کالمز

گلگت بلتستان اور کشمیر میں فاصلے مٹانا ناگزیر

تحریر:حفصہ مسعودی

میں نے جب سے مسئلہ کشمیر میں دلچسپی لینی شروع کر دی ہے ، کشمیر سے تھوڑی بہت واقفیت رکھنے والوں سے اکثر میں دو سوال ضرور کرتی ہوں۔ کیا کبھی کشمیر آزاد ہوگا ؟نوے فیصد سے زیادہ کا جواب اثبات میں ملا تو میرا یہ یقین پختہ ہو اکہ اس مسئلے کا کوئی نہ کوئی قابل قبول حل ضرور نکلے گا، دوسرا سوال یہ ہوتا ہے کہ آپ کے نزدیک مسئلہ کشمیر کے حل میں سب سے بڑی رکاوٹ کیا ہے؟ تو تقریبا ستر فیصد اہل رائے کا جواب یہ تھا کہ ایک مشترک مسلمہ رہنما ، جو تینوں خطوں کی نمائندگی کر سکے۔ (یہ کوئی سروے نہیں ہے ، میرے ذاتی حیثیت میں اہل دانش سے کئے گئے سوال ہیں سو ان کو اسی طرح سمجھا جائے )۔ اب ایسی لیڈرشپ کا میسر ہو پانا بظاہر ناممکن ہے ، لیکن پوری ریاست کم از کم ایک نکتہ پر یکجا ہے جو کہ اس کی” متنازعہ حیثیت” ہے ۔ یہ ’متنازعہ حیثیت‘ کئی ٹکڑوں میں بٹی ریاست کے ہر ٹکڑے کا مسئلہ کسی نہ کسی طرح ضرورہے ، کسی جگہ کم اور کہیں زیادہ۔اس متنازعہ ریاست کے تین انتظامی خطوں ، گلگت بلتستان، آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر کی آپس میں لاتعلقی بہت زیادہ ہے ، ایسا لگتا ہے کہ نہ یہ دوسرے کے حالات سے باخبر ہیں نا ہی دلچسپی رکھتے ہیں۔اس کی کچھ مثالیں اسی ماہ میں پیش آنے والے حالات و واقعات سے لگایا جا سکتا ہے۔ مثلا ہفتہ عشرہ قبل مقبوضہ کشمیر میں ایک بدترین سانحہ ہوا ، جس میں پانچ لوگوں کی جانیں گئیں ، کئی زخمی ہوئے اور علاقے میں کرفیو نافذ رہا۔ ایک ہفتہ تک آزاد کشمیر والوں نے اس سارے منظر نامے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی اور یہ صرف ایک واقعہ ہے اس سے پہلے بھی اس طرح کے کئی واقعات ہوتے رہے ہیں۔ ہندواڑہ سانحہ سے ایک ہفتہ قبل گلگت بلتستان کے حالات بہت مخدوش رہے ، بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ نے انسانی زندگی کو مشکل بنا دیا تھا ، لینڈ سلائیڈنگ اور بارشوں کے باعث مکانات کی چھتوں کے منہدم ہونے سے 15 افراد لقمہ اجل بن گئے تاہم آزاد کشمیر کے اخبارات میں یہ صرف دو کالمی خبریں آتیں رہیں ، جن کو شاید آزاد کشمیر کے عوام نے دلچسپی سے پڑھی یا نہیں لیکن حکمران( یعنی گھر کے رکھوالے) اس سب سے ایک دم بے خبر تھے یا اگر با خبر بھی تھے تو تجاہل عارفانہ سے کام لیتے ہوئے اس کے بارے میں ایک لفظ بھی بول نہیں پائے۔دوسری جانب آزاد کشمیر میں انتخابات کا سال ہے لیکن گلگت بلتستان اور مقبوضہ وادی کے ہم وطنوں کی اس میں کوئی دلچسپی نظر نہیں آ رہی یا شائد کوئی دلچسپی ہے ہی نہیں ، وہ الیکٹورل کالج کا حصہ نہ سہی پھر بھی اس خطے میں سمجھ دار اور مخلص حکمرانوں کا ہونا ان کے لئے بھی سود مند ثابت ہو سکتا ہے۔ زمینی روابط کا بحال ہونا ،انتہائی مشکل سہی لیکن ہم گلوبل ویلیج میں رہتے ہیں ، جہاں دنیا سمٹ کر صرف ایک سکرین پر آ گئی ہے۔ سوشل میڈیا ، پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا عوام کی رائے سازی میں اہم کردار ادا کررہے ہیں بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ معاشرے کا چہرہ بن کر ابھر رہے ہیں۔ اور اسی طرح ان کا کردار بھی بہت اہم اور بنیادی ہے لیکن ہم اس وقت بھی جب یہ تمام سہولیات موجود ہیں ایکدوسرے سے بے خبری کی زندگی گزار رہے ہیں۔کیا ہم جان بوجھ کر ایک دوسرے سے بے خبر رہنا چاہتے ہیں یا پھر ماضی کی رنجشیں اور غلط فہمیاں ہمیں ایکدوسرے سے دور رکھے ہوئے ہیں ؟

2009 سے قبل گلگت بلتستان کے عوام معائدہ کراچی کو لیکر کشمیر سے نفرت کا اظہار کرتے رہے لیکن گلگت بلتستان کے پہلے وزیر اعلی مہدی شاہ نے آزاد کشمیر کا دورہ کیا جسے بے حد پذیرائی ملی اور اس کے بعد آزاد کشمیر کے صدر سردار یعقوب نے پہلی مرتبہ بحیثیت صدر آزادکشمیر گلگت بلتستان کا دورہ کیا لیکن یہ سلسلہ بھی آگے نہ بڑھ سکا اور آزادکشمیر اسمبلی میں گلگت کو صوبائی درجہ کے خلاف قراردادوں نے گلگت بلتستان کو ایک بار پھر کشمیر سے دور کر دیا ۔ اور جوابا آزادکشمیر کی قراردادوں کے خلاف قرارداد پیش کی گئیں جس سے سیاسی حوالے سے آمد و رفت کا ایک سلسلہ جو شروع ہونے جا رہا تھا رک گیا ، حال ہی میں وزیر اعلی گلگت بلتستان حفیظ الرحمن نے آزاد کشمیر کا ایک دورہ کیا جو صرف فاروق حیدر کے گھر تک محدود رہا اور اس کا کوئی مثبت اثر نہیں نظر آ رہا ۔تحریرکا مقصد یہ ہے کہ حکومتی سطح پر ریاست کے دو خطوں کے حکمرانوں کی ایکدوسرے سے دلچسپی دکھائی جا سکے۔حکومتی سطح سے ہٹ کر بات کی جائے تو آزاد کشمیر کے تعلیمی اداروں میں گلگت کے طلبا خال ہی ملتے ہیں اور گلگت میں تو کشمیر کے طلبا کا جانا ہی ہوتا اور نا ہی کوئی روائتی راستہ (جو 1947 سے قبل ہوتے تھے، جیسے کہ شونٹر ٹاپ جو شاہراہ کبھی استور کا باقی دنیا سے رابطے کا سبب ہوا کرتا تھا)موجود ہے کہ طلبا آسانی سے مظفر آباد سے گلگت یا گلگت سے مظفرآباد کا سفر آسانی سے کر سکیں۔( اس وقت گلگت سے مظفر آباد سے جانے کیلئے اسلام آباد آنا پڑتا ہے اور روائتی راستے سے جو سفر 8 سے 10 گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اسے طے کرنے کیلئے 20،22 گھنٹے لگ جاتے ہیں)، یہ ان دو خطوں کی صورت حال ہے جن کے مابین کھلی آمدو رفت پر کوئی پابندی نہیں ہے، دوسری طرف مقبوضہ وادی ہے ، جس تک پہنچنے میں پاسپورٹ اور پرمٹ سمیت کئی قسم کی قانونی و سیاسی پیچیدگیاں حائل ہیں ۔ اس لئے حکمرانوں یا عوام کی آمدورفت ایک خواب کی سی حیثیت اختیار کر گئی ہے ۔ ا س صورتحال میں جب زمینی اور سیاسی رابطوں کا فقدان ہے تو عوام اورزمینی حالات سے باخبر رہنے کا ایک ہی ذریعہ سے اور وہ میڈیا ہے لیکن کسی بھی خطے کے مقامی میڈیا میں دوسرے خطہ سے متعلق پڑھنے کو کچھ نہیں ملتا۔ یا ملتا بھی ہے تو وہ انتہائی ناکافی ہوتا ہے

اس وقت ، وقت کی بنیادی ضرورت تینوں خطوں کے درمیان ، بیزاری ، لاتعلقی اور نفرت کا خاتمہ کرنا ہے ، زمینی روابط مشکل سہی ، لیکن رابطوں کے باقی ذرائع استعمال کئے جا سکتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ نہ صرف حکمران بلکہ سول سوسائٹی بھی وقت کی اس ضرورت کو سمجھیں ، اور اس کو پورا کرنے کے لئے مناسب اقدامات کریں ، کوئی ایسا پلیٹ فارم ہونا چاہئے جہاں تینوں خطوں کے لوگ اپنی آرا کا اظہار کر سکیں ، دوسرے خطے کے لوگوں تک اپنی بات پہنچا سکیں ، فاصلوں کو کم اور قربتوں کو زیادہ کر سکیں ، جو پہلے سے موجود رابطے کے ذرائع ہیں ان کو بڑھایا جائے۔

پرنٹ میڈیا اس سلسلے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ، کوئی ایسا اخبار ہو جو اگر آزاد کشمیر سے شائع ہو رہا ہے تو اس کا ایک صفحہ مقبوضہ وادی کے لئے اور ایک گلگت بلتستان کے لئے مختص ہو ، اسی طرح وادی سے شائع ہونے والے خبارات بھی آزاد کشمیر اور گلگت کو شامل کریں ، اور گلگت سے بھی ۔ اگر ایسا ہو سکے تو یہ بہت اہم پیش رفت ہوگی ، نہ صرف فاصلے کم ہوں گے ، ایک دوسرے سے لاتعلقی کم ہوگی ، بلکہ عوام کو بھی دوسرے خطوں میں بسنے والے ہموطنوں کے بارے میں معلومات مل سکیں گی ۔ سیاست دانوں کو ایک دوسرے کے سیاسی نظریات سمجھنے میں مدد ملے گی ، ایک بات تو طے ہے کہ آپس کے فاصلے اور نفرتیں ختم کئے بغیر ہم آگے بڑھ نہیں سکتے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button