کالمز

ایجنسی ہسپتال سے ڈی ایچ کیو تک

 محمد شریف رحیم آبادی

پاکستان پیپلز پارٹی کا ایک سرگرم اور دیرنہ کارکن غلام محمد عرف جی ایم اپنی نجی امور کے انجام دہی کیلئے موٹر سائیکل پر رحیم آباد سے گلگت کی طرف رواں تھاکہ موضع سلطان آباد میں سامنے سے آنے والی تیز رفتار موٹر سائیکل جسے ایک منچلہ نوجوان چلا رہا تھا کہ ساتھ زور دار تصادم کے نتیجے میں شدید زخمی ہوا جائے وقوعہ پر موجود لوگوں کی مدد اور ریسکو 1122 کی بروقت آمد کی بدولت اسے صحت فاؤنڈیشن لے جایا گیا۔متعلقہ ڈاکٹروں نے زخمی کی کنڈیشن کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ڈی ایچ کیو ہسپتال ریفر کردیا۔ڈی ایچ کیو میں میڈیکل آفیسر اور اس کی ٹیم نے ابتدائی طبی امداد دیتے ہوئے مرہم پٹی کی مگر ڈیوٹی میڈیکل آفیسر کے کال کرنے کے باوجود متعلقہ سینئر میڈیکل آفیسر بروقت ہسپتال نہ پہنچ پائے۔جی ایم کوہیڈ انجری ہوا تھا سٹی سکین کے بعد ہی صورت حال واضح ہوسکتا تھا جس کی وجہ سے تیمارداری کیلئے آنے والوں اور رشتہ داروں میں بے چینی پیدا ہوا۔ کافی تک ودو کے بعد صوبائی حکومت کے ایک اہم عہدہ دار جو متاثر شخص کا قریبی عزیز بھی ہے سے رابطہ کیا گیا۔ان کے ایکشن لینے اور ہسپتال کے انتظامیہ سے رابطہ کے فوراً بعد زخمی کو ایکسرے اور سٹی سکین کی سہولت دی گئی۔بعداز ایکسرے اور سٹی سکین زخمی کا پراپر ٹریٹمنٹ شروع ہوا اور دوسرے روز اسے پیمز ہسپتال اسلام آباد ریفر کیا گیا۔اس کالم کولکھنا کسی کی دل ازاری یا شکایت مقصود نہیں مگر اس سسٹم میں موجود خامیوں اور انہیں دور کرنے کی سعی کہا جاسکتا ہے۔ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال جو کہ کبھی ایجنسی ہسپتال کے نام سے موسوم اور مشہور تھا گلگت بلتستان کے تاریخی اداروں میں شمار ہوتا تھا اور اس کی اہمیت اب بھی بدرجہ اتم موجود ہے۔یہاں سے لاکھوں نہیں کروڑوں مریض مستفید اور صحت یاب ہوچکے ہیں

افسوس کے ساتھ اپنی تحفظات کو روشنائی کی طاقت اور قلم کی حرمت کے ساتھ حکام بالا کو گوش گزار کرانا چاہتا ہوں۔مذکورہ ہسپتال میں گلگت بلتستان کے طول عرض سے سینکڑوں کی تعداد میں مریض روزانہ کی بنیاد پر اپنی علاج کی غرض سے آتے ہیں۔کیا موجودہ سسٹم اور اس کے دستیاب وسائل لوگوں کی ہمہ وقت خدمت اور تواقعات پر اترنے کی صلاحیت رکھتا ہے یا عاری ہے ؟۔سٹاف کی کمی ہے ایک نرس دن کے 2 بجے سے صبح 9 بجے تک مسلسل 18 سے 19 گھنٹے ڈیوٹی دیتا ہے،کام کا اتنا بڑا بوجھ اسے پیشہ وارانہ ذمہ داریوں سے عہدہ برآں ہونے اور صحیح ٹریٹمنٹ ممکن ہے ؟۔ ان کی ایک چھوٹی سے غلطی سے مریض کی قیمتی جان کی جاسکتی ہے۔اس ہسپتال کی نرسنگ سٹاف کی ایک بڑی تعداد اپنی اثر روسوخ کی بنیاد پر دیگر جگہوں میں ڈیوٹی دے رہے ہیں جوکہ لمحہ فکریہ ہے،ڈاکٹروں کی کمی کی وجہ سے سینئر سپیشلسٹ ڈاکٹر ہر مریض کو مناسب وقت نہیں دے سکتے اور اس کا صحیح چیک اپ محال دیکھائی دیتا ہے۔صوبائی حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ صحت کے اس اہم ادارے پر بھر پور توجہ دیتے ہوئے انگریز دور میں بننے والی اور ڈوگروں کی دور میں ترقی پانے والی اس تاریخی ادارے پر خصوصی توجہ دے،

گرچہ پاکستا ن بننے کے بعد کسی حد تک اس کی تعمیر و ترقی کیلئے کام ہوا ہے مگر یہ اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر۔صحت سے متعلق Equipments اور مشینری جو دور جدید کا تقاضا ہے۔محال ہے کہ سابقہ صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے توجہ دی ہو۔صوبائی حکومت کا مینڈیٹ اس طرف توجہ کا تقاضا کرتا ہے کہ وزیراعلیٰ صاحب کبھی اس ادارے کا وزٹ کرکے مریضوں سے ان کے مسائل اور انتظامیہ و کارکنوں کو جن دقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کے بارے میں آگاہی حاصل کرتے ہوئے مستقبل کیلئے دور رس نتائج کا حامل پلان مرتب کرے اپنی ٹیم سے مخلص،ایماندار اور پُرعزم رہنماؤں کو اس پر من وعن عمل کرنے کا ٹاسک دے۔اگر ایسا نہ ہوا تو تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی اور موجودہ مینڈیٹ جو آپ کو ملا ہے سوالیہ نشان بن جائے گا۔

اخیر میں جی ایم صاحب کی صحت یابی کیلئے دعا کی اپیل کی جاتی ہے

آپ کی رائے

comments

پامیر ٹائمز

پامیر ٹائمز گلگت بلتستان، کوہستان اور چترال سمیت قرب وجوار کے پہاڑی علاقوں سے متعلق ایک معروف اور مختلف زبانوں میں شائع ہونے والی اولین ویب پورٹل ہے۔ پامیر ٹائمز نوجوانوں کی ایک غیر سیاسی، غیر منافع بخش اور آزاد کاوش ہے۔

متعلقہ

Back to top button