڈرائیور چند پہیے نہ ہونے کے باوجود بڑے بڑے لوڈ اٹھاتے پھرتے ہیں۔ اس طرح کہیں ایک گاڑیاں بریک کے بغیر بھی چلائی جاتی ہے۔ یہی صورت حال تعلیمی اداروں میں ہے۔ اسٹاف کے بغیر سکول چلانا، نصاب کے بغیر پڑھانا، نقل کی بنیاد پر امتحان پاس کرنا یہ سب ان کی مثالیں ہیں۔
بدعنوانی کی کہیں قسمیں ہوسکتی ہے۔ ان میں وقت کی بدعنوانی سب سے بڑی چیز ہے۔ وقت پر سکول نہ آنا، کلاس نہ لینا، آفس کے اوقات کا خیال نہ رکھنا۔ اس کے ساتھ اخلاقی بدعنوانی بھی آج کل بہت ہوتی ہے۔ ہر آفس میں ذمہ دار لوگ اپنی اخلاق اور باتوں کی آڑ میں فائل دیکھنے کا گوارہ نہیں کرتے ہیں۔ وعدہ کرکے لوگوں کے کام نہیں کئے جاتے ہیں۔ جس آفس میں جاؤ آفس کے لوگ کہتے ہیں’ سر! کل تک چکر لگائیں کام انشاء اللہ ہوگا۔ وہ کل مہینوں میں بدل جاتاہے۔ خوشگفتار اور ملنسازی کے ساتھ چائے بھی پلاتے ہیں اچھی بات چیت بھی کرتے ہیں لیکن ’’کام ‘‘ نہیں کرتے یہ بھی بدعنوانی ہے۔ پیسے کی بدعنوانی تو سب جانتے ہیں!! والدین بچوں کے ساتھ ’سلوک‘ کی بدعنوانی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر والدین تمام بچوں کے ساتھ یکساں سلوک نہیں کرتے۔ کچھ کو مراعات سے لیس اور کچھ پر توجہ نہیں۔ اس طرح بچے بھی اپنا کام نہیں کرتے ہیں، وقت پر پڑھتے نہیں۔ بات سنتے نہیں۔ سچ بولتے نہیں۔ ہر شعبے کے لوگ آج کل ایک نئی گر سیکھ رہے ہیں ’تمیز سے پیش آؤ بیشک کام نہ کرو‘ یہ فارمولا بھی شاید کامیابی کا ضامن نہیں۔ بعض گھروں میں کھانے پینے میں بھی بدعنوانی ہوتی ہے۔ بڑے اور بااثر گھر کے افراد ’خاص‘ کھاتے ہیں چھوٹے اور بچوں کو بچا ہوا کھلاتے ہیں۔ بچوں کو گھروں سے نکال کے ’خاص‘ کھانے بنائے جاتے ہیں۔ ’کھانے کے ’خاص‘ حصے بھی بڑے ہی کھا جاتے ہیں۔ یہی سے’’خاص‘‘ کھانے کی تربیت کا آغاز ہوتا ہے۔ شادیوں دعوتوں اور مجلسوں میں بھی یہی خاص و عام کا تصور موجود ہے۔کیا ایسا نہیں ہوتا؟یہی عادات اداروں تک پہنچ جاتی ہے۔ برابری اور انصاف نہ ہونے کی وجہ سے لوگ غلط راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔
تعلیم کی ترقی افراد کی سنجیدگی پر انحصار کرتی ہے۔ والدین‘ اساتذہ اور ادارے کے ذمہ داروں کے ساتھ بچے اور نصاب کا کردار بھی سب جانتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر ایک چیز بہت اہم ہے وہ ہے ادارے کے بارے میں انہیں لوگوں کا تأثراور روّیہ۔ یہی سکول کی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ مثال کے طورپر کچھ شہرت یافتہ اداروں پر لوگ ایسے یقین رکھتے ہیں کہ تعلیم ان کے بغیر ممکن ہی نہیں سمجھی جاتی ہے۔ اجتماعی تأثر کے منفی ہونے کے بعد اُس ادارے میں بھلے کچھ بھی معیار ہو لوگ اُس کو قبول نہیں کرسکتے ہیں۔ یہی حال سرکاری سکولوں کا ہے۔ شاندار تعلیمی ڈھانچے اور پڑھائی کے باوجود لوگوں کی عدم توجہ اور منفی پروپگنڈے کی وجہ سے لوگوں کا اعتماد نہیں جس کی وجہ سے وہ اپنے ’خاص‘ بچوں کو ادھر لانے سے قاصر ہیں۔ گلی کوچوں کے نام نہاد سکولوں پر ان کے اشتہارات اور تبلیغ کی وجہ سے لوگ ان کی طرف راغب ہیں جس کی وجہ سے اُن کے کاروبار میں مذید اضافہ ہوتا جاتاہے۔ سرکاری سکولوں پر صرف ادارے کی توجہ کے علاوہ لوگوں کی توجہ کی بھی ضرورت ہے تاکہ مل کر ملکی بڑے تعلیمی نظام کے پہیے کو آگے بڑھایا جائے۔نجی ادارے بھی تعلیم کم فیشن زیادہ کے مصداق پر عمل پیرا ہیں۔ لوگ گلی کوچوں کے سکولوں میں بغیر کسی علم کے اپنے نونہالوں کی تعلیم دلانے میں بے تہاشہ پیشہ لگارہے ہیں اگر اُسی پیسے کو ’تمام‘ بچوں پر خرچ کریں تو معاشرتی کی کلی ترقی ہوگی۔ ہمارے معاشرے میں طبقاتی نظام ہونے کی وجہ سے سفید پوش لوگ اپنے آپ کو منفرد بنانے کے لئے الگ تعلیمی نظام رائج کرتے ہیں اور یوں ابتدائی عمر سے ہی لوگوں کو طبقات میں تربیت دی جاتی ہے۔ ایک طرف ہر فرقے کا اپنا تعلیمی نظام ہے اور دوسری طرف ہر طبقے کا بھی نظام بنتا جارہاہے۔ اس تناظر میں تعلیم کی مستقبل کا کیا ہوگا؟
علم سے انسانیت کو شعور ملتا ہے لیکن ہمارے معاشرے میں صرف معلومات ملتی ہے۔ مقابلے کے نام سے ابتدائی عمر سے ہی نئی نسل میں نفرتوں کے بیج بوئے جاتے ہیں جو بعد میں فساد کا سبب بنتے ہیں۔ مثال کے طورپر آج کل معاشرے میں شامل ہونے والے تعلیم یافتہ لوگ اپنے ساتھ اپنے تعلیمی تربیت کو بھی لیکر آتے ہیں۔ آج سیب سکول‘ مدرسہ سکول‘ پبلک سکول‘ انگلش میڈیم سکول‘ اردومیڈیم سکول‘ ابتدائی مدرسہ اسکولز‘ سرکاری سکول اور آرمی اسکولوں کے علاوہ درجنوں مختلف درسگاہیں اپنے اپنے اہداف کے ساتھ مقابلے میں ہیں۔ ان سب سکولوں سے نکلنے والی نسل کے درمیان میں بھی بڑا تناؤ پایا جاتاہے اس تناؤ کو آپ ان کی وردی‘ ٹوپی‘ ٹائی‘ اور دیگر لباس سے ہی اندازہ کرسکتے ہیں۔ بظاہر یہ تمام سکول ایک ہی کام کرتے ہیں لیکن درحقیقت ان کے مقاصد الگ الگ ہیں۔ مذہبی‘ غیر مذہبی‘ سائنس‘ آرٹ اور دیگر شعبے معاشرے کی ضرورت ہے لیکن بحیثیت انسان ان کی تربیت اور شعور ایک ہونا چاہئے کہ وہ سب بڑے ہوکر معاشرے کی فلاح کے لئے اپنا کردار ادا کریں بجائے وہ کسی کے مقابلے میں آکھڑے ہوں۔
