کالمز

اے نگارِ وطن تو سلامت رہے،،

اے خاک پاک تجھے چومتے چومتے ، تیری طواف کرتے کرتے ، تیرا گن گاتے گاتے ، تیری تاریخ دھراتے دھراتے حیات مستعارکے چند لمحے گزرتے ہیں۔ اے ارض پاک سوچنے والا سوچتا ہے کہ وہ دن بھی کیا دن ہونگے۔ وہ لمحے بھی کیا لمحے ہو نگے جب برعظیم کی پوری مسلم قوم غلام تھی۔ منزل نہیں تھی ، شناخت نہیں تھی ۔ بیداری نہیں تھی۔مرضی نہیں تھی۔ حکم دینے والا کوئی اور تھا۔ کام کرانے والا کوئی اور تھا ۔غالب کوئی اور تھا ۔کوئی کھڑ اہونے کو کہتا ۔ کوئی لڑنے کو کہتا ۔ کوئی دہلیز پہ کھڑا کر تا۔ کوئی خیابان میں دوڑاتا ۔ کوئی بند وق ہاتھ میں تھما دیتا ۔کوئی تکنی کا ناچ بچاتا ۔ وفادار ہونا پڑتا ۔ فرض شناسی دکھانا پڑنا ۔ حق بہ حق سرکار تھا ۔ پکار کوئی نہیں سنتا ۔ للکار کی ہمت نہ تھی ۔ لیکن فخر موجودات ؐکی تربیت کر دہ اس سرا پا آگ گروپ کا کیا کہنا۔
ہو حلقہ یاران تو برشیم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
مرد قلند نے یوں کہا تو ریشم فولاد بن گئی ۔ ایک مونس قوم نے دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھا ۔ ادارہ بنا یا ۔وہاں سے سپوت اُٹھے ماں نے زیوارت بھیج کر تعلیم دلوائی اور نصیحت کی۔
کہتی ہے ماں محمد علی کی۔۔۔ جان بیٹا خلافت پہ دے دو
ان کو اپنی ’’ شناخت‘‘ کی پہنچان ہوئی ۔ تو اُٹھے ۔سر پہ کفن ، ہاتھ میں ڈنڈا، ہونٹوں پہ اللہ کا نام ۔۔۔اے ارض پاک سوچنے والا سوچتا ہے ۔کہ تیری وہ صبحیں وہ شامیں ، وہ راتیں کیسی ہونگی کہ راتو ں کو لوگ تیرا خواب دیکھا کرتے دن کو ان خوابوں کی تعبیر کی جد وجہد ہوتی ۔قیدوبند کی صعوبتیں ہوتیں ۔جیل میں چکیاں پسوائی جاتیں ۔منہ کے بل میدانوں میں گھسیٹا جاتا ۔ بات کرنے پر زبان کاٹی جاتی ۔ اداروں اور نوکریوں سے بہ یک جنیشِ قلم باہر کیا جاتا۔ باپ نصیحت کرتا ، کہ بیٹا قوم کا امتحان ایک دفعہ آتاہے۔ بے شک دوسرے امتحانات سے محروم کر دئیے جاؤ مگر یہ امتحان پا س کرو۔
؂اے ارض پاک تیری خاک پر کتنی ماؤں کے آنسو گر چکے ہونگے کتنی بہنوں کی آہیں جذب ہوچکی ہونگی۔ کتنی بیٹیوں کے خواب دفن ہوچکے ہونگے ۔ دوہ دن بھی کیا ہو دن ہوگا جب 22 مارچ 1940 ؁ء کا دن ہوگا۔ کل کے اجلاس کے لئے تیاریاں ہونگی ۔ تونو جوان ادھر ادھر بھاگ رہے ہونگے سٹیج سجایا جارہا ہوگا۔ قرار داد لکھی ہوئی ہوگی ۔ باربار زیرغور رہی ہوگی ۔ ان پاک اور مخلص ہستیوں کا اس پر اتفاق ہوچکا ہوگا۔ وہ کیسا قلم ہوگا۔ وہ پاک روشنائی وہ عظیم انگلیا ں جو یہ الفاظ لکھ چکی ہونگی ۔ رات چھائی ہوگی ۔صبح کا سورج نکل رہا ہوگا ۔آزادی کے پروانے لاہورشہر میں اس میدان کی طرف جوق در جوق روانہ ہو ئے ہونگے ۔کوئی لاوڈ سپیکر ہوگا ۔ لیڈر ہونگے ان کو نہ ہوس اقتدار ہوگا نہ ایوان ، نہ کرسی کی آرزو ہوگی ۔ نہ جائیدادیں بنانے کے خواب ہونگے ۔ صرف ایک ہی خواب ہوگا جومر د قلندر نے دیکھا تھا ۔ الگ وطن کا خواب ، سب کے لئے وطن کا خواب، پاک وطن کا خواب اس میں ملک ، فرقہ ، علاقہ کا تصور نہ ہوگا ۔لوگ جمع ہوئے ہونگے۔ آنکھوں میں اخلاص کے اشک ہونگے ۔ چہروں پر عزم وہمت کا جلال ہوگا۔ اے ارض پاک وہ الفاظ تیری فضاؤں میں تحلیل ہو چکے ہو نگے ۔ تو ان کا گواہ ہے ۔وہ نعرے تیرے پہاڑوں سے ٹکرا چکے ہونگے ۔ قرار دادیں پیش ہوچکی ہونگی ۔ منظور ہوچکی ہونگی ۔ منزل متعین ہوچکی ہونگی ۔ سوچنے والا سوچ رہا ہے ۔ کہ وہ د ن 76 سال بعد پھر طلوع ہورہا ہے۔سوچنے والا سوچتا ہے کہ اے ارض پاک تو قائم و دائم ہے ۔تیری فضائیں ،تیرے صحرا دریا ، تیرے پہاڑ، تیرے جنگلات،تیر ے شہر ، تیر ے سمند ر سب سلامت ہیں۔ تیرے انچ انچ کی حفاظت ہورہی ہے ۔تیری سرحد پہ جوان کھڑا ہے ۔اس کا چہر ا چاند کو شرما رہا ہے ۔اس کے ہونٹوں پر تبسم ہے اس کے سر پہ آرزوں کا تاج ہے ۔ا سکی رگوں میں دوڑن والا خون گرم ہے ۔تیری فضاؤں میں شاہین اُڑان بھر تے ہیں۔ان کی انکھوں میں صفت شاہینی ہے ۔تیرے سمندر محفوظ ہیں ۔تیری پولیس چاق و چوبند ہیں ۔تیرے انجینئر تیری تعمیر میں لگے ہیں تیرا استاد اپنی کلاس میں نو نہا لوں سے تیرا تعارف کرا رہا ہے ۔تیری مائیں دعاؤں میں مصروف ہیں۔سوچنے والاسوچتا ہے کہ کاش تیر ا کوئی جنرل تیر ی حرمت پہ شہید ہونے والے جوان کے خون کے چند قطرے بوتل میں محفوظ کر ے اور لا کے سوچنے والے کو دیدے ۔۔وہ غیرت کے ان چند قطروں کے سمندر میں ڈوب جائے گا ۔۔ یہ قطرے تیری حفاظت کی گواہی دیں گے ۔سوچنے والا سوچتا ہے ۔کہ تیری ایو انوں میں بیٹھے ہوئے تجھے اپنی امانت سمجھنے میں کوتاہی کیوں کر رہے ہیں ۔سوچنے والا کیا کرے اس کے پاس ایک قلم ہے روشنائی کے چند قطرے ہیں۔جذبات ہیں اور الفاظ کے سوغات ہیں وہ سب تجھ پہ وار رہا ہے ۔۔ہاں اے ارض پاک اگر تجھے خون کے چند اور قطروں کی ضرورت ہو تو اس بدن میں خون کے چند قطرے تیری امانت موجود ہیں ۔ اے ارض پاک جو تجھ پہ سر رکھ کے تیری سلامتی کی دعا مانگ رہا ہے وہ تیری یہ امانت تجھے حوالہ کرے گا ۔ اے ارض پاک اللہ تیرے باشندوں کو توفیق دے کہ تیری سچی خدمت کریں تو ایک ایک تحفہ ہے ’’ تحفہ‘‘ واپس لینے کا تصور کہیں نہیں ۔تحفے کی قدر اور حفاظت کی توفیق ہوتو بڑی بات ہے اللہ کرے کہ تجھ پر 23 مارچ کے دن تا قیامت آتے رہیں۔ اور ’’ نگار ‘‘ سلامت رہے ۔ میری پاک سرزمین میرے پاس روشنائی اور آنسوؤں کے چند قطرے ہیں اور یہ چند الفاظ ۔۔۔۔۔۔
اے نگار وطن تو سلامت رہے مانگ تیری ستاروں سے بھر دیں ہم
ہوسکی تیرے رخ پرنہ قربان اگر اور کس کام آئے گی یہ زندگی
اپنے خون سے بڑھا کے رہیں گے سدا تیراگل رنگ چہرے کی تابندگی
جب تجھے روشنی کی ضرورت پڑی اپنی محفل کے شمعیں وقمردیں گے ہم

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button