تحریر: ایم ایم قیزل
محبت کے چالیس اصول ترکی اور انگریزی زبان کے مشہور ناول نگارایلف شفق کی ایک بہترین ناول ہے جس میں انہوں نے رومی ا شمس تبریز کی دوستی میں تصوف کو بیان کیا ہے، اس ناول میں انہوں نے آٹھ سوسال قدیم رومی و شمس کی محبت کو اکیسوی صدی کی ایک کردار کے ذریعے نہایت دلچسپ انداز میں قرطاس قلم کی ہے
اس خوبصرت ناول کو پڑھ کر قاری یہ محسوس کرتا ہے کہ زندگی محبت کا نام ہے عشق کی حلاوت بہت میٹھی ہوتی ہے چاہے اس ۔۔میں جتنا بھی مشکلات کا سامنا کیوں نہ ہو، محبت کی کوئی تعریف نہیں ہوتی یہ پاک و صاف اور سادہ ہوتی ہے۔
اس ناول کا مرکزی کردار مانچسٹر میں رہایش پزیر چالیس سالہ ایلا ہے جسکی زندگی تین بچوں کی دیکھ بھال اور گھر میں طرح طرح کے کھانے پکانے میں گزر رہی ہے جبکہ شوہر کی غفلت انکے لئے باعث پریشانی بھی۔ وہ محبت کو ایک فضول کام سمجھتی ہے اس لئے بیٹی کی پسند کی شادی کرنے کی مخالفت کرتی ہے۔ ایلا کی زندگی میں تبدیلی تب آجاتی ہے جب انہیں ایک ادبی ایجنسی میں ایک ناول پڑھنے اور اسکا جائزہ لینے کی نوکری ملتی ہے۔ یہ ناول دراصل فورٹی رولز آف لو ہی ہوتا ہے جس میں شمس تبریز اورمولانا رومی کی ملاقات اور انکے درمیان عشق کی داستان بیان کی گئی ہوتی ہے۔
یہ ناول شروع سے آخر تک نہایت ہی دلچسپ انداز میں دو متوازی محبتوں کے حکایاتی تذکرے کو قاری پر رنگین وخوبصورت وادی کی طرح صفحہ در صفحہ نہ صرف عیان کرتی ہے، بلکہ ہر صفحہ قاری میں ایک تجسس بھی پیدا کرتی ہے۔
ایلا کو جب سویٹ بلاسفمی نامی تاریخی و پر اسرار ناول جو کہ ممتاز صوفی و شاعر مولانا رومی اور شمش تبریزسے متعلق ہوتی ہے پر کام کرنے کے لیے دیا جاتا ہے تو وہ اس کتاب کے منصف عزیز زاہرا سے شروع میں بذریعہ ای میل اور پھر فون پر رجوع کرتی ہےبن دیکھے انکے خیالات و افکار سے متاثر ہوتی ہے اور ان سے محبت کرنے لگتی ہے۔ محبت کو خام سمجھنے والی ایلا کو احساس ہوتا ہے کہ زندگی محبت کے بغیر بے کار اور ادھوری ہے۔ جب انکے شوہر کو اس بات کا علم ہوتا ہے کہ انکی بیگم کسی کے محبت گرفتار ہوئی ہے تو وہ اسے منانے کی کوشش کرتا ہے وہ وعدہ کرتا ہے کہ وہ اب کے بعد وہ اسے وقت دے گا اور وفادار رہے گا اسے نظر انداز نہیں کرے گا مگر تب تک ایلا عشق میں اتنا آگے بڑھ چکی تھی کہ واپسی محال ہوگیا تھا ۔
ایک دن عزیز ان سے ملنے انکے شہر آجاتا ہے جہاں ایلا سے وہ ایک ہوٹل میں ملاقات کرتا ہے ایلا انکے ساتھ جانے کا ارادہ کرتی ہے مگر عزیز انہیں بتاتا ہے کہ وہ انہیں کوئی روشن مستقبل نہیں دے سکتا کیوں کہ وہ جلدی کینسر کا مریض ہے نہ جانے کب اس کی سانسیں ساتھ چھوڑ دے۔ مگر ایلا سب کچھ چھوڑ چھاڑ شمس تبریز کے اس اصول کی پروی کرتی ہے کہ اپنے دل کے فیصلے پر عمل میں دیر نہیں کرنی چاہیے ۔
ایلا اپنے شوہر اور تین بچوں کو چھوڑ کر عزیز کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ایک دن دونوں شہر قونیہ (ترکی) جہاں مولانا رومی مدفن ہے کے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا کھا رہے ہوتے ہیں کہ اچانک عزیز فرش پر گر پڑتا ہے اسے قریبی ہسپتال لے جایا جاتا ہے ۔ ایلا ہسپتال میں عزیز کے بسترسے لگی بیٹھی انکے ہاتھ تھامے ان سے بات کرنے کی آرزو مند ہوتی ہے مگر عزیز نیم بے ہوش آنکھیں بند کئے بستر مرگ پہ لیٹا ہوتا ہے ۔ایلا چند لمحوں کے لئے مایوسی کے عالم میں کمرے سے باہر نکلتی ہے اور ہسپتال کے باہر جھیل کنارے کھڑی ہوکر جھیل میں کنکر پھنکتی ہے اور مایوسی کے عالم میں خدا سے شکایت کرتی ہے کہ زندگی کے کئی سال بیت جانے کے بعد انکے دل میں عشق کی چنگاری لگا دی اور اس کم عرصے میں پھر ان سے اسکی محبوب کو چھین لیا ۔
