ایسا کیوں ہے کہ ہمارے خطے میں ایوان ا قتدار کے مکینوں کو سب اچھا ہے کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا؟ کیا وجہ ہے کہ خود کو عوامی نمائندہ کہلوانے والوں کو زمینی حقائق کا ادراک نہیں۔ گلگت بلتستان کے حکمرانوں کو دیکھ کر کہا یہی جا سکتا ہے کہ کرسی کا نشہ اورا قتدار کا مزہ اسی بات میں ہے کہ آنکھ بند کرکے “سب اچھا ہے” کا نعرہ لگاتے ہوئے تاریخ کو مسخ کرو۔ کامیابی یہی ہے کہ اقتدار ہاتھ میں آتے ہی جھوٹ کو سچ اور فریب کو حقیقت بنا کر عوام کے سامنے پیش کرو، سادہ لوح عوام کو قومی حقوق کی اہمیت اور ضرورت سے بے خبر رکھ کر پانچ سال مل کرو اور پھراگلے انتخابات میں نئے وعد ے کر و۔ ایسا لگتا ہے کہ ہمارے خطے کو اس وقت انتظامی حوالے سے جو مسائل درپیش ہیں وہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں کیونکہ جب سیاست دان اقتدار اور مراعات کو ہی سب کچھ سمجھیں تو ان کے ماتحت اداروں سے خیر کی توقع کیوں کرکی جا سکتی ہے۔ڈوگروں سے آزادی حاصل کیے دہائیاں گزر چکی ہیں لیکن ہمارے عوام کو معلوم ہی نہیں کہ ہماری سیاسی اہمیت اور تاریخی و جعرافیائی حیثیت کیا ہے کیونکہ مراعات یافتہ طبقے نے حقائق عوام سے پوشیدہ رکھے ہیں۔ جمہور کو اس سوال کا جواب آج تک نہیں دیا گیا کہ اگر الحاق کے حوالے سے کوئی قانونی اور آئینی جواز موجود ہیں تو پھریہ سب ماجرا کیا ہے؟ یہاں پر قانون پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا؟ ۔ قانون کے رکھوالوں نے قانون کو گھر کی لونڈی کیوں بنایا ہوا ہے؟ قانون کے لمبے ہاتھ صرف حقوق کا مطالبہ کرنے اور خطے میں قانون کی بالادستی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کے گریبان تک ہی کیوں دراز ہیں؟ قانون کے نام پر نئی نسل کو دہشت گرد قرار دینے کا یہ سلسلہ آخر کب رْکے گا؟ ۔ قانون کے رکھوالوں کا سیاسی انتقام لینے کے لیے عوام کو ہراساں کرنے کا یہ سلسلہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہاں تو گاوں گاوں، قریہ قریہ پولیس کا سپاہی خود کو محلے کا حکمران سمجھتا ہے۔ پولیس گردی گلگت بلتستان کی تاریخ میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ صاحب اقتدار طبقے کی طرف سے مخالفین کو زدوکوب کرنے کا بہترین ہتھیار پولیس کا ادارہ ہی ہے۔ مقامی پولیس عوام کو تحفظ دینے کی بجائے حکمرانوں کی منشاء اور مرضی مقدم جانتی ہے۔یہ توداریل سے تعلق رکھنے والے زوہیب اللہ کی خوش قسمتی تھی کہ اْسے بے گناہی ثابت کرنے کے لئے پرنٹ میڈیا، سوشل میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا کا سہارا حاصل تھا۔ اسے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لئے مقتدر طبقے کی منت سماجت کی بجائے اپنے موقف کی سچائی ثابت کرنے اور قانون کے سامنے اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا موقع ملا، ورنہ یہاں تو نہ جانے کتنے زوہیب اللہ ہوں گے جو شب وروز پولیس گردی کا نشانہ بنتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ زوہیب اللہ کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے لے کر اسے اشہتاری قرار دے کر عدالت میں پیش کرنے تک کے ہر مرحلے میں دیامرپولیس کا مکروہ چہرہ بْری طرح بے نقاب ہوا ہے۔ دیامر پولیس پر اپنی پرموشن کے لئے دہشت گرد عناصر سے مذاکرات کرنے اور ایسے دہشت گردوں جن کے سروں کی قیمت مقرر ہے کہ سروں کی قیمت سرکار سے وصول کرکے عدالت میں اُسی پیسوں سے کیس کی پیروی کیلئے معاونت کرنے کے الزامات لگائے جا رہے ہیں، محکمہ پولیس گلگت بلتستان کو اس حوالے سے تفتیش کرنے کی ضرورت ہے۔ مقامی معاشی ضروریات پر وفاق پاکستان کا رویہ بھی مقامی آبادی کو نظرانداز کرنے کا ہے۔ اقتصادی راہداری کا عظیم منصوبہ جو گلگت بلتستان کا سینہ چیر کر پاکستان کی آئینی حدود میں داخل ہو گا، اس منصوبے سے متعلق گلگت بلتستان کے حقوق پر بات کرنے کو کوئی تیار نظر نہیں آتا۔ مقامی مراعات یافتہ حکمران طبقہ اس بات کی رٹ لگائے بیٹھا ہے کہ ہمیں بھی فائدہ ہو گا۔ اس اہم منصوبے سے متعلق بھی اسی فریب دہی سے کام لیا جا رہا ہے جو بغیر معاہدے کے الحاق کے بعد سے مقامی آبادی سے روا رکھی گئی ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل تک ہمیں اس خوش فہمی میں مبتلا رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ہمیں کسی حوالے سے نظرانداز نہیں کیا جارہا ہے لیکن بدقسمتی سے حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ اس وقت پاکستان کے چاروں صوبوں کو باقاعدہ روڈ میپ کے ذریعے اس عظیم منصوبے سے متعلق اعتماد میں لے کر اس منصوبے پر کام کو آگے بڑھایا جا رہا ہے مگر باشندگانِ گلگت بلتستان کو اعتماد میں لینا تو دور کی بات مقامی نمائندوں کو اس ضمن میں ہونے والے سرکاری اجلاسوں میں بھی نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس اہم قومی مسئلے پر گلگت بلتستان کی قیادت کا خاموش رہنا مجرمانہ ہے اور عوام کے لیے گمراہ کن بھی ہے۔ہمارے مطالبات کے باوجود یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہوچْکی ہے کہ پاکستان مسئلہ کشمیر کے حوالے سے اپنی خارجہ حکمت عملی تبدیل نہیں کرے گا۔ پاکستان گلگت بلتستان کو مسئلہ کشمیرکے حل تک آئینی طور پاکستان میں شامل کرنے کے لئے تیار نہیں۔ یعنی اس وقت گلگت بلتستان آئینی اور قانونی طور پر کسی ملک کا حصہ نہیں اور اٹھائیس ہزار مربع میل پر مشتمل یہ خطہ انتظامی حوالے سے پاکستان کے زیر انتظام ہے۔ یہ خطہ اکثر پہاڑی علاقوں پر مشتمل ہے اس لئے یہاں کھیتی باڑی اور رہائش کے قابل زمین نہ ہونے کے برابر ہے۔ کہا یہ جارہا ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے بننے کے بعد تقریباً پورا دیامر زیر آب آئے گا، اسی طرح بونجی ڈیم،ہینزل ڈیم، سکردو ڈیم، استور حرچو ڈیم کے بننے کے بعد جو زمینیں رہائش اور کاشت کے قابل ہیں وہ بھی تقریباً ختم ہو جائیں گی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ حکومت خالصہ سرکار یا عوامی تنازعات کو بہانہ بنا کر زبردستی لوگوں کی ملکیتی زمینوں پر قابض ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے عوام مہدی شاہ دور حکومت میں اس بات پر شکوہ کناں رہے کہ اْنہوں نے سرکاری فنڈز کی بندر بانٹ کی لیکن نون لیگ کی حکومت میں تو عوامی املاک کی بندر بانٹ ہو رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی قرادادوں کے مطابق اس خطے کی مستقبل کے حوالے سے فیصلہ ہونا ابھی باقی ہے لہٰذاگلگت بلتستان کی سرزمین باشندگان ریاست کی ذاتی ملکیت ہے قانونی اور آئینی طور پر یہاں کے زمینوں کا ایک ٹکرا بھی خلاصہ سرکار نہیں کیونکہ پاکستان کے ساتھ تمام تر محبت، خلوص اور جذبوں کے باوجود گلگت بلتستان آج بھی آئینی اور قانونی طور پرپاکستان کا حصہ نہیں بلکہ ڈوگرہ سرکار کے متاثرین میں سے ہے لہذا اس خطے کی مستقبل کا فیصلہ کئے بغیر یہاں خالصہ سرکار کے نام پر عوامی املاک پر قبضہ کرنے کا یہ سلسلہ اب بند ہوجانا چاہئے۔ اس وقت گلگت بلتستان میں جو لوگ نجی سطح پر بالخصوص شنگریلا بلتستان پر جو لوگ بغیر کسی رائلٹی اور ٹیکس کے قابض ہیں ان سے یہ سیاحتی مقام واپس لے کر محکمہ سیاحت گلگت بلتستان کے سپرد کر کے اس کی رائلٹی اور آمدنی عوام پر خرچ کرنے کی ضرورت ہے۔ شنگریلا انتظامیہ اس وقت مقامی افراد سے بھی اس مقام پر داخلے کے لئے نامناسب فیس وصول کرتی ہے جو گلگت بلتستان کے عوام کے ساتھ زیادتی ہے۔ متنازعہ حیثیت کے باوجود یہاں کے عوام کی ہمدردیاں پاکستان کے ساتھ ہیں لہذا متازعہ خطے میں کوئی بھی نظام لاگو کرنے سے پہلے اس خطے کی آئینی اور قانونی حیثیت کو مدنظر رکھتے ہوئے قانون پر عمل درآمد کو یقینی بنانا ضروری ہے۔