علامہ اقبال نے میرے کان میں کیا کہا ؟ بہت ہی دلچسپ کہانی ہے لیکن پہلے قصہ گلگت بلتستان کا، یہاں کے لوگ مست ہیں ۔ لوگوں کے پاس دولت ہے اور وہ بھی بے تحاشا ۔ یہ آج سے کوئی ایک عشرے سے بھی پہلے کی بات ہے کہ میں اور میری اہلیہ جوتے خریدنے کے لئے ایک پٹھان کو اپنا سمجھ کے اُس کی دکان میں گھُس گئے ۔ جو بوٹ ہم نے گلگت آتے ہوئے پشاور میں دیکھے تھے وہی جوتے پٹھان بھائی کی دکان میں موجود تھے ۔ قیمت جو بتائی گئی وہ پشاور کی قیمت سے ایک گُنّا نہیں بلکہ کئی گُنّا زیادہ تھی ۔ ہم نے سوچا کہ یہ چمڑا کوئی خاص قسم کا ہوگا لیکن خوب ٹٹول کے دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ چمڑا بھی خاص یا مختلف نہیں تھا اور جو چیز مختلف تھی تو وہ اُن جوتوں کی آسمان سے باتیں کرتا دام تھا ۔ ہم پٹھان بھائی سے قیمت پر بحث کر ہی رہے تھے کہ دو اور گاہک آگئے اور اُنہوں نے اُنہی جوتوں کی قیمت پوچھی جن کی قیمت پر ہم بحث کر رہے تھے ۔ ہمارے پٹھان بھائی نے ہمیں جو قیمت بتائی تھی اُس سے بھی کچھ اُوپر دام گلگت کے گاہکوں کو بتا یا ۔ ان گاہکوں نے قیمت کی اونچ نیچ کے بارے میں کوئی بحث نہیں کی البتہ جوتوں اوراپنے پاؤں کے ناپ تول میں کچھ وقت لگادیے اور جوتے خرید کر چلے گئے۔
ہمیں بہت سخت شرمندگی بھی ہوئی اور ہم شدید تذبذب کا بھی شکار رہے۔ شرمندگی اس لئے کہ ہو سکتا ہے کہ یہ جوتے اُتنے ہی مہنگے تھے اور ہم نے دوکاندار کے ساتھ بے تُکی، جاہلانہ اور بے فائدہ بحث کی ۔ تذبذب اس بات پر کہ جو جوتے سونے کے بھاؤ ابھی بک گئے ہم نے وہی جوتے پشاور میں گٹھلیوں کے دام دیکھے تھے ۔ آخر یہ ماجرا کیا تھا ؟
دوکاندار جانتا تھا کہ ہمارا اور اُن کا تعلق ایک ہی صوبے سے ہے اور ہمارے ہاں سودا سلف کی روایت یہ ہے کہ پہلے قیمتوں کی اونچ نیچ پر طویل بحث و تمحیص ہوتی ہے تب جاکے دونوں فریق یعنی دکاندار اور گاہک قیمت کے کسی خاص زاوئے پر اتفاق رائے کرتے ہیں اور سودہ ہو جاتا ہے ۔ پٹھان بھائی نے ہمیں تھوڑی دیر بیٹھنے کو کہا ، چائے کی تواضع کی اور وہی جوتے بلاسٹک میں بند کرکے پشاور والی نرخ میں ہمیں تھما دیا اور کہا کہ ’’ مجھے گلگت میں کارروبارکا اب دسواں سال چل رہا ہے یہاں قیمت اپنی مرضی سے لگانی ہوتی ہے اور ان دس سالوں میں میری نظر میں آپ پہلے گاہک ہیں جنہیں قیمت پر بحث کرتے ہوئے میں نے پہلی مرتبہ تجربہ کیا ‘‘ ۔ بات اُن صاحب کی درست تھی یہاں قیمت پوچھی نہیں جاتی ہر تاجر اپنی مرضی سے مول لگاتا ہے ۔تاہم اِن لوگوں کے پاس کوئی غیر قانونی دولت نہیں ہے بلکہ یہ لوگ سخت مشقت اور محنت کرتے ہیں وقت کی قدر کرتے ہیں جو وقت ہم کسی دکاندار کے ساتھ قیمت کی کمی بیشی پر بے معنی بحث میں لگاتے ہیں اُتنے وقت میں وہ کئی ایک جوتے خریدنے کا عوض اُسی مخصوص وقت کو کار آمد بنا کے حاصل کرتے ہیں ۔ گلگت بلتستان پاکستان کا وہ خطہ ہے جو کہ یہاں کے محنت کش لوگوں کی وجہ سے سونا اُگلتا ہے ۔یہ پہلا عجوبہ تھا جس سے میں بہت متاثر ہوا ۔