کچھ دیر بعد جب وہ کمرے میں واپس آتی ہے تو کیا دیکھتی ہے کہ ایک ڈاکٹر اور نرس نے عزیز کو سر سے پاوں تلک سفید چادر میں ڈھانپ لیا ہے عزیز اس دنیا سے جا چکا ہے۔ انکی خواہش کے مطابق انہیں انکے مرشد مولانا رومی کی آرام گاہ کے پاس دفن کر دیا جاتا ہے اور ایلا ایک درویشانہ زندگی گزارنا شروع کرتی ہے۔
جبکہ دوسری جنانب شمس تبریز اور مولانا رومی کی داستان عشق کی کہانی قاری کو اپنی گرفت لئے آگے بڑھتا ہے شمس تبریزجو کہ بچپن سے روحانی خیالات کا پیکر ہوتا ہے وہ اپنے گھر کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہتا ہے اور ملکوں ملکوں ، شہر شہر درویشوں کی تلاش میں قونیہ پہنچ جاتا ہے جہاں وہ مولانا رومی سے ملتے ہیں، شمس جہاں بھی جاتے وہاں درویشوں کے دلوں پرانمٹ نقوش چھوڑ جاتے ہیں ۔ جیسے ہی رومی شمس تبریز سے ملتے ہیں وہ اپنی ظاہری نمود و نمایش ،عام مجالس ، اور تدریسی کام سے نکل کرعارفانہ و صوفیانہ راہ پر گامزن ہوتے ہے۔ شمس کی باتیں ہر عام شخص کی فہم میں نہیں آتی اور وہ انہیں بدعتی ، اسلام مخالف وغیرہ سمجھنے لگتے ہیں شمس کہتا ہے کہ ہر شخص کو کھلی اجازت ہے کہ اپنے طریقہ سے عبادت کرئے۔خدا کواس سے کوِئی سروکار نہیں وہ صرف دلوں کی دیکھتا ہے۔
مولانا رومی جب خطبے و تقایر، درس و تدریس چھوڈ کر خودشناسی کے سفرپر شمس تبریز کے ساتھ گوشہ نشنی اختیار کرتے ہیں توانکے گھر والے اورقونیہ کے لوگوں کو انکی خلوت پسندی و گوشہ نشنی پسند نہیں آتی ہے۔ وہ شمس تبریز کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ شمس نے رومی پر کالا جادو کر کے اسے اپنی قابو میں کر لیا ہے۔ روز بہ روز شمس تبریز کے بد خواہوں میں اضافہ ہوتا ہے یہاں تک کہ مولانا رومی کا نرینہ اولاد علاوالدین انکا دشمن بن جاتا ہے۔ جبکہ مولانا رومی عشق کی انتہا کو چھو جاتے ہیں یہاں تک کہ ایک دن شمس رومی سے شراب خانہ جا کے شراب لانے کو کہتے ہیں اور رومی بغیر کسی سوال کے سر عام شراب لے آتے ہیں۔ رومی اپنے مرشد کے دئیے ہوے اس امتحان میں کامیاب ہوجاتے ہیں یعنی ﺍﭘﻨﯽ ﺍﻧﺎ ﮐﯽ ﮨﺴﺘﯽ ﮐﻮ ﯾﺎﺭ ﮐﮯ ﺩﺭ ﭘﮯ قربان کر جاتے ہیں ۔
شمس تبریز ایسے میں رومی کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں مولانا سے انکی جدائی برداشت نہیں ہوتی اور ہجر یار میں زار و قطار روتے ہیں۔ رومی عشق کا پیکر بن جاتے ہیں انکے منہ سے نکلا ہر لفظ شاعری میں ڈھل جاتی ہے ، سلطان ولید سے اپنے والد کا یہ حال سہا نہیں جاتا اور شمس کو ڈھونڈ کر واپس لے آتے ہیں رومی اور شمس میں پھر وہی صحبتیں شروع ہو جاتی ہیں۔ مولانا کے مرید اور گھر والے سب مولانا کا قرب چاہتے ہیں مگر رومی ہے کہ وہ اپنے مرشد سے پل بھر کے لئے بھی دوری نہیں چاہتے ، آخر کار مولانا رومی کا ایک بیٹا علاو الدین اور قونیہ کے کچھ اوباش مل کر شمس کو قتل کرتے ہیں۔اب رومی کی دنیا اجڑ جاتی ہے اور وہ شعر گوئی کے ذریعے غم جاناں کا تذکرہ کچھ اس انداز سے کرتے ہیں کہ ہر سنے والے پر اثر کرتی ہے اور انکے ان اشعار سےدیوان رومی بن گئی جسےمثنوی مولوی معنوی / هست قران در زبان پہلوی کہا جاتا ہے۔
یہ ناول اہل ادب کے لئے ایک منفرد تحفہ ہے جو قاری کے اندار صبر، محبت ، حق گوئی کے جذبات پیدا کرتا ہے
Like this:
Like Loading...
Related
آپ کی رائے
comments
Back to top button