کالمز

گلگت بلتستان کونسل, ایک سراب یا حقیقت

محمد عرفان چھوربٹی

 گلگت بلتستان کونسل خطے کا وہ نمائندہ ایوان ہے جسے پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں ایمپاورمنٹ اینڈ سیلف گورننس آرڈر   ۲۰۰۹کے تحت قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ چونکہ گلگت بلتستان عالمی سطح پر ایک متنازعہ خطہ رہا ہے لہذٰ حکومت پاکستان اس خطے کی خودمختار حیثیت کوبرقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے جو کہ خود ایک متنازہ کوشش ہے۔جسطرح وفاق نےگلگت بلتستان میں   اپیلٹ کورٹ جیسے  اہم ادارے قیام عمل میں لایا ہے جو کہ علاقے کی سب سے اعلیٰ سطح کی عدالت ہے یعنی یہ ادارہ گلگت بلتستان میں سپریم کورٹ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسی طرح  گلگت بلتستان کونسل  کو اگر سینٹ آف پاکستان کا نقل کہا جائے تو کسی حد تک غلط نا ہو گاکیونکہ اس ایوان کی بھی بنیادی ذمہ داری گلگت بلتستان کے عوام کے لئے قانون سازی کرنا ہے۔  یہ ایوان جو کہ بارہ ارکان پر مشتمل ہوتا ہے  جن میں سے چھ ارکان کو بلاواسطہ یعنی  گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے اراکین کے ووٹوں سے منتخب کیا جاتا ہے جبکہ دیگرچھ ارکان کو وزیر اعظم پاکستان جو کہ اس ایوان کے چیرمین ہیں خودبراہ راست چناو کرتا ہے۔ سابق ادوار میں یہ بات دیکھنے میں آیا ہے کہ کونسل کےبارہ میں سے چھ رکن ایسے چنے گئے جن کا تعلق گلگت بلتستان سے نہیں تھا جسکی وجہ سے سابق حکومت میں یہ ایوان فعال نہ رہ سکا یوں  یہ ادارہ جو کہ گلگت بلتستان کی خود مختاری کی علامت کے طور پر قیام عمل میں لایا گیا تھا وہ برائے نام ہو کر رہ گیا۔  2009 سے اب تک بڑے عوامی مسائل اور معاشی ترقی کے حوالے سے کوئی معنی خیز قانون سازی بھی نہیں کی گئی ۔ بظاہر تویہ ایوان گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے پاس کردہ قوانین کو دو تہائی اکثریت سے  پاس کرنےیا رد کرنے کا مکمل  اختیار رکھتا ہے،  لیکن یہاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ کیا اس ایوان میں موجود تمام نمائندے گلگت بلتستان کے عوام کے حقیقی نمائندے ہوں گے بھی کہ نہیں،  کیا وہ گلگت بلتستان کے مسائل سے صحیح معنوں میں واقف ہونگے۔

  اسلام آباد، لاہور یا ملتان کااسمبلی ممبر ان متعلقعہ شہروں کے مسائل سے تو بخوبی آگاہ ہوتا ہے اور انہی علاقوں سے منتخب ہونے کی بنا پر ان علاقوں کی ترقی اور مسائل کے حل کے لئے دلچسپی بھی رکھتا ہے لیکن ایک شخص جس کو نہ گلگت بلتستان کے لوگوں نے منتخب کیا ہو اور نہ وہاں کے جغرافیائی اور معاشرتی پیچیدگیوں  سے آگاہ ہو وہ کیسے اور کیونکر گلگت بلتستان کے حوالے سے قانون سازی کر سکے گا۔دنیا بھر کے آیئن اور قوانین اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ کسی بھی  ملک، شہر یا گاوں کا باشندہ ہی اس علاقے  کے عوام کا قانونی نمائندہ بن سکتا ہے اور اس خطے میں رہنے والے لوگوں کے حال اور مستقبل سے متعلق فیصلے کر سکتا ہے۔

گو کہ یہ بات خوش آئیند ہے کہ حال ہی میں گلگت بلتستان کونسل کے چھ ارکان کا چناو احسن طریقے سے عمل میں لایا گیا جن میں  پاکستان مسلم لیگ ن کے سلطان علی خان، اشرف صدا، وزیر محمد اخلاق،  ارمان شاہ  ، اسلامی تحریک کے آغا سید عباس رضوی  اور آزاد امیدوار سید افضل شامل ہیں ۔ دیکھنے میں آ رہا کہ  کسی نہ کسی شکل میں وفاق2009 سے  گلگت بلتستان کے عوام کو بااختیار بنانے کہ کوشش کی کررہی ہے مگر اچھی بات یہ ہوگی اگر گلگت بلتستان کونسل کے تمام بارہ ارکان  کا چناو گلگت بلتستان سے ہی کیا جائے ۔ موجودہ صورت حال میں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ کونسل  کے تمام ممبرز کا تعلق گلگت بلتستان سے نہ ہونے کہ صورت میں نہ صرف یہ ایوان صحیح معنوں میں عوامی مسائل پر مبنی قانون سازی کر سکے گی بلکہ  گلگت بلتستان قانون ساز اسمبلی کے پاس کردہ قوانین بھی یہاں آ کر متاثر ہو سکتے ہیں۔ گذشتہ برس وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف نے اپنے دورہ گلگت بلتستان کے موقع پر اس بات کا اعلان کیا تھا کہ آیئندہ جی بی کونسل کے اجلاس گلگت بلتستان میں ہی ہوا کریں گے ۔ ان اعلانات کے پسَ منظر میں اُمید کی جاسکتی ہے کہ وہ کونسل کے باقی چھ ارکان کا چناو بھی گلگت بلتستان سے کر کے گلگت بلتستان کے عوام کو با اختیار بنانے میں ایک اور سنگ میل طے کریں گے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button