مقابلے کے رجحان نے معاشرے کو تقسیم کر رکھا ہے۔ انسانی حقوق کی بات کرنے والے ادارے بھی ’کچھ‘ انسانوں کی فلاح کے علاوہ تمام انسانیت کے لئے کام کرنے سے قاصرہیں۔ انسانیت کی برابری انسانیت کے شعور سے ہی ممکن ہے لیکن طبقاتی فکر کی وجہ سے یہ ہدف ناممکن نظر آتا ہے۔ ’اچھے‘ تعلیم یافتہ لوگ عام لوگوں کو کس طرح تربیت کرسکتے ہیں؟ صاف وردی‘ ٹائی‘ جوتے‘ کرسی‘ کتابیں اور اچھے کمرے میں تعلیم پانے کے بعد غربت میں گیرے کسی سکول کے بچوں کو پڑھانا اتنا آسان نہیں! اس لئے تمام والدین کو ہر بچے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے والدین ہی اپنے بچوں میں طبقات پیدا کرتے ہیں پسند والے کو اچھی سکول میں اور ناپسند کو عام سکول میں داخل کیا جاتاہے ہی سے طبقات جنم لیتے ہیں۔ کچھ والدین کا جینا مرنا ہی اپنے بچوں کے لئے ہے اور کچھ بچوں کی وجہ سے جیتے ہیں لیکن ان کے لئے کچھ دینے کو تیار نہیں۔ کچھ اپنی ماضی کا بدلہ ان سے لیتے ہیں اور کچھ اپنی ماضی کا صلہ ان کو دیتے ہیں۔
اس مختصر بحث سے اس نتیجہ پر پہنچا جاسکتا ہے کہ افراد کی توجہ کے بغیر تعلیمی ماحول ممکن نہیں نہی بدعنوانی کاخاتمہ ہوسکتا ہے۔ کچھ لوگ ادارے کو سب کچھ سمجھ کر اپنی کردار سے عاری نظرآتے ہیں۔ ادارے افراد کے انتظار میں تباہی کا شکارہیں۔ مثال کے طورپر سکولوں میں شیشے‘ دروازے‘ کرسیاں‘ چارٹ‘ پن ‘ دوات‘ لائبریری کے کتب‘ کھیل کے سامان‘ سائنس کے سامان‘ بجلی کے آلات‘ عمارت کی دیوار‘ کمپونڈ کی دیوار‘ گیٹ اور دیگر تنصبات کو بچے بے دردی سے توڑتے ہیں یا ’’غائب‘‘ کرتے ہیں اس موقع پر ہر فرد اگر یہ کہے کہ ادارے کا ’’مال‘‘ ہے تو کب تک استعمال کی چیزیں باقی رہیں گے؟ سرکاری سکولوں میں ایک تأثر یہ پایا جاتا ہے کہ سرکار کی ’چیز ‘ہے۔ اگر سوچا جائے تو سرکار کون ہے؟ ہمارے ووٹ اور ہمارے ٹیکس ہی تو سرکار بناتے ہیں۔ اگر ہم سب بچوں کو یہ تعلیم دے کہ یہ تنصبات ہماری ہیں اور ہمارے ہی پیسے خرچ ہوکر یہی چیزیں ہمیں ملی ہے اگر ہم ہی ان کو توڑتے جائے یا اپنے گھروں کو لے جائے تو اگلی نسل کے لئے دوبارہ کون یہی چیزیں خریدے گا؟ سکولوں کی عمارات جو بنتی ہے بے تحاشہ بجٹ خرچ ہونے کے باوجود پہلے سال میں ہی جواب دے جاتے ہیں۔ خریداری‘ تعمیرات‘ وقت‘ تعلیمی مواد‘ اخراجات ہر چیز میں بدعنوانی ہوگی تو نئی نسل ہم سے کیا سکھیں گے؟ بدعنوانی کے ہفتے میں ہر سکول میں تقرریں کی گئی اس کے منفی اثرات سے بچوں کو اگاہ کیا گیا لیکن ہر بچے کو ہر’بدعنواں‘ کابھی پتہ ہو تو بدعنوانی کے سائے میں تعلیم کیسے ممکن ہوگی؟
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہماری قوم کو بدعنوانی جیسے لعنت سے دور رکھیں اور نئی نسل کو اچھے انسان بن کر مقابلے کی بجائے انسانیت کے احترام خود انحصاری کی توفیق دیں۔ اس موقع پر نبی علیہ صلاۃ وسلام کی یہ تعلیم بھولنا نہیں چاہئے کہ ’رشوت دینے والااور رشوت لینے والا دونوں آگ میں ہیں‘۔اس پیغام کو سمجھنا چائیے اور ہر فرد کو اس پر عمل کرنے کی سعی کرنا چایئے۔