گلگت میں جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ویسے ویسے کئی ایک عجوبے دیکھنے کو ملے ۔ دولت، محنت اور برکت کے سلسلے میں گلگت بلتستان میں تمام حوالوں سے ہنزہ نگر کا علاقہ ایک انوکھی جگہ ہے ۔ یہاں کے لوگوں کا دل کشادہ اور نیّتیں پاک و صاف ہیں۔ چھوٹی موٹی معاشرتی ناہمواریوں کو یہ لوگ خاطر میں نہیں لاتے اپنے کام سے کام رکھتے ہیں دوسروں کے معاملات میں دخلِ در معقولات سے ہمیشہ احتراز کرتے ہیں لیکن جہاں اپنے حق پر بات کرنی ہو تو کسی سے پیچھے نہیں رہتے ۔ اپنے حقوق کے حصول کے لئے ایک دوسرے یا مخالف گروہ سے لڑکے اپنا حق نہیں لیتے بلکہ ہمیشہ افہام و تفہیم اور ڈائیلاگ میں اپنے مسائل کا حل تلاش کرتے ہیں ۔ جیسے اچھے بُرے ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں اُسی تناسب سے کچھ بُرئے لوگ ہنزہ اور نگر میں بھی ہوں گے لیکن گلگت میں پندرہ سالہ قیام کے دوران جتنے لوگوں سے میرا واسطہ پڑا ہے میں نے اُن سب کو محبت کرنے والے ، سخت محنت کرکے اپنے پاؤ ں پر کھڑی رہنے والی قوم پائی ہے ۔ ہنزہ نگر میں لوگ بھر پور زندگی گزارتے ہیں اللہ تعالی نے جس کو جو صلاحیت ودیعت فرمائی ہے وہ اُس صلاحیت، مہارت اور قابلیت کو بھر پور انداز سے استعمال کرتا ہے۔ کوہ پیمائی ، موسیقی ، تعلیم ، تجارت ، کھیل اور رضاکارانہ کام میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یہاں کی خواتین گھر ہستی کی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ زمینداری کے اُمور میں مردوں کے ہاتھ بٹاتی ہیں۔
آپ جیسے ہی ہنزہ نگر کے علاقوں میں داخل ہوں گے آپ کو خواتین کھیتوں میں مصروف عمل نظر آئیں گی۔کامیاب مردوں کے پیچھے عورت کے ہاتھ کار فرما ہونے کے مقولے کی جیتی جاگتی مثال ہنزہ میں مل سکتی ہے ۔ یہاں کی مائیں، بہنیں اور بیٹیاں صبح سے دوپہر تک مختلف دفاتر اور درسگاہوں میں ہوتی ہیں اور ددفتروں سے واپس آکر زمین کا سینہ چیر کر اپنے علاقے کو جنت کا نمونہ بنانے میں مصروف عمل رہتی ہیں ۔ اس علاقے میں تعلیم کا ریشو پورے پاکستان میں صف اول پر ہے ۔ گیرن نام کا ایک ٹوکرا ہوتا ہے وہ ہر خاوتون کے پاس نظر آتا ہے ( گیرن کو کھوار زبان میں وشکُو کہتے ہیں جو کہ بید کی نرم و ملائم اور لچکدار شاخوں کو مروڑ مروڑ کر بناتے ہیں اس کے اندر ایک من کے قریب بوجھ ڈال کے پیٹھ پر بہ آسانی اُٹھا یا جا تا ہے ) ان خواتین کو زمینوں میں سخت محنت کے ساتھ کام کرتے ہوئے کوئی شرمندگی نہیں ہوتی ۔اپنی زمیں سے اپنی زندگی کی تمام خوشیاں حاصل کرتی ہیں۔ زمین ہی سے اپنی صحت بناتے ہیں ، تعلیم حاصل کرتے ہیں اور زندگی کی ہر اسائش سے لفط اندوز ہوتے ہیں ۔ یہاں کی زمین زرخیز ہے یہاں کی زمینوں میں مصنوعی کھاد کا استعمال بہت کم ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں کی فصل اور پھل فروٹ میں ایک خاص ذائقہ ہوتا ہے جسے (Organic food ) کہتے ہیں یعنی ہر قسم کے زہریلے اثرات سے پاک ۔ یہاں کے پھل اور سبزیوں میں چیری ، سیب، خوبانی ، آڑو ، لو کاٹ ، آملوک ، انگور انجیر، توت ، آلو، شلجم ، چائینا پالک، بھنگن، گاجر، مولی،پیاز اور ٹماٹر پاکستان کے دوسرے شہروں کے علاوہ پڑوسی اور دوست ملکچین ا برآمد کیا جاتا ہے جس سے یہاں کی معیشت سال بہ سال ترقی کرتی ہے ۔
یہاں کی خواتین مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں یہاں تک کہ ہنزہ میں خواتین ترکھانی کا کام بھی خاص مہارت اور انجینیرنگ سے کرتی ہیں ۔ خاتوں کمرشل پائلٹ نتا شاہ اور بین الاقوامی شہرت یافتہ کوہ پیما محترمہ ثمینہ بیگ، پاکستان کی سب سے پہلی عورت مسلمان کوہ پیما ہیں جن کا تعلق بھی ہنزہ سے ہے ۔یہاں کی سب سے بڑی بات یہاں کہ روایتی مصنوعات کی ایکسپورٹ ہے ہنزہ کی دست کاری کی مصنوعات دنیا بھر میں مشہور ہیں ۔
مجھے جس چیز نے یہ مضمون لکھنے پر مجبور کیا وہ بڑی دلچسب ہے ۔
میں ہنزہ میں دیسی مصنوعات کی ایک دوکان میں دخل ہوا ۔ اس دوکان میں تمام اشیأ ہاتھ کی بنی ہوئی تھیں ۔ دکاندار نے مجھے ایک زنانہ چترالی ٹوپی دکھائی جس کی قیمت جو دکاندار نے بتائی وہ ایک لاکھ پچاس ہزار روپے تھی یعنی ۱۵ سو ڈلر، یہ ٹوپی چترال میں بہت زیادہ بنتی تھی آج کم یا بالکل نہیں بنتی ہے ۔ ان ٹوپیوں کے بنانے میں جو محنت، مشقت اور عرق ریزی کا ر فرما ہوتی ہے وہ معنی رکھتی ہے۔ مجھے آج کی طرح یاد ہے کہ میری والدہ اور چچی صاحبہ بہار کے موسم میں توت کی کونپلیں پھوٹتے ہی ریشم کے کیڑے پالنا شروع کرتی تھیں اور توت کے پتوں کو ان کیڑوں کے لئے بہترین غذاأ کے طور پر جمع کرتیں اور اُنہیں کھلاتیں۔ اس کام کے لئے ایک بڑا اور قدرے ہوا دار کمرے کا انتخاب کیا جاتا تھا۔ یوں میں نے ریشم کے کیڑوں کو زندگی کے چار مختلف ادوار سے گزرتے ہوئے دیکھا ہے یعنی انڈا ، لاروا ، پیوپا اور پھر آخری مرحلے میں اپنے خول سے پروانہ بن کے اُڑان بھرنے کے ساتھ انڈے دینے تک کا تماشا ہماری آنکھوں کے سامنے ہوا ہے ۔ اور جس خول سے یہ لاورہ پروانہ بن کے نکلتا ہے یہی وہ خول ہوتا ہے جوکہ ریشم میں لپٹا ہوا ہوتا ہے اور سونا اُگلتا ہے ۔ اس خول کو مزید کئی ایک مراحل سے گزارنے کے بعد ریشم کا دھاگہ تیار ہوتا ہے ۔ اور ہماری خواتین اُسی دھاگے کو استعمال کرتے ہوئے دست کاری کا کام انجام دیتی ہیں اورزنانہ ٹوپیاں ، سرمہ دانی تھیلے، زنانہ کپڑوں کے لئے گریبان، پان پوش، میز پوش او ر سینکڑوں مختلف قیمتی مصنوعات بناتی ہیں ( بناتی تھیں جو کہ اب مفقود ہے )۔ تو میں نے دوکاندار سے اس مہینگی ٹوپی کے حوالے سے دریافت کرنے ہوئے پوچھاکہ بھائی اس میں کونسی ایسی خاص بات ہے کہ یہ ٹوپی چترال سے کشان کشاں ہنزہ پہنچی اور سونے کی چڑیا بنی ؟
انہوں نے کہا کہ یہ پرانی ٹوپیاں چترال میں استعمال نہیں ہوتیں اور گلگت میں بھی اِن کا استعمال بہت کم ہے بلکہ نہ ہونے کے برابر ہے ۔ لیکن باہر کے لوگ اسکی دل سے قدر کرتے ہیں اور سونے کے بھاؤ بکتی ہیں۔ انہوں نے ایک غیر ملکی سیاح کی بڑی دلچسپ کہانی بتائی۔
یہ کہانی اس دکاندار نے سیاح کے ساتھ گھومنے والے ایک مقامی گائیڈ کی زبانی خود سنی تھی ۔ ائیے آپ بھی سنئے :
کہانی یوں ہوئی کہ سیاح نے اسی دکان سے دو ہزار ڈالر کی ایک ٹوپی خریدی اور اپنے گائیڈ کے ساتھ پاکستان کے دوسرے شہروں کا رخ کیا ۔ پاکستان کے ایک پرانے شہر پشاور میں گھومتے ہوئے روایتی مصنوعات کی ایک دکان میں داخل ہوے جہاں زنانہ چترالی ٹوپیاں لٹک رہی تھی ۔ سیاح نے سوچا کہ ہاتھ کی سلی ہوئی ایک اور علاقائی ٹوپی خریدی جائے ۔ سیاح نے دکاندار سے قیمت پوچھی تو دکاندار نے اُس ٹوپی کے دام ۱۰ ہزار بتائے اس قیمت میں دوکاندار کا منافع نوہزار پانچ سو کا تھا ۔ غیر ملکی سیاح نے دکاندار سے سوال کیا کہ کیا یہ مشین سے بنی ہے ؟ دکاندار نے کہا کہ نہیں جناب یہ ہاتھ کی بنی ہوئی ہے تو سیاح نے دوکاندار سے کہا کہ ’’ پھر آپ اتنے سستے داموں کیوں بیچ رہے ہو حالانکہ ہنزہ میں ، میں نے یہی ٹوپی پچھلے دنوں دو لاکھ روپے کی خریدی ہے ‘‘ دکاندار نے فاتحانہ انداز سے ہنستے ہوئے کہا کہ ’’ ہنزہ میں آپ کے ساتھ بڑا دھوکہ ہوا ہے اس کی قیمت اگر بہت زیادہ ہو تو ۱۵ ہزار روپے سے اوپر نہیں ہوگی ‘‘ غیر ملکی سیاح کو بہت غصہ آیا بولے کہ’’ دھوکہ تو تم نے کیا ہے۔ آپ کے علاقے کے لوگوں نے اس کی سلائی کڑائی میں جو محنت کی ہے اُس محنت کا صلہ تو لاکھوں ڈالر سے بھی زیاد ہونا چاہیے ‘‘ سودا سلف کے بعد سیاح کے گائیڈ نے وقت نکال کر اس واقعے کے حوالے سے اُس غیر ملکی سیاح سے جو مزید گفتگو کی اُس کا لب لباب یہ تھا کہ : اصل میں قیمت اُس کپڑے یا اُس دھاگے کی نہیں ہوتی بلکہ اصل قیمت اُس بندے کی سوچ اور احساسات کی ہوتی ہے جو وہ اُس محنت کے دوران سوچتا یا سوچتی ہے ۔ ایک فنکار یا فنکار ہ دست کاری اور گلکاری کے دوران سوئی کو کپڑے کے جن جن حصوں میں کھونپ دیتا / دیتی ہے در اصل فن کے قدران لوگ اُن باریک زاویوں کونظر تدقیق سے دیکھتے ہیں ۔ہاتھ سے بنی ہوئی چیز میں زندگی موجزن ہوتی ہے دست کاری کے ان فن پاروں کے اندر وہ فنکارہ اور فنکار ہمیشہ کے لئے امر ہو جاتا ہے ۔ ایسی مصنوعات کو خریدتے ہوے سوچنا چاہئے کہ ہم در اصل کپڑے میں ریشم کے دھاگے سے سوئی کی باریک نوک کے ذریعے ایک مربع انچ میں ہزاروں گرہ باندھ کر بنائے جانے والی خوبصورتنقش و نگار کو ہی نہیں خرید رہے ہوتے ہیں بلکہ اُ س تصویر کے خالق کے اندر بسنے والے فنکار یا فنکارہ کو بھی خرید رہے ہوتے ہیں لہذا اس کی قدر وقیمت اُس وقت بڑھ جاتی ہے جب اِس کے دام زیادہ سے زیادہ اور بہت زیادہ لگائے جائیں۔ سیاح نے مزید یہ بتا یا کہ ہنزہ میں اِن لوگوں کی قد دانی کی جاتی ہے جو کہ کسی بھی زندہ قوموں کی پہچان ہے ۔
یہ ساری کہانی ہنزہ کے ایک دوکاندار کی زبانی جب میں سن رہا تھا تو مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے علامہ اقبال میرے کان میں کہہ رہے ہوں :
رنگ ہو یا خشت و سنگ چنگ ہو یا حرف و صوت
معجزہ فن کی ہے خون جگر سے نمود