کالمز

آنسووں کی سوغات

 کیپٹن محمد اجمل خان شہید کی پہلی برسی تھی۔تریچمیر ویو موٹل کا ہال سجایا گیا تھا۔بینرز تھے۔۔۔۔آج تم بے حساب یاد آے۔۔۔صلہ شہید کیا ہے تب تاب جاویدانہ۔۔۔شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن۔۔۔شہید کے رشتہ دار ،خاندان والے،شہر کے مغززین،شہید کے آبائی گاؤں والے،سیاسی عمائیدیں ،ریٹائیڈ فوجی،ڈاکٹرز پروفیسرز،انتظامیہ کے افیسرز،ریڈو پاکستان کے نمایندے،صحا فی ا ور نوجواں بڑی تعداد میں موجود تھے۔شٹیج پر ضلعی ناظم حاجی معفرت شاہ،سابق ام پی اے سید احمد خان،شہید کے ابو اور کمانڈنٹ چترال سکاؤٹ کرنل نظام الدین شاہ تشریف فرما تھے۔۔محفل خراج تحسین کی تھی۔محفل شاباشی کی تھی ۔ہر ایک سو چ رہا تھا کہ جس کی موت اتنی شاندار ہو اس کی زندگی کی خوبصورت کیا ہوگی۔پھر ہر ایک سوچ رہا ہوگا کہ یہ پاک فوج،یہ سپاہی لوگ،یہ بندوق ،یہ خون،یہ خون کی اہمیت یہ سب کیا ہے؟اس میں ایسا کیا جادو ہے، کیا لذت ہے، کیا شیرینی ہے،کیا کیچھاؤ ہے،۔کہ ایک چاند سا نوجوان ہزاروں فٹ بلندی پر گلیشر میں اپنی بندوق کو بوسے دے رہا ہے۔۔وہ لمحہ بھر اگر ہنسی کی محفل میں ہوتا ہے مگر اس سمے خاک وطن پکارے تو شیر کی طر ح جھپٹتا ہے۔یہ جوان قوم کو زندہ رکھنے کے لئے اللہ کی طرف سے تخفہ ہے۔محفل سجی تھی۔۔ انسو پہلے سٹیج سیکریٹری کی آنکھوں سے گرنا شروع ہو گیں جب اس نے کہا کہ یہ محفل کیسی سجی ہے یہ اگر کسی کی یاد میں سجی ہے تو اس کو میرا رب زندہ کہتا ہے۔زندہ کو افرین کیا جاتا ہے ۔۔یاد کیسی؟۔۔دو قطرے انسو سٹیج پہ گرے۔۔قاری شعیب نے قرآن حکیم کی تلاوت کی۔۔۔۔اللہ کی راہ میں مرنے والوں کو مردہ مت کہو وہ زندہ ہیں ۔۔۔۔آنسو گرے تحسین الفاظ بن گئے۔۔شہید کے تایا جی یار محمد خان نے کہا۔۔شہید اجمل پر مجھے اور میرے خاندان کو فخر ہے۔۔آنسو گرے۔۔ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی نے شہید کا پروفائیل پیش کیا۔آخر میں کہا ۔۔۔یہ دنیا میں اس کی آخری پوسٹنگ تھی پھر اس کی پوسٹنگ جنت الفردوس میں ہو گئی۔۔انسو گرے۔۔افرین کی صدا بلند ہوئی۔ڈی ایس پی خالد خان نے اس کی شہادت کا واقعہ بیان کیا ۔کہا کہ میں نے اپنی آنکھوں سے فوج اور پولیس کے جوانوں کو خون میں لت پت تڑپتے دیکھاہے ۔میں نے لاشیں اٹھائی ہے مگر مجھے شہید اجمل کے خاندان سے اپنے تعلق پر فخر ہے۔انسو گرے۔۔۔۔عسمت عیسیٰ نے فلسفہ شہادت پر بحث کی۔۔کہا بخاری شریف کی حدیث ہے حضور ﷺ نے فرمایا۔۔قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے۔میں اس کو بہت پسند کرونگا کہ راہ خدا میں شہید کئے جاؤں پھر زندہ کئے جاؤں پھر شہید کئے جاؤں پھر زندہ کئے جاؤں پھر شہید کئے جاؤں ۔۔۔۔آخر انجام میں شہید کہا ۔۔۔انسو گرے۔۔۔مولانا حسین احمد نے شہادت کے مرتبے کو واضح کیا اور کہا کہ ہم قدم قدم پر پاک فوج کے ساتھ ہیں ۔جب بھی پکارے گی ہمیں پہلی صف میں پائے گی۔۔انسو گرے ہاتھ اٹھے اور انشااللہ زبانوں سے نکلے۔۔وقار احمد نے صدر پاکستان ،جنرل راحیل شریف اور دوسرے آفیسرز کے پیغامات پڑھے۔۔رشید احمد مرثیہ پڑھا۔فاروق احمد کا لکھا ہوا مرثیہ انثار الہی کی آواز میں سنائی گیا۔ڈاکومنٹری دیکھائی گئی۔شہید کے باپ کو دعوت دی گئی ۔ کہا کہ کون کہتا ہے اجمل میرا بیٹا ہے جس کی موت قوم کی حیات ہے وہ قوم کا بیٹا ہے اس نے کہا کہ یہ میرے خاندانی روایت رہی ہے انھوں نے اپنے خاندان کے مجاہدیں اور شہداٗکا ذکر کیا۔۔انسو گرے افرین ہوئی۔حاجی معفرت شاہ نے کہا کہ مدینے کے بعد اللہ کے نام پہ بنا ہوا یہ دوسری ریاست ہے اس کی حفاظت خدا کرے گا ہم پاک فوج کے دست و بازو ہیں ۔۔انھوں نے شہید اجمل کے خاندان کو مبارک باد پیش کیا ۔۔۔سٹیچ سیکرٹیری نے کہا ۔۔کہ مجھے اس جوان پہ شدت سے پیار آتا ہے۔جو پاک وطن کی سرحد پہ کھڑے بندوق مضبوطی سے پکڑے دشمن کو تاڑ رہا ہوتا ہے۔زندہ قوموں کو اپنے پاسبانوں سے عقیدت ہوتی ہے۔ہم زندہ قوم ہیں ہمیں اپنے پاسبانوں پہ فخر ہے۔۔کرنل نظام الدین شاہ سٹیچ پہ آئے تو حاضریں کی آنکھوں میں انسووں کے ساتھ چمک اتر آئی۔یو ں لگ رہا تھا کہ ابھی سب کی آنکھوں کے سامنے شہید اجمل جان دے رہا ہے۔ایسا لگ رہا تھا کہ کرنل نظام الدین شاہ دشمن کی سرحد پر تن کے کھڑا ہے۔اور بتا رہا ہے کہ لو سپاہی کی زندگی ایسی ہوتی ہے۔۔۔کہا میں اپنی پچاس سالہ زندگی اور قومی تاریخ کو دیکھتا ہوں تو سوال ذھن میں اٹھتا ہے کہ یہ خو ن کیا ہے؟ اس کی اہمیت کیا ہے؟پھر میں پوری انسانی تاریخ دیکھتا ہوں تو مجھے خون کی اہمیت کے سوال کا ایک ہی جواب ملتا ہے کہ خون زندگی ہے۔۔۔میں حضرت آدم علیہ سلام سے شروع کرتا ہوں تو ہابیل اور قابیل سے خون کی اہمیت شروع ہوتی ہے۔آتے آتے یہ حضرت ابراہیم ؑ اور حضرت اسماعیلؑ تک آتی ہے۔۔خدا کے نبی اپنے لخت جگر کو چت لیٹایا ہے۔جگر گوشہ کہتا ہے ۔۔ابو اپنی آنکھوں پہ پٹی باندھو ذبخ کرتے ہوئے میرے چہرے کی طرف دیکھو گے تو مجھ پہ کہیں ترس نہ آئے اور خدا کا حکم۔۔۔۔۔آخر اس خون کی اہمیت کیا ہے ؟ تاریخ آگے بڑھتی ہے ۔۔میدان کربلا آتا ہے حسین علیہ سلام اپنے لخت جگر دونوں ہاتھوں میں اٹھائے دوشمنوں کے سامنے جاتا ہے۔بس دو قطرے پانی چاہئے وہ بھی اپنے لئے نہیں دو سالا معصوم کیلئے۔۔۔جگر گوشے کے خلق میں تیر لگتا ہے۔۔خون گرتا ہے آخر اس خون کی اہمیت کیا ہے؟تمہیں کیا پتہ کہ سپاہی کی زندگی کیسی ہوتی ہے ۔تم ہمیں کبھی وردی میں کبھی عام کپڑوں میں دیکھتے ہو۔لیکن ہماری حقیقت کا تمہیں پتہ نہیں ہم وردی میں جب ہوتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتے ہیں ۔سب آسائشوں سے محروم ہوتے ہیں یہاں تک کہ آپنے ماں باپ کے جنازوں کو کاندھا دینا بھی نصیب نہیں ہوتا۔کرنل کے انسووں میں سب کے اشک شامل ہوگئے۔تم خون کی اہمیت کو سمجھا کرو۔تم کیا سمجھ بیھٹے ہوکہ شہید اجمل ایک تھا ہم سب شہید اجمل ہیں ۔ہم میں سے سب کے بیٹے شہید اجمل ہیں ۔سب نے کہا اس میں شک کیا ہے؟ پاک دھرتی کا زرہ زرہ اس لئے محفوظ ہے کہ یہاں پر قدم قدم پہ شہید اجمل ملتے ہیں اس بات کا ثبوت شہید اجمل کے ابو کا یہ عزم ہے ۔۔کہ اگر میرے دس بیٹے بھی ہوں تب بھی میری آرزو ہو گی کہ یہ سب پاک دھرتی پہ قربان ہوں ۔۔۔۔دعا ہوتی ہے۔۔۔اور احتتام ہوتا ہے۔

